حیراں سر بازار


حارث خلیق سے میرا اولین تعارف ایک دوست اور رفیق کار کے طور پر اس وقت ہوا جب وہ لندن سکول آف اکنامکس میں اپنا ماسٹرز مکمل کر رہے تھے اور میں چند قدم دور بش ہاؤس کی عمارت میں بی بی سی کی اردو سروس کے لیے خدمات انجام دے رہا تھا۔

ہمارے ملکوں میں طالب علمی اور غربت کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور اگر آپ برطانیہ جیسے مہنگے ملک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو سمجھئے کہ پارٹ ٹائم جاب کے بغیر ایک سمیسٹر کاٹنا بھی مشکل ہے۔ ہاں اگر آپ کسی رشوت خور بیورو کریٹ، کھاتے پیتے زمیندار یا عیش و عشرت میں زندگی بسر کرنے والے صنعت کار کے بیٹے ہیں تو پھر معاملہ الگ ہے۔ حارث کے والد چونکہ خود بھی قلم کے مزدور تھے اس لیے اعلیٰ تعلیم کے لیے صرف حوصلہ ہی دے سکتے تھے، پاؤنڈ سٹرلنگ کا انتظام حارث کو خود ہی کرنا تھا جس کے لیے انہوں نے بی بی سی کی اردو سروس میں جزوقتی ملازمت کر لی تھی۔ یہ کام حارث کو ان کے ذولسانی (Bilingual background ) پس منظر کی وجہ سے باآسانی مل گیا تھا۔

کچھ ہی عرصہ حارث کے ساتھ کام کرنے کے بعد مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ ذو لسانی نہیں بلکہ سہ لسانی یعنی Tri Lingual مہارت کے آدمی ہیں۔ ہوا یوں کہ ایک اتوار کے روز ہمارے نگران اعلیٰ رضا علی عابدی کے پاس ایک لڑکا آیا اور درخواست کی کہ اسے ویک اینڈ پر کام کر کے کچھ پیسے کمانے کی ضرورت ہے۔ عابدی صاحب نے کہا کہ اگر تم انگریزی سے اردو میں روانی کے ساتھ ترجمہ کر سکتے ہوں تو ہفتے اور اتوار کو تمہیں ٹرانسلیشن کا کچھ کام دے دیا کریں گے لیکن تمہیں ترجمے کا ٹیسٹ دینا پڑے گا۔

لڑکا بخوشی تیار ہو گیا۔ عابدی صاحب نے ایک خبر کا تراشا اس کے حوالے کیا اور خود اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔ خبر پاکستان میں پیاز کی مہنگائی سے تعلق رکھتی تھی۔ لڑکے نے بڑی پھرتی سے خبر کا ترجمہ کر دیا۔ عابدی صاحب نے دیکھا تو ان کی بھنویں تن گئیں۔ بولے ”برخوردار یہ کیا لکھا ہے۔ پیاز مہنگا ہو گیا“ ۔ بندہ خدا پیاز مہنگا نہیں مہنگی ہو گئی ہے۔ پیاز مؤنث ہے اور آپ نے ساری خبر میں اسے مذکر باندھ رکھا ہے۔

حارث نے آگے بڑھ کر لڑکے کی سفارش کی اور کہا کہ ”سر ایک موقعہ اور دیجئے“ ۔ عابدی صاحب نے دوبارہ ترجمہ کرنے کی ہدایت کی اور خبریں پڑھنے کے لیے چلے گئے۔ لڑکے کو ٹیسٹ کے لیے الگ جگہ پر بٹھایا گیا تھا اور کسی سے بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔ حارث کے دل میں ایک غریب سٹوڈنٹ کی مدد کرنے کا جذبہ ابل ابل کے باہر آ رہا تھا لیکن وہ کچھ نہ کر سکتے تھے۔ عابدی صاحب واپس آئے۔ ترجمہ دیکھا اور بھنا کر رہ گئے۔ لڑکے نے ایک دو جگہ تو پیاز کو مؤنث باندھا تھا لیکن اس کے بعد پھر وہی کہ اب پاکستان میں پیاز اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ باہر سے درآمد کیا جائے گا۔ اور یہ کہ اچھا پیاز ملنا اب ممکن نہیں رہا۔ وغیرہ۔ عابدی صاحب جھلا کر بولے ”یہ نوجوان تو بضد ہے کہ پیاز کو مذکر ہی لکھوں گا۔ ایسے ضدی کا کیا کرے کوئی“ ۔

حارث کی ہمدردی اب غریب لڑکے کے لیے مزید بڑھ چکی تھی۔ مجھے ایک طرف لے جا کر کہنے لگے ”لڑکا ذہین ہے، سارا ترجمہ اس نے بہت اچھا کیا ہے“ ۔

میں نے کہا ”لیکن پیاز کو تو وہ منع کرنے کے باوجود بھی مذکر ہی باندھ رہا ہے“ ۔ حارث نے بے ساختہ پنجابی میں جواب دیا ”یار اوہ وچارا گنڈے دے حساب نال سوچدا اے“ ۔ (یار وہ بے چارہ گنڈے [پنجابی] کے حساب سے سوچتا ہے)

یہ واقعہ میں نے آپ کو حارث کی سہ لسانی مہارت یعنی Tri Lingual Expertise کی ایک مثال کے طور پر سنایا ہے۔ اس کثیر لسانی مہارت کی مزید مثالیں آپ کو ان کی نئی کتاب ”حیراں سربازار“ کے صفحے صفحے پر ملیں گی۔ ”بھیشم بھاپے، تہاڈے باجوں کنوں دسیے، منہ ول کعبے، بن گیا پاکستان، صوفی صاحب ہن تے خوش ہو، سوہا ہے اسمان“ یا پھر وہ نظم جس میں ایک کنجر خاندان اپنی شناخت کو سربازار نہ صرف بیان کر رہا ہے بلکہ اس پہ فخر بھی کر رہا ہے کہ انہوں نے بہادر سورماؤں کے برعکس نہ تو کبھی کسی کی جان لی ہے اور نہ کسی انسان کو دکھ پہنچایا ہے۔

آیاں تان تنبورے والے، طبلے، واجے ڈھول
نہ بندوق سی نہ کوئی خنجر نہ کوئی تیر کمان
نہ کفار دی فوج نوں سدیا نہ مجاہد جمے
ساہدے سارے ٹبر وچ سی کیہڑا شینھ جوان
پتر کنجر، پیو وی کنجر، ماں وی ساہڈی کنجری
اسیں کسی نوں دکھ نہیں دتا، لتی نہیں کوئی جان

یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ کثیر لسانی مہارت یعنی Multilingual Expertise سے مراد محض یہ نہیں کہ آپ اردو، پنجابی فقرے کو انگریزی میں ترجمہ کر لیں یا انگریزی کے کسی جملے کو اردو پنجابی میں تبدیل کر لیں۔ اصل بات ایک لسانی اور تہذیبی روایت کو دوسرے تہذیبی ماحول میں لا کر اس کی کامیاب شناخت کروانا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ آپ نے ان دونوں تہذیبی روایات سے براہ راست استفادہ کیا ہو، ان میں زندگی بسر کی ہو اور ان کو برتا اور پرکھا ہو۔

یورپ میں حصول تعلیم کے دوران حارث نے وہاں کے علمی و ادبی ماحول کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ وہاں کے ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں سے دوستیاں کیں اور یورپی معاشرے کی گہری پرتوں میں اتر کر اس کا کامیاب تجزیہ بھی کیا۔

امریکا کے ہر سفر سے واپسی پر ان کے تھیلے میں جیک ڈینئیل تو ہوتی ہی تھی لیکن ذہن کی تجوری بھی نئے خیالات اور للکارتے ہوئے نظریات سے بھری ہوتی تھی۔ انہوں نے جو کچھ اپنی ملکی اور مادری زبان میں پڑھا اور سنا، اسے انگریزی کے توسط سے ساری دنیا میں عام کیا اور عالمی ادب و ثقافت کے جو نگینے انگریزی زبان کی وساطت سے ان تک پہنچے، ان کی چکا چوند کو اردو اور پنجابی کے ذریعے حارث نے اپنے ہم وطنوں تک کامیابی سے پہنچایا اور یوں اپنی ماں بولی کی خدمت کا حق بھی ادا کر دیا۔

اپنی ملازمت اور روزگار کے سلسلے میں حارث کو پاکستان کے گوشے گوشے میں جانے، وہاں کے لوگوں سے براہ راست رابطہ کرنے اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا نادر موقعہ میسر رہا ہے۔ اسی سیر و سفر کے دوران انہوں نے بلوچی زبان کی سوندھی مہک اور پشتو کے ہمہ گیر شکنجے سے شناسائی حاصل کی۔ کراچی میں طویل قیام کے دوران سندھی دوستوں کی لمبی بیٹھکوں میں ان کی خوشی اور غمی کے قصے سنے اور سندھی زبان کی شیرینی کو آہستہ آہستہ اپنے لہجے میں بھی جذب کر لیا۔

آج عمر اور تجربے کی اس منزل پر پہنچ کر حارث خلیق یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ بچپن میں جو نرسری رائم ایک ٹمٹماتے ہوئے ستارے کے بارے میں پڑھی تھی How I Wonder What You Are، یہ شاید ایک ستارے کی کہانی نہیں بلکہ پوری زندگی کی کتھا ہے۔ ”تم کیا ہو اے زندگی؟“ تم کیا ہو۔ شاعر آج بھی سربازار حیران کھڑا ہے اور زندگی سے کہہ رہا ہے۔

How I Wonder What You Are! Dear Life


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments