شیریں جوکھیو، شرمندہ ہیں


پیاری شیریں جوکھیو!

ہم تم سے بہت شرمندہ ہیں۔ اتنے شرمندہ ہیں کہ اظہار شرمندگی کے لئے الفاظ کم پڑ گئے ہیں۔ تم واقعی ایک بہت بہادر بیٹی ہو۔ تم نے جس جوانمردی سے اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور حالات کا مقابلہ کیا ہے اور اپنی آواز کو اس ملک کے کونے کونے تک پہنچایا ہے اسے خراج عقیدت پیش کر نے کے لئے بھی میرے پاس الفاظ کی کمی ہے۔

تم ہمیشہ ایک بات یاد رکھنا کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ جب پڑتی تو اچھے اچھوں کے ہوش ٹھکانے لگا دیتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس ملک میں غریب کے لئے کوئی نظام نہیں، انصاف نہیں، کوئی پرسان حال نہیں، ایک عام آدمی کے لئے قانون مملکت گونگا، بہرہ اور اندھا بن جاتا ہے۔

اپنا دل بڑا کرو اور بس ایک بات کو پلو سے باندھ لو کہ تم کو انصاف کبھی نہیں اور کہیں سے نہیں ملے گا۔ کیوں کہ تمہاری پارٹی کے جس سربراہ نے قاتل جوکھیو کی ممبرشپ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا وہ سراسر جھوٹ پر مبنی تھا اور ایک سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

چند دن پہلے ہم سب نے تمہیں پردۂ ٹی وی پر ہاتھ جوڑے، روتے ہوئے یہ کہتے سنا ہے کہ تم نے قاتلوں کو معاف کر دیا ہے۔ معافی کا یہ علانیہ تم نے کس دل سے اور کس خوف و دہشت کے زیر اثر جاری کیا ہو گا۔ ہم سب بخوبی جانتے اور پہنچاتے ہیں۔ تمہارے معافی نامے کے اگلے دن ہی ہم سب کی گناہ گار آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ اس شہر کا میئر با نفس نفیس قاتل کا استقبال کرنے ائرپورٹ پہنچا ہوا تھا اور اسے سیکورٹی کے حلقے میں ائر پورٹ سے باہر لا رہا تھا۔

جن حکومتوں کے زیر سایہ قاتل، زانی، شرابی، جواری اور راشی پرورش پا رہے ہوں یا وہ دن دیہاڑے ان کی سرپرستی کر رہے ہوں وہاں انصاف کیسے مل سکتا ہے؟ یہ بھی ایک سچ ہے کہ ان کے پاس دل نہیں ہوتے اگر ہوں بھی تو احساس سے خالی بس دھک، دھک کیے جاتے ہیں۔ ان کے بچے تو ہوتے ہیں لیکن باپوں ہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں اس سبب ان کی خاندانی روایات اسی طرح چلتی رہتی ہیں۔ اور چہرے بدلنے سے زیادہ کچھ نہیں بدلتا، سروں سے چادر کھینچنا، زندہ وجود کو موت کے گھاٹ اتار دینا یا غائب کر دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہوتا ہے۔

اکیسویں صدی صرف ہمارے کیلنڈرز میں بدلتی ہے، ویسے تو ہم پتھر کے زمانے کے دور جاہلیت میں زندہ ہیں اور اسی میں ہی زندہ رہنا چاہتے ہیں کہ اس طرح تمہارے جیسے لوگوں کا خون پینے اور سانسیں چھینا آسان رہتا ہے۔

جمہوریت ہمارے نظام میں بول چال کے ایک لفظ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، عدالتیں ہیں، لیکن انصاف کے لئے نہیں، صرف لوگوں کی نوکریوں کے لئے،

تمہارے سنگ ہم سب نے بھی یہ منظر دیکھا ہے کہ تمہارے سردار ایم این اے جوکھیو کی نہ صرف ضمانت ہو گئی۔ اسے مزید عزت دار بنانے کے لئے جج ہی کے کمرے میں روایتی اجرک بھی پہنائی گئی۔

یہ عدالتوں کا ڈھونگ ہمارے لئے نہیں ہے یہ ان جیسے کرداروں کے چہرے کا ماسک ہے جسے وہ حسب ضرورت پہنتے اتارتے رہتے ہیں۔

بات سنو! تم اور تمہارے جیسے لوگ اگر اپنی قسمت بدلنا چاہتے ہو، انصاف کے طلب گار ہو تو تم سب کو اس ظلم اور ظلم کی سیاہ رات کے خلاف صف آرا ہونا ہو گا، نہ صرف صف آرا اپنے اندر اتحاد اور اعتماد بھی پیدا کرنا ہو گا، کیوں کہ تمہارا مخالف بہت عیار اور مضبوط ہے۔ وہ تمہیں سرنگوں کرنے کے بہت اوچھے ہتھکنڈے آزمائے گا۔ اگر تم اسی طرح ہاتھ جوڑ کے معافیاں مانگتے رہے، ان کی انا کو تسکین پہنچاتے رہے اور تمہارے قبیلے کے لوگ ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑتے رہے تو یہ سیاہ رات کبھی ختم نہ ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments