صدر طلباء یونین کا مریض کے لئے چندے کے نام پر بھتہ


دو روز قبل آنے والے فون پر اس نے مجھے اپنا تعارف اسلامیہ کالج کی طلباء یونین کے صدر کی حیثیت سے کراتے مؤدبانہ درخواست کی تھی کہ کینسر کے مریض ہو چکے ایک غریب طالبعلم کے علاج کے سلسلے میں فوری پانچ ہزار روپے کی ضرورت ہے اور ابھی لڑکا لینے کے لئے بھیجا جا رہا ہے۔ اسلامیہ کالج میری دکان بالمقابل جنرل بس سٹینڈ فیصل آباد سے کوئی فرلانگ بھر آگے سرگودھا روڈ پر واقعہ تھا۔ فوری کے لفظ سے چونکتے میری چھٹی حس جاگ چکی تھی اور دماغ کام کرنا شروع کر چکا تھا۔

میں نے مریض سے ہمدردی کا اظہار کرتے عرض کیا تھا کہ مجھے یہ مدد کر کے خوشی ہوگی۔ آپ مریض کے ڈاکٹری تشخیص، اور جائے علاج اور دواؤں کے نسخہ جات لے کے محترم کالج پرنسپل صاحب سے وقت لے مجھے بلا لیں پرنسپل صاحب کی تصدیق پر رقم دے دوں گا۔ فوری پرنسپل صاحب کے دو روز کے لئے چھٹی پہ ہونے کا بہانہ تراشا گیا تو دوبارہ کہا کہ اگر پرنسپل صاحب مطمئن ہوئے تو شاید زیادہ دوں مگر ان کے ہاتھ میں کالج کی رسید بک سے رسید پہ دوں گا۔ دو دن صبر لیں۔ آواز کچھ سخت ہو چکی تھی اور فوری ادائیگی کے مطالبہ پر میں دوبارہ سوائے پرنسپل کے کسی اور رقم دینے سے صاف انکار کر چکا تھا۔

اور دو دن بعد پتلون قمیص میں ملبوس ایک طالبعلم مجھے پانچ ہزار کی ادائیگی کے لئے رقعہ دو دن قبل کی صدر یونین کی گفتگو کے حوالے سے پکڑا رہا تھا۔ اندر سے خوف زدہ مگر حواس مجتمع کرتے دوبارہ پیار سے سمجھایا کہ بیٹا اگر یہ واقعی غریب کینسر کا مریض ہے تو پرنسپل کی معرفت میں شاید اسے ہر ماہ بھی کچھ مدد کر دوں۔ لڑکے کے چہرے کی رگیں ابھرتے دیکھ میں پستول کی توقع کر رہا تھا۔ میرے ذہن میں کراچی کے دکانداروں سے سنے قصے گھومنے لگے۔ وقت دعا تھا اور اچانک ذہن میں زرعی یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج کی یونینوں کی آپس کی پرخاش ذہن میں گونجی۔

اب میرا لہجہ سخت ہو چکا تھا اور میں اسے اپنی دکان کا جائزہ لینے کا کہا اور پھر جانے کیسے میرے منہ سے نکلا ”بیٹا یہ دکان دیکھی ہے۔ جس دکان پہ اتنا مال موجود ہو اور اتنی بڑی دکان ہو اس کی حفاظت اور معاملات نمٹنے کے بندوبست بھی کیے گئے ہوتے ہیں۔ آخری بار پیار سے سمجھا رہا ہوں اگر واقعی طالب علم کوئی ہے بھی جو مریض اور غریب ہے تو میں ہر ماہ کالج پرنسپل کی معرفت وظیفہ لگا دوں گا لیکن اگر یہ کچھ رقم اینٹھنے کا بہانہ ہے تو اپنے صدر کو بتا دینا کہ اتفاق سے میری بیٹی زرعی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے اور اتفاق سے یونیورسٹی یونین میں لڑکیوں کی نمائندگی کر رہی ہے۔ آگے خود سوچ لو“

میں وہ رقعہ دراز میں رکھ رہا تھا کہ لڑکے نے جھپٹا مار میرے ہاتھ سے چھینا اور تیزی سے نکل گیا اور میں آئندہ کے خطرات کے لئے اپنے آپ کو ذہنی طور تیار کرنے لگ گیا۔ مگر دوبارہ کوئی فون آیا نہ بندہ۔ الحمد للٰہ

کافی کچھ دیکھ چکا تھا ملک چھوڑنے کا فیصلہ پہلے ہی تھا۔ کوئی ڈیڑھ دو سال بعد جان عزت مال بچاتے ہم کینیڈا آچکے تھے۔ چند سال بعد اپنی مارکیٹ کے صدر سے اس موضوع پر بات چھڑ گئی تو بتانے لگے ان دنوں کافی عرصہ یہ یونین صدر اپنے غریب کینسر کے مریض کے لئے مختلف دکانداروں سے ماہانہ یا یکمشت ”چندہ“ وصول کرتا رہا، پھر جب لاری اڈے کے جگے بھی ساتھ شامل ہو گئے، اور صاف اوپر کی حصہ داری کا بھی بتاتے تو چپ سادھے دکاندار ایک دوسرے کو بتانے لگ گئے اور پھر ایک دن فیصلہ کر کے تاجر یونین کا صدر اور عاملہ پولیس افسروں اور دوسرے مجاز افسران کو ملے اور اپنا فیصلہ سنایا کہ اگر اس بھتہ خوری کا خاتمہ نہ کروایا گیا تو کوئی بس لاری اڈہ سے باہر نہ نکل سکے گی۔ ایک شعبہ کے افسر نے ایک ہفتہ کا وقت مانگا اور پھر فیصل آباد شعیب بلال مارکیٹ بالمقابل جنرل بس سٹینڈ کے دکانداروں کی واقعی جان چھوٹ گئی۔

دو دہائیوں سے زائد وقت گزر چکا اور اب بھی جب اس لڑکے کی شکل ذہن میں ابھرتی ہے تو سوال یہی اٹھتا ہے۔
مطالبہ غریب مریض طالب علم ہی کے لئے تھا کہ بھتہ خوری کا بہانہ تھا
یونین صدر واقعی کالج یونین کا صدر تھا یا کسی بھتہ مافیا کا رکن۔

اور سب سے آخر۔ لاری اڈہ کے داخلی خارجی گیٹوں پر دھرنا دے ان کو بند کرنے کی دھمکی تو افسروں کو دی گئی تھی۔ اور بھتہ خور اگلے دن سے غائب۔
جواب آپ بھی سوچیں میں بھی سوچتا ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments