جیت کس کی ہوئی؟


کوئی دو رائے نہیں کہ تحریک عدم اعتماد پش ہونے کے بعد تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے کپتان کے تمام اقدامات اور خطابات ایک شکست خوردہ کپتان کا پتا دے رہے تھے۔ خصوصی طور پر تین اپریل کو ڈپٹی سپیکر کی جانب سے جو رولنگ تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کے لیے دی گئی، وہ سراسر غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر جمہوری تھی۔

متحدہ اپوزیشن کی جانب سے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے چیف جسٹس سے اپیل کی گئی کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ، وزیر اعظم کی جانب سے قومی اسمبلی کی تحلیل جیسے اقدامات کا آئین پاکستان کی روشنی میں جائزہ لیا جائے۔

عدالت عظمیٰ نے معاملے کی سنگینی کے پیش نظر بروز اتوار معاملے کا از خود نوٹس لیا اور 4 اپریل سے کیس کی با قاعدہ سماعت کا آغاز ہوا۔

معاملہ عدالت میں جانے کے بعد حکومت، متحدہ اپوزیشن، میڈیا اور عوام کی نظریں عدالت عظمیٰ پر لگ گئیں۔ ہر کوئی اپنی دانست اور وطن عزیز کی عدالتی تاریخ کے تناظر میں تجزیے پیش کرنے لگا۔ حکومت نے چونکہ تحریک عدم اعتماد کو بین الاقوامی سازش قرار دیا تھا اور ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کی رو سے تو متحدہ اپوزیشن غداری کے کٹہرے میں جا کھڑی ہوئی تھی۔ سیاسی مخالفین کو غدار قرار دینا، وطن عزیز میں کوئی نئی بات نہیں۔ پھر بھی متحدہ اپوزیشن نے ڈی جی آئی ایس پی آر اور عسکری اداروں کے ان افسران سے وضاحت مانگی جو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوئے تھے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم کے پیش کردہ سفارتی مراسلے کے بارے میں محکمے کا کیا موقف ہے۔

بظاہر غیر جانبدار رہنے والے مقتدر حلقوں کے لیے حکومت اور متحدہ اپوزیشن کی سیاسی کشمکش دل چسپ اور منصوبے کے عین مطابق تھی۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر علیحدہ ہنگامہ برپا تھا کہ یہ ہے، یوں ہے اور عدالت عظمیٰ کا کڑا امتحان ہے۔ نظریۂ ضرورت کا خاتمہ ضروری ہے۔ مجھ جیسا عام پاکستانی بھی صورت حال سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ جذباتی اس وجہ سے نہیں کہ جو بھی کچھ ہو رہا تھا۔ مجھ جیسے کی توقعات کے عین مطابق تھا۔

عدالت عظمیٰ نے 4 اپریل سے 7 اپریل تک از خود نوٹس کی سماعت کی۔ تمام فریقین کو سنا۔ الیکشن کمیشن سے بھی رائے لی۔ جناب شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے بھی اپنا موقف اور مقدمہ معزز عدالت کے روبرو رکھا۔ اٹارنی جنرل نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے دفاع سے انکار کیا۔ اور عدالت عظمیٰ نے چار روزہ سماعت کے بعد بالآخر وہ فیصلہ دیا، جو آئین اور قانون کے عین مطابق ہے۔

متحدہ اپوزیشن عدالتی فیصلے پر خوشیاں منا رہی ہے۔ 9 اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہے۔ جس میں کپتان کی شکست یقینی نظر آ رہی ہے۔ اور متحدہ اپوزیشن کی نامزد کردہ شخصیت جناب شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے امکانات واضح ہیں۔ جو یقیناً متحدہ اپوزیشن کی بڑی کامیابی ہوگی۔ چونکہ حکومت میں آنے کے بعد متحدہ اپوزیشن من چاہی انتخابی اصلاحات کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔

2018 کے عام انتخابات سے قبل بھی کچھ ایسی صورت حال تھی۔ تحریک انصاف کے حامیوں کی خوشیاں اور جوش و خروش دیدنی تھا۔ چونکہ ان کے نزدیک صاف و شفاف جمہوریت قائم ہونے جا رہی تھی۔ لیکن ہوا، اس کے برعکس اور ابتدائی تین ماہ میں حکومت اور کپتان کی پول کھل گئی۔ یہی صورت حال کچھ ابھی بھی ہے۔ دو چار ماہ بعد متحدہ اپوزیشن کی حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے ہو گی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جیت کس کی ہوئی؟

جس کا آسان اور متوقع جواب یہی ہے کہ جیت آئین اور قانون کی ہوئی ہے۔ لیکن وطن عزیز کی سیاسی تاریخ جیت کا پتا کچھ اور ہی دے رہی ہے۔ چونکہ گزشتہ چھے سات ماہ کی حکومتی کارکردگی، فیصلوں اور سیاسی حالات پر نظر دوڑائی جائے تو جیت ابھی بھی ان ہی مقتدر حلقوں کی ہوئی ہے۔ جن کا کام حکومتیں بنانا اور گرانا اور پھر بچ کے صاف نکل جانا ہے۔

18 جولائی کو ’ہم سب‘ پر میرا ایک مضمون ’لولی لنگڑی جمہوریت کس پل پر بنتی ہے اور ٹوٹتی ہے‘ شائع ہوا تھا، جس میں عام انتخابات سے قبل پیش گوئی کی گئی تھی کہ اگلی حکومت نئے چہرے کے ساتھ بنائی جائے گی اور عوام کو مشورہ بھی دیا تھا کہ زیادہ خوش اور جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ چونکہ جلد یا بدیر اس حکومت کا انجام بھی وہی ہونا ہے۔ جو پچھلی حکومتوں کا ہوتا آیا ہے۔ ابھی بھی عوام کو یہی مشورہ ہے کہ زیادہ خوشیاں نا منائیں۔ جن کی جیت اور حق ہے، وہ پس پردہ خوشیاں منا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments