بچے سے موبائل فون لینا کتنا مشکل ہوتا ہے


میرے سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر تقریباً چھ سال ہے۔ اس کا طریق واردات بالکل عمران خان والا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ موبائل فون اس کے ہاتھ نہ لگے مگر بسیار و ہزار کوشش کے باوجود ہم اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ برخوردار کبھی منت سماجت سے، کبھی خوشامد و چاپلوسی سے، کبھی معصوم نخروں سے، کبھی لچھے دار باتوں سے اور کبھی حیلے بہانوں سے موبائل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔

شومئی قسمت جب موبائل ان کے ہاتھ لگ جاتا ہے تو واپس لینا اتنا ہی محال ہوجاتا ہے جتنا عمران خان سے آج کل حکومت لینا۔ پہلے تو کہتے ہیں کہ دو کتابوں کا ہوم ورک مکمل ہو گیا ہے اب بس تھوڑی دیر کے لیے موبائل دے دیں۔ موبائل ہاتھ میں آ جائے تو پھر دنیا و مافی ہا سے اس طرح بے نیاز ہو جاتے ہیں جس طرح مولوی طارق جمیل کے وعظوں میں حوروں کے ہوشربا اور دلنشیں قصے سن کر ان کے مریدین ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔

ان کے دس منٹ جب ایک گھنٹے پر محیط ہو جاتے ہیں تو ہم سیدھے سبھاوٴ موبائل واپس کرنے کو کہتے ہیں لیکن برخوردار ہر بار موجودہ سپیکر کی طرح ایک نیا ڈراما رچا کر کچھ منٹ مزید اس پر قابض رہتے ہیں۔ کبھی اذان کا بہانہ، کبھی نماز کا وقفہ، کبھی آرام کا وقفہ، کبھی مذاکرات کا حیلہ۔ اب تین بجے کے بعد نماز عصر کی تیاری اور عصر کے بعد افطاری کی تیاری کا وقفہ تو لازمی ہو گا۔ الحمد للہ! ہم سب پکے سچے مسلمان ہیں، رمضان میں سحری، نمازوں، تراویح، قرآن خوانی اور افطار و ڈنر کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔

خیر بات ہو رہی تھی ہمارے چھوٹے برخوردار کے موبائل پر جابرانہ قبضے اور پھر واپس نہ کرنے کے لیے گھڑے گئے نت نئے ناٹکوں کی۔ جب برخوردار کی والدہ دیکھتی ہیں کہ موبائل کی واپسی کے لیے سیدھی انگلیوں سے گھی نہیں نکلے گا تو وہ ان کی طرف اس انداز سے لپکتی بلکہ جھپٹتی ہیں جس طرح شہباز شریف وزارت عظمٰی کی کرسی کی طرف۔ اس پر برخوردار پہلے تو انہیں ہاتھ کے اشارے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ حربہ ناکام ہوتا دیکھ کر ٹی وی لاوٴنج میں دھما چوکڑی مچا دیتے ہیں۔

کبھی ایک کونے میں کبھی دوسرے میں، کبھی ایک صوفے پر کبھی دوسرے پر، کبھی اس سے ٹکرائے کبھی اس سے۔ پھر جب والدہ بالکل سر پر پہنچ جاتی ہیں تو موبائل کو سینے سے بھینچ کر زور زور سے رونا شروع کر دیتے ہیں۔ ماں کا دل ان کی اس گریہ زاری پر بھی نہیں پسیجتا کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ یہ سب مکر و زور ہے اور اشک رواں کی نہر بھی مگر مچھ کے آنسووٴں سے کم نہیں۔

ماں جب تھپڑ لگا کر موبائل واپس کرنے کو کہتی ہیں تو برخوردار آوٴ دیکھتے ہیں نہ تاوٴ، فرش پر لم لیٹ ہو کر اس طرح فریاد و فغاں شروع کر دیتے ہیں جس طرح آج کل سابق بننے کے قریب وزیراعظم عمران خان اپنے مریدوں اور مقلدین کو ڈی چوک بلا کر فریاد کناں ہوتے ہیں۔ اس دوران وہ گھر کے ہر فرد کی طرف ملتجیانہ اور رحم طلب نظروں سے دیکھتے ہیں جس طرح آج کل عمران خان ایک پیج والوں کی کمک کے منتظر ہیں۔ لیکن کس کی مجال کہ برخوردار کی والدہ کی موجودگی میں کوئی ان کی مدد کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکے۔

برخوردار جب دیکھتے ہیں کہ عجز و نیاز سے کام نہیں چلنے والا تو وہ بھی غالب کی طرح عذر مستی رکھ کر دھمکیوں پر اتر آتے ہیں۔ میں باقی کتابوں کا ہوم ورک نہیں کروں گا۔ آج ٹیوشن پڑھنے نہیں جاوٴں گا۔ فلاں کلاس فیلو سے راہ و رسم ختم نہیں کروں گا۔ کل سکول نہیں جاوٴں گا۔ اس طریق واردات کے لیے ان کی والدہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی طرح پہلے سے تیار ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں وہ برخوردار کی نظر ثانی کی درخواست کا انتظار بھی نہیں کرتیں۔

لگاتار دو تین طمانچے جڑ کے برخوردار سے موبائل لینے میں کامیاب ہو ہی جاتی ہیں۔ یہ عظیم معرکہ سر کرنے کے بعد وہ ہماری طرف قہر آلود اور معنی خیز نظروں سے دیکھ کر سوال کرتی ہیں کہ لاڈلے کو موبائل دیا کس نے تھا؟ ہمارا رنگ جو پہلے ہی کم خوراکی اور روزوں کی وجہ سے پیلا پڑا ہے، ہلدی کی گانٹھ کی صورت ہو جاتا ہے۔ اس سارے ہنگامے میں ہم وہ کردار لینے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوتے جس نے بڑے چاوٴ سے پورا ملک لاڈلے کے ہاتھ میں دے کر اس کا بیڑا غرق کروا دیا تھا۔ سو ہم دل ہی دل میں اپنی دیرینہ اور دل میں دبی ہوئی خواہش کو مصرع بنا کر گنگناتے ہوئے اپنے کمرے کا رخ کرتے ہیں کہ

میں اہل ہوں کسی اور کا میری اہلیہ کوئی اور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments