اہل مغرب اور ماہ رمضان


چند دن پہلے سوشل میڈیا کی پوسٹ میری نظروں سے گزری جس میں ایک شخص بتا رہا تھا کہ لوگ مغرب میں ماہ رمضان کیسے گزرتے ہیں۔ وہ کیمرہ ایک بہت بڑے گروسری سٹور میں لے گیا یہ وڈیو غالباً رمضان سے دو چار دن پہلے کی ہوگی۔ جب وہ کیمرہ سٹور کے اندر لے کر گیا تو سٹور میں جگہ جگہ مسلمانوں کو ماہ رمضان کی مبارک باد کے پوسٹر لگے ہوئے تھے اور افطاری کا سامان یعنی روح افزاء، پاکستان سے امپورٹ کیے گے مالٹے یا کنوں اور دیگر ہر سامان کی پہلی ہی رو میں رمضان آفر کے ٹیگ کے ساتھ سمجھایا گیا تھا یہ میرے لیے بہت خوشگوار حیرت بھی تھی اور پاکستان میں غیر مسلم کے تہواروں پر ہمارے رویوں کا تقابلی جائزہ بھی تھا۔

میں نے جھٹ سے گوگل پر کینیڈا میں مسلمانوں کی تعداد نکالی ڈالی تو معلوم ہوا یہ صرف تین اعشاریہ سات فیصد ہے یعنی پاکستان میں اقلیتوں کی کل تعداد سے قدرے کم تھی، مزید تجسس ہوا اور میں نے دیگر ملکوں میں بھی پرسنٹیج بھی نکالی جائے تو وہاں پر بھی کم و بیش ایسی ہی ریشو ملی۔ میں حیران تھا مغرب میں ماہ رمضان کے موضوع پر اس وڈیو میں جو دکھائی دے رہا تھا ہر جگہ وہاں کے معاشرے میں دوسروں کے لیے قبولیت اس قدر کھلے دل سے تھی میرا فوراً دھیان اپنے وطن کی طرف آ گیا۔

میں یہ بات یقین سے کہتا ہوں حکومت تو حکومت عام آدمی کو بھی محب وطن اقلیتوں کے مذہبی تہواروں کا اتنا علم نہیں ہو گا اور اگر کہیں ایسا ہے بھی تو وہ یقیناً ان تہواروں کو خرافات کہنے کے سوا کچھ نہیں۔ ویسے تو اس کی بہت سی سماجی، سیاسی اور اخلاقی وجوہات ہیں فی الحال ہم اس پوائنٹ پر ہی رہیں گے۔ اب سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے ان مقدس ایام کا اس قدر احترام سرکاری سطح پر بھی ہے اور عام آدمی بھی ایسے ہی سوچتا ہے۔

گوروں کا یہ جوش و جذبہ جو ان کے عمومی روئیے سے امڈ امڈ کر باہر آ رہا تھا ناقابل یقین دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے برعکس اگر نظر دوڑائیں اپنی طرف تو آمد رمضان میں جب کہ ہم پر توبہ استغفار، دعائیں روزے اور عبادات کے ساتھ کم، تولنا، زیادہ منافع خور سے بھی اجتناب کرنا ہے۔ لیکن ہم نے خلق خدا کے لیے دو وقت کی روٹی بھی عذاب بنائی ہوتی ہے۔ سنا ہے اس ماہ میں شیطان کو باندھ دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر آپ دیکھیں تو پاکستان میں بھی کم و بیش ساری غیر ملکی کمپنیاں اپنا منافع کم کر دیتی ہیں۔ لہذا جب اس لڑکے نے سٹور کے اٹینڈنٹ سے رمضان میں روزوں کے ایام کے بارے میں پوچھا تو گورے نے پر تپاک لہجے میں کہا۔ رمضان مبارک اور ہنس کر انگوٹھے کے نشان سے گڈ لک کہہ چلا گیا۔

ہمارے ہاں عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کے مغرب میں مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا، لوگ اب مسلمانوں سے چڑنا شروع ہو گئے ہیں خاص کر پردہ کو لے کر تو کچھ زیادہ ہی ری ایکٹ کرتا ہے اور یہ تاثر بھی عام پایا جاتا ہے کہ مغرب ہمارے خلاف سازشیں کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بات کہیں سچ بھی ہو لیکن جب ہم وہاں جا کر یا ان سے بات چیت کر کے دیکھتے ہیں تو ایسا کچھ بھی نہیں لگتا۔ دوسری بات، اگر ایسا ہی ہو تو پھر ہم ہر قیمت پر وہاں جانا یا اپنے بچوں کو وہاں تعلیم دلوانا یا وہاں کی شہریت دلوانا کیوں پسند کرتے ہیں۔

بھلا جہاں سلوک اچھا نہ وہاں جانے کو کیونکر دل چاہے گا۔ اگر آپ اس مسئلے کو غور دیکھیں تو ہمارے ہاں دو طبقات کے لوگ ہیں ایک جو اپنی تقریروں او ر خطبوں میں تو یہ سب کچھ کہتے ہیں کہ مغربی معاشرہ میں یہ یہ مغلظات ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن خود اپنی بات پر عمل نہیں کرتے نظر نہیں آتے۔ یہاں تک کہ اپنے بچوں کی تو تعریفی اسناد کو سوشل میڈیا پر لہرا لہرا کو دکھاتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایسے لوگ ہم عام آدمی کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے یا اعلیٰ تعلیم کے سلسلہ بیرون ممالک یعنی مغرب ممالک میں جانا یا بھیجنا پسند نہیں کرتے تاکہ ہم آگے نہ بڑھ سکیں اور ان کی مقابلہ میں نہ آ سکیں؟ یعنی جن سازشوں کا الزام وہ مغرب پر لگا رہے ہوتے ہیں وہ خود ہی اپنے ہم وطنوں کے خلاف کر رہے ہو تاکہ ملک کی اکثریت کہیں ترقی کر کے انہیں ووٹ دینے یا تابعداری سے منحرف نہ ہو جائے۔ بات تو سوچنے کی!

ہم بات کر رہے تھے۔ کیا مغرب میں لوگ ماہ رمضان کے بارے میں جانتے ہیں؟ اس وڈیو سے معلوم ہوا نہ صرف جانتے ہیں بلکہ احترام رمضان میں خورد و نوش کی قیمتیں بھی ہر مسلمان اور اہل ایمان کی پہنچ میں کر دیتے ہیں حالانکہ ابھی انہیں اسلامو فوبیا بھی ہے یعنی بقول ہمارے قابل احترام ہینڈسم کے مغرب کو اسلاموفوبیا ہے اور پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں اور اہل مغرب ہمارے خلاف دن رات سازشوں میں بھی مصروف ہے اور دن رات ہماری تعلیم، اقدار اور اخلاقیات کو چوری کر کے بھی لے جایا جا رہا ہے۔

آپ ذرا یوٹیوب کے مفکرین کو ہی دیکھ لیں ان کے وڈیوز کے ٹائٹل سے آپ کو اندازہ جائے گا کہ ہماری ترقی سے مغرب کی چیخیں نکل گئی ہیں اور ہماری اعلیٰ سیاسی حکمت عملی نے یورپ کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں یا پھر مغرب ہم سے اس قدر خوف زدہ ہے کہ آئے دن اپنی پالیسیاں تبدیل کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments