موجودہ سیاسی منظر نامے پر عوامی نظر


شروعات میں سب یہی کہتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے، ہم وہ کر دیں گے، ہم سے زیادہ عوام کی فکر کسی کو نہیں اور ہماری بیچاری ستائی عوام ان سہانے خوابوں کی بھینٹ خود چڑھ کر ان خوابوں کی تکمیل کا انتظار کرتی رہتی ہے۔

کچھ ایسا ہی پاکستان تحریک انصاف نے عوام کے ساتھ کیا، پاکستان کو ریاست مدینہ ثانی بنانے کا خواب دکھا کر عوام کو جس کرب سے گزارا گیا، شاید ہی اس کی کوئی مثال ملتی ہو۔

تحریک انصاف کو سپورٹ کرنے والے بہت سے لوگ صرف اس وجہ سے عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے کہ اس نے پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا۔

پر افسوس کے یہ ایک ایسا وعدہ رہا جو وفا نہ ہو سکا اور سب وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی کرپشن اور لوٹ مار کی تند و تیز ہواؤں کی نظر ہو گیا، اور عوام کو ملے تو بس سکینڈل ہی سکینڈل۔

کبھی چینی کا سکینڈل تو کبھی آٹے کا سکینڈل، کبھی ادویات کا سکینڈل تو کبھی پیٹرول کا سکینڈل۔ ابھی ان سب سکینڈلز کا شور ختم نہیں ہوا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی بازگشت شروع ہو گئی۔

یہاں قارئین کو یہ بات لازمی مد نظر رکھنی چاہیے کہ تحریک عدم اعتماد اچانک نہیں آئی جس طرح حکومت کا دعویٰ ہے بلکہ اس کے لیے پوری جدوجہد کی گئی اور یہ بھی یاد رکھیں کہ خان صاحب اکثر اپنے جلسوں میں اپوزیشن کو بذات خود اپنے خلاف عدم اعتماد لانے کی دعوت دیا کرتے تھے۔

عدم اعتماد پیش ہونے کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے ہاتھوں سے حکومتی جام گر کر کرچی کرچی ہو گیا اور اس کے ٹکروں کو جمع کرنے کی کوشش میں تحریک انصاف نے اپنے ہاتھوں پر مزید گہرے زخم لگوا لیے۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ تحریک انصاف کے وزراء نے بجائے زخموں پر مرحم لگانے کے ان کو مزید کھرید کر نمک پاشی کی۔

یہ بات بھی غلط نہیں کہ عدم اعتماد میں ناکامی کے حقیقی ذمہ دار وزراء ہیں کیونکہ وزیراعظم جہاں اتحادیوں کو حوصلہ دے کر ساتھ دینے پر قائل کرتے وہیں ان کے وزراء اتحادیوں کے بارے میں اوٹ پٹانگ گفتگو کر کے ان کو مزید دور کر دیتے۔

یوں تلخیوں میں اضافہ ہوتا گیا اور عدم اعتماد کا سفر اسمبلیوں کے تحلیل ہونے سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ کی چوکھٹ پر آ گیا اور اسمبلیاں بحال ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اپنے انجام کو پہنچا اور یوں ایک اور وزیراعظم اپنی مدت پوری ہونے کے خواب کو حقیقت کا روپ نہ دے سکا۔

زیر غور بات یہ ہے کہ پچھلے تمام وزراء اعظم کے برعکس یہ پہلی بار ہوا کے کسی وزیراعظم کو آئینی و قانونی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے نکالا گیا وگرنہ پہلے وزراء اعظم کو کبھی عدالتی برطرفی کا سامنا رہتا، کبھی جبراً استعفیٰ دلوایا جاتا تو کبھی مارشل لاء کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا۔

اب اسے قدرت کا انتقام کہیں یا اقتدار کا نشہ کہیں کہ عمران خان نے اس پونے چار سال کے عرصے میں عوام سے کیے گئے اپنے وعدے نبھانے کے بجائے اپوزیشن پر برسنے کو فوقیت دی۔

ایک پاک معاشرے کے لیے احتساب لازماً ہونا چاہیے مگر یہ کیسا احتساب ہوتا کہ وزراء کو پہلے سے معلوم ہوتا کہ نیب کب کس کو پکڑے گی اور اس کے خلاف کب کیا فیصلہ سنایا جائے گا۔

اگر عمران حکومت اس پونے چار سال کے عرصے میں اپوزیشن پر توجہ دینے کے بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دیتی تو شاید آج یہ دن نہ دیکھنا پرتا۔

اس سب کھیل تماشے میں ق لیگ کے پرویز الٰہی کا کردار بالکل ویسا ہی تھا جیسے دو گروپوں میں فائرنگ کے تبادلے میں مارے جانے والے راہگیر کا ہوتا ہے۔

عمران خان نے ق لیگ کے ساتھ اپنا انتقام کچھ یوں لیا
ہم تو ڈوبے ہیں صنم
تم کو بھی لے ڈوبیں گے

اور عمران خان کی مہربانی سے پرویز الٰہی کو نہ چاہتے ہوئے بھی وزیراعلیٰ کی شیروانی آدھے دام پر واپس کروانی پڑی اور وزیراعلیٰ بنتے بنتے سپیکر پنجاب اسمبلی کے عہدے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔

چلیں خیر، ماضی کو کوسنے سے حقیقت بدل جاتی تو ہم دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہوتے۔

اب اگر آگے کے سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو اگلے وزیراعظم کے لیے اپوزیشن کی جانب سے شہباز شریف اور حکومت کی جانب سے شاہ محمود قریشی کے نام تجویز کیے گئے ہیں اور قوی امکان ہیں کہ اپوزیشن شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے میں کامیاب ہو جائے۔

اگر ایسا ہوا تو تحریک انصاف استعفے دے کر نئے الیکشن کی جانب جانے کا اشارہ دے چکی ہے مگر ایسا ہو گا نہیں۔

اگر تحریک انصاف کے ستر سے اسی لوگ استعفیٰ دے بھی دیں تو اپوزیشن وہاں ری الیکشن کروا کر اپنے نمائندے لائے گی اور پھر تحریک انصاف مزید کمزور پر جائے گی۔

اب دیکھنا یہ ہو گا کہ اس سارے سیاسی منظرنامے کا اختتام کہاں ہوتا ہے، کیا نئی بننے والی حکومت عوام کی امیدوں پر پورا اتر پائے گی، کیا پھر سے دھرنے دے کر یہی نوید سنائی جائے گی کہ ہمارے خلاف سازش ہوئی یا پھر حکومت اور اپوزیشن مل کر ایک قومی حکومت کی صورت عوام کی فلاح کے لیے گامزن ہوں گے، دعا تو یہی ہے کہ جو بھی ہو ملک کے وسیع تر مفاد میں ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments