امتحان سے انعام تک


رمضان المبارک کا مہینہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ رواں دواں ہے۔ گھر گھر میں سحر و افطار کے دسترخوان بچھے ہیں، گلی گلی میں رحمتوں کی برسات ہو رہی ہے، چار سو نیکی کی فضا چل رہی ہے۔

ہمارا ملک اس وقت تاریخ کے اس خطرناک موڑ پر کھڑا ہے جہاں معاشی، معاشرتی اور سیاسی مسائل مگر مچھ کی طرح اپنا خوفناک منہ کھولے ہوئے کھڑے ہیں لیکن اس پرفتن اور اعصاب شکن ماحول کے باوجود رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی ذہنی، روحانی اور قلبی تسکین محسوس ہو رہی ہے جو خدائے لم یزل کی طرف سے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ یقین جانیے دنیوی مسائل ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور انسان اپنا تعلق اپنے رب سے استوار کرنے میں مصروف عمل ہے۔

اس روحانی مہینے کی ان پر نور راتوں کی بابرکت ساعتوں میں جب نماز تراویح ادا کرتا ہوں تو عجب لطف ملتا ہے۔ قاری قرآن جب کلام الہی کی تلاوت سے سماعتوں میں رس گھولتا ہے تو آیات کے معنی اور مطالب دل کی دنیا کو آباد کرتے چلے جاتے ہیں اور ان آیات مبین کی بدولت ذہن میں تدبر و تفکر کے چراغ روشن ہونے لگتے ہیں۔

آج نماز تراویح میں عجب کیفیت ہوئی۔ جب قاری قرآن نے آیات قرآن میں سے یہ آیت
انمآ اموالکم واولادکم فتنةٌ ۙ

تلاوت فرمائی تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ آیت میرے ذہن کے بند کواڑوں پر دستک دے رہی ہے۔ میں صاحب مال ہوں نہ صاحب اولاد لہذا اس کے معنی کو کما حقہ سمجھنے سے قاصر تھا اس لیے زیادہ غور نہ کیا لیکن آہستہ آہستہ بند کواڑوں پر دستک کی آواز اتنی تیز ہوئی کہ مجھے دروازوں کے بند قفل کھولنے ہی پڑے در کھلنے کی دیر تھی کہ اک الگ ہی جہاں معانی آباد ہو گیا۔

میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ خالق ارض و سماوات نے اپنی من جملہ تخلیقات میں سے انہی دونوں کو ہی فتنہ کیوں قرار دیا ہے؟ آخر ایسی کیا بات ہے۔ ؟

اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو ایک شخص کی ساری زندگی انہی دونوں کے گرد گھومتی ہے۔
1: ان دونوں کا یہ خاصہ ہے کہ کئی مرتبہ انسان کو ان کی وجہ سے اپنے اصول تک توڑنے پڑتے ہیں۔
2: ان دونوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے دور ہو جانے کے خیال سے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

3: اور اگر ان دونوں کی حفاظت نہ کی جائے تو یہ دونوں ہاتھ سے بھی نکل جاتے ہیں۔ اس ہی لیے لوگ ان کی حفاظت کرتے کرتے اپنی رات کی نیند تک کو برباد اور دن کا چین غارت کر بیٹھتے ہیں۔

4: دونوں کی خاطر انسان خدا کی قائم کردہ حدوں کو توڑنے میں بھی کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرتا۔

5: یہ ہی دونوں چیزیں انسان کے مستقبل کی امیدوں کا محور ہوا کرتی ہیں۔ مال کی فراوانی خوشحال مستقبل کی ضامن سمجھی جاتی ہے اور اچھی اولاد کو مستقبل کا سہارا کہا جاتا ہے۔

6: یہ دونوں اس طرح لازم و ملزوم ہیں کہ انسان اولاد کے لیے مال کماتا ہے اور مال کے لیے اولاد کو پالتا ہے۔

غرض یہ کہ عبد اور معبود کے درمیان یہ دونوں سب سے بڑی رکاوٹ کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔ ابن آدم کی ساری زندگی ان کو اکٹھا کرنے اور سنبھالنے میں گزر جاتی ہے جب کہ اس کی موت کے فوراً بعد اس کی اولاد اس کے مال کو تقسیم کرنے کے لیے اکٹھی ہوتی ہے مگر مال تقسیم ہوتے ہوتے اولاد کو بھی تقسیم کر دیتا ہے۔ بلکہ آج کل تو مال کم اور اولاد زیادہ تقسیم ہو رہی ہے۔

سوچ کے میدان میں جب عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہوا بہت دور نکل گیا تو اچانک میرے گرد مایوسی کا مانوس شہر آباد ہو گیا۔ جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا میں پریشان تھا کہ آخر اس امتحان سے کس طرح سرخرو ہو کر نکلا جائے تو سوچ کے تاریک افق پر اک ستارا چمکا اور اس نے راہ راست کی طرف ہدایت کرتے ہوئے کہا اگر تم دونوں کو راہ خدا میں ڈال دو تو زندگی بھی سوکھی گزرے گی اور قبر بھی ٹھنڈی ہو جائے گی جہاں یہ دونوں دنیا میں امتحان ہیں وہیں یہ دونوں آخرت میں انعام بن جائیں گے۔

علی معراج عباسی
Latest posts by علی معراج عباسی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments