خادم اعلیٰ پنجاب سے خادم پاکستان بننے کا موقع


عمران خان پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم بن گئے ہیں جن کو آئینی و جمہوری طریقے سے وزیراعظم ہاؤس سے نکالا گیا ہے۔ اس سے قبل جتنے بھی پاکستان کے وزیراعظم آئے ان کو کسی باوردی ڈکٹیٹر یا سویلین ڈکٹیٹر نے نکالا یا عدالت کے ذریعے عہدے سے ہٹایا گیا۔ عمران خان پر اب ہمیشہ کے لئے یہ ٹیگ لگ جائے گا کہ ان کو پارلیمنٹ نے نکالا ہے۔ شاید اسی لیے عمران خان آدھی رات کو خاموشی سے بغیر اپنی کابینہ کو ملے بنی گالہ روانہ ہو گئے۔

عمران کان کا دور حکومت پاکستانیوں کے لئے انتہائی تکلیف دہ رہا ہے۔ عام آدمی پر زندگی تنگ کردی گئی۔ کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ پاکستان میں گھی 500 روپے کلو ہو گا کیا یہ ایک مذاق تھا یا کوئی فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی؟ خیر جو بھی تھا ایک مشکل وقت تھا سو گزر گیا ہے۔ اب خادم اعلیٰ پنجاب کے امتحان کی شروعات ہو رہی ہیں۔ ان کے سامنے پہاڑ جیسے ہدف ہیں جن کو شہباز شریف نے ہر صورت مکمل کرنا ہے۔ ان سے نہ وہ بھاگ سکتے ہیں نہ جان چھوڑا سکتے ہیں اور نہ اب کوئی بہانہ کر سکتے ہیں۔

خادم اعلیٰ پنجاب سے خادم پاکستان کیسے بننا ہے یہ شہباز شریف اچھی طرح جانتے ہیں۔ 2011 میں پنجاب میں ڈینگی آیا تو پنجاب کے نجی و سرکاری ہسپتال ڈینگی کے مریضوں سے بھر گئے۔ ہسپتال تو دور ہر گھر میں تقریباً ہر دوسرا شخص ڈینگی جیسے موذی مرض کا شکار ہوا۔ بالکل ایسے ہی جب پاکستان میں کورونا آیا تو ہر دوسرا شخص کورونا وائرس کا شکار ہو گیا تھا۔ وہ شہباز شریف کے لئے انتہائی پریشان کن تھے۔ شہباز شریف نے سری لنکا سے ڈینگی ایکسپرٹ منگوائے اور یہاں طبی عملے کو خصوصی ٹریننگ دلوائی۔

مجھے ابھی بھی یاد ہے شہباز شریف صبح نماز فجر کے بعد پوری کابینہ کو 6 بجے ایوان وزیراعلیٰ طلب کرلیتے تھے اور مجھ سمیت کئی صحافیوں کا ناشتہ اکثر ایوان وزیراعلیٰ کے باہر ہی مال روڈ پر ہوتا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا شہباز شریف حکومت ڈینگی کے خلاف جنگ جیتنا شروع کردی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لاہور کے ہسپتالوں میں تمام ڈینگی وارڈ خالی ہو گئی اور پنجاب سے ڈینگی ختم ہو گیا۔ شہباز شریف اور ان کی ٹیم نے صرف ایک سال میں پنجاب سے ڈینگی ختم کر دیا۔

پھر وہی سری لنکن ایکسپرٹ پاکستانی ڈاکٹروں اور شہباز شریف حکومت سے تربیت لینے آتے رہے۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے پنجاب سے جب ڈینگی کا مکمل خاتمہ ہوا تو اس دن شہباز شریف نے لاہور کے پی سی ہوٹل میں ایک بڑی کانفرنس منعقد کی۔ جس میں خصوصی طور پر سری لنکا کے ماہرین کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ یہ صرف میں نے شہباز شریف کی ایک مثال دی ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں شہباز شریف کی پھرتیوں کی متعلق ہے۔ لاہور کی میٹرو بس، بھکھی پاور پلانٹ، حویلی بہادر شاہ پاور پلانٹ اور قائد اعظم سولر پاور پلانٹ شہباز شریف کے شاہکار ہیں۔

اب شہباز شریف کے سامنے تین اہم ترین ٹاسک ہیں۔ پہلا مہنگائی کو کنٹرول کرنا اور عوام کو ہر ممکنہ حد تک ریلیف فراہم، دوسرا انتخابی اصلاحات سمیت اہم قانون سازی کرنا، تیسرا شفاف انتخابات کا انعقاد۔ یہ سب تب ہی ممکن ہو گا جب شہباز شریف حکومت کی توجہ حقیقی معنوں میں ان تین ٹارگٹ کو پورے کرنے کی طرف ہو گی۔ شہباز شریف واضح کہہ چکے ہیں کہ ان کا انتقام لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ شہباز شریف پہلے دن سے مل کر چلنے اور ملک کے مسائل کو حل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔

حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی یقینی طور پر سیاسی کیسز بھی ختم ہوں گے اور نواز شریف کی وطن واپسی پر ان کا ریڈ کارپٹ پر استقبال بھی ہو گا۔ اطلاعات ہیں کہ نواز شریف اور اسحاق ڈار کی وطن واپسی 6 مئی کو ممکن ہے۔ قسمت کی دیوی نواز شریف پر مہربان ہے۔ گزشتہ چالیس سالوں میں جب بھی نواز شریف کو زبردستی عہدے سے ہٹایا گیا وہ پھر دو تہائی اکثریت سے واپس آئے ہیں۔ کچھ ذرائع بتاتے ہیں نواز شریف اب سیاست سے ریٹائرڈ ہونا چاہتے ہیں اور اپنی جگہ مریم نواز کو دینا چاہتے ہیں۔

لیکن ان کی جماعت کے لوگ ان کو دوبارہ وزارت عظمیٰ پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ فی الحال یہ ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف تیسری بار وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد مزید مقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت نواز شریف کے مقابلے کا دوسرا کوئی مقبول لیڈر نہیں ہے۔ عمران خان اب قصہ ماضی بن چکا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے آئندہ الیکشن میں عمران خان پارلیمنٹ سے بھی آؤٹ ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments