آئین شکنی اور عمران خان کا زوال


عمران خان نے جس طرح حکومت چلائی وہ آنے والے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی ناکامی کے لیے کافی تھا، اس لیے کہ گزشتہ انتخابات میں وہ خود کو پاکستان کے لیے اخری امید بتا کر میدان میں آئے تھے، اس کے باوجود اسے اقتدار تک پہنچنے کے لیے بیساکھیوں اور جہانگیر ترین کی ضرورت پڑی تھی، مگر آنے والے انتخابات میں نہ وہ قوم کی آخری امید ہیں اور نہ ہی اسے وہ بیساکھی اور جہانگیر ترین جیسے ساتھی میسر ہیں کہ اسے اقتدار تک پہنچنے میں مدد کرتے ہوں۔

اب تحریک انصاف کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے، اس لیے کہ جو نعرے اور وعدے تھے وہ اب اس کے پاس نہیں ہیں، اور جاتے جاتے حواس باختگی میں وہ آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کے ساتھ جس طرح کا کھلواڑ کر رہے ہیں اس نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔

پورا ملک یہ تماشا دیکھ رہا ہے کہ اپنے اقتدار بچانے کے لیے انہوں نے ایک کمزور خط کا سہارا لے کر عدم اعتماد کو ملک کے خلاف سازش قرار دیا ہے، سیکورٹی اداروں نے اس کی تردید جاری کردی ہے کہ، اس خط میں کہیں بھی سازش نظر نہیں آ رہی ہے، غیر جانبدار تحقیقی ادارے بھی خط میں سازشی تھیوری کو رد کرچکے ہیں جس سے خط والا کھیل بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔

ان دو ہفتوں میں عمران خان نے جو جو فیصلے کیے ہیں وہ سب بیڑیاں بن کر اس کے پیروں پر پڑ رہے ہیں، جب عدم اعتماد آیا تو انہوں نے احتجاجی پریشر کے ذریعے اسے کاؤنٹر کرنے کی کوشش کی اور لوگوں کو سڑکوں پر نکلنے کی منصوبہ بندی کرتے رہے، جس کا مولانا فضل الرحمن اور دیگر پی ڈی ایم جماعتوں نے موثر جواب دے دیا اور وہ ان سے کئی گنا لوگ سڑکوں پر لے آئے، بات نہ بنی تو ناراض اراکین کے خلاف محاذ کھول دیا، انہیں سوشل دباؤ میں رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف عدالتی کارروائی ڈال دی، وہاں سے ناکامی ہوئی، تو ان پر حملہ کرا دیا، اس کے باوجود ناراض اراکین ڈٹے رہے، بلکہ ان کے موقف میں اور زیادہ شدت اور صفوں میں اور زیادہ مضبوطی آ گئی۔

بات نہ بنی تو اپنے پسندیدہ وزیراعلی کو نکال کر چودھری پرویز الہی کو کو وزیر اعلی نامزد کر دیا، جس سے پنجاب جماعت میں بغاوت پھوٹ پڑی، جہانگیر ترین و علیم خان گروپ تو پہلیں سے موجود تھے، گورنر پنجاب نے بغاوت کردی، جسے برطرف کیا گیا اور اب اپنے ڈپٹی اسپیکر کے خلاف بھی عدم اعتماد لے آئے ہیں، جو اس بات کا اظہار ہے کہ وفاق کے ساتھ اب پنجاب مکمل طور پر ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور جس اسمبلی کا اجلاس ایک دن کے نوٹس میں بلایا تھا اب اسی اسمبلی کو تالے لگا دیے گئے ہیں کہ وزارت اعلی کا انتخاب نہ ہو سکے، شکست در شکست اور ناکامی پر ناکامی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آنے والے انتخابات میں تحریک انصاف سکڑ کر ایک چھوٹی سی پارٹی رہ جائے گی جیسے کہ وہ 2012 لاہور جلسے سے قبل تھا۔

عمران خان کے پاس باعزت جانے کا راستہ تھا، وہ عدم اعتماد کا سامنا کرتے، اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ جاتے، اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے اس پستی میں جانا وہ بھی ایک ایسے شخص کا جو کہتا رہا ہو کہ اس کے خلاف چند لوگ بھی ”گو عمران گو“ کا نعرہ لگائیں تو وہ اقتدار چھوڑ دیں گے، اور اب ایک آئینی عمل سے بھاگ کر خود کے لیے گرنے کا تصور چھوڑ رہے ہیں۔

عدم اعتماد آئینی عمل ہے، پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، خود کو سیاسی جماعت کہنے والی تحریک انصاف عدم اعتماد کے خلاف نہ صرف غیر آئینی رولنگ دیتی ہے، بلکہ دی گئی رولنگ کو سرپرائز کہہ کر بھنگڑے بھی ڈالتی ہے، بسا اوقات عمران خان کی ذہنی حالت پر بھی بگاڑ کا گمان ہوتا ہے، ممکن ہے کہ نرگسیت کا عروج پاگل پن کی شکل میں ظاہر ہو، دکھ بھی یہی رہا ہے، یہ کیسے ممکن ہو خود کو 22 سالہ جدوجہد کی اٹھان سمجھنے والا شخص اس طرح آئین کی کھلی بغاوت پر اتر آئے اور اس پر جشن بھی مناتا پھرے۔

عمران خان جو کچھ بھی کریں مگر اس کا سامنا ایک ایسی اپوزیشن سے ہے جو ساڑھے تین سال سے جدوجہد کر رہی ہے، اپوزیشن کی قیادت مولانا فضل الرحمن کر رہے ہیں جو ان تین سالوں میں ایک لمحے بھی اس کے خلاف شروع کی جانے والی جدوجہد سے مایوس یا دستبردار نہیں ہوئے، جو عزم 26 جولائی کو تھا، وہ عزم آج بھی ہے، بلکہ زیادہ توانا ہے، یہ ممکن ہی نہیں کہ عمران خان کی آئین شکنی یوں ہی ہضم کی جائے، اسے دیر سویر آرٹیکل 6 کا سامنا کرنا ہو گا۔

عدلیہ جس طرح عدم اعتماد کی رولنگ کے خلاف کیس کی سماعت میں تاخیر کر رہی ہے اس سے تشویش تو بہرحال ہے، لیکن ان کے ریمارکس حوصلہ افزاء ہیں، یہ ایک صاف اور غیر پیچیدہ کیس ہے، جس کا فیصلہ اب تک آجانا چاہیے تھا، نہ صرف رولنگ کالعدم، بلکہ ذمہ داروں پر آئین شکنی پر مقدمات بھی درج ہوں، یہ عدلیہ کے لیے بہت بڑا موقع ہے کہ وہ نظریہ ضرورت کا کفارہ دے، اور یہ فیصلہ اس بات کا تعین بھی کرے گا کہ یہ ملک کس طرح چلے گا، یہ فیصلہ پارلیمنٹ کے حق میں آئے یا خلاف، اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے، مثبت نتائج آئین، پارلیمنٹ، جمہوریت اور 22 کروڑ عوام کو مضبوط کریں گے اور منفی نتائج سے ملکی استحکام شدید خطرے سے دوچار ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments