عمران خان کا انجام اور مستقبل


موجودہ سیاسی صورت حال میں ہم (بقول نصرت جاوید) جس اندھی نفرت اور عقیدت کا شکار ہوئے ہیں اس نے معاشرے کو دو انتہاؤں میں تقسیم کر دیا ہے، عمران خان فیکٹر اب ایک حقیقت بن چکا ہے اور جن دوستوں کا خیال ہے کہ یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائے گا وہ شاید غلط فہمی کا شکار ہیں، میرے خیال میں عمران خان نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا اور جس طرح ہماری اور ہم سے پہلے کی نسل کو بھٹو اور ان کے ساتھیوں میں کوئی خامی نظر نہیں آتی اور ہم ان کی خامیوں کو بھی ان کی خوبی سمجھتے ہیں، یہی رویہ عمران پرستوں کا بھی ہے۔

غلط یا صحیح عمران خان اپنے موقف پر ڈٹنا اور اپنا بیانیہ بنانا جانتے ہیں۔ جھوٹ کو بھی اس تواتر کے ساتھ دہرانا کہ اس پر سچ کا گمان ہو عمران خان کی سیاست کی بنیاد ہے۔ آپ اسے ہٹ دھرمی کہیں گے لیکن ان کے حامی اسے خود اعتمادی کہتے ہیں۔ عمران خان کو جو لائے تھے کل انہوں نے ہی انہیں واپس بھی بھیج دیا ممکن ہے آپ اسے طنز سمجھیں لیکن یہ ایسی حقیقت ہے جو پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں سب پر منطبق ہوتی ہے، بھٹو اور نواز شریف کون سا عمران والے راستے سے نہیں آئے تھے؟

یہاں اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بھی تو ایک ہی ہے۔ عوامی طاقت بھی طاقت ور لوگوں کی مدد سے ہی میسر آتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ بھٹو اور نواز شریف سیاست کے کھلاڑی تھے لیکن عمران صرف کھلاڑی ہیں ‌، سیاست کے کھلاڑی اس کھیل کے رموز جانتے ہیں جو عمران کو معلوم نہیں ‌ تھے۔ وہ اقتدار میں ‌آنے سے پہلے غلط اعداد و شمار کے نتیجے میں غلط وعدے کر بیٹھے جن پر عملدرآمد ممکن ہی نہیں تھا۔ ان وعدوں یا دعووں کی طویل فہرست ہے۔

عمران خان کا جو انجام ہوا وہ اس لئے زیادہ افسوس ناک ہے کہ انہوں نے ایک پوری نسل کے خواب مسمار کر دیے ان نوجوانوں کو پہلی بار اس صدمے سے گزرنا پڑا جس سے ہم اپنے لڑکپن سے اب تک بارہا گزرے اور پھر اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ اس معاشرے میں کسی خونی انقلاب کے بغیر تبدیلی کے خواب دیکھنا خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں اور خونی انقلاب کا راستہ صرف دشوار ہی نہیں یہ منزل بھی ابھی بہت دور ہے۔

عمران خان ایک با وقار طریقے سے رخصت ہو سکتے تھے لیکن ان کی حد سے زیادہ نرگسیت اور ہٹ دھرمی نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ وہ دس سال کے منصوبے کے ساتھ لائے گئے لیکن لانے والوں کو بھی بعد میں ‌اندازہ ہوا کہ وہ اس بار غلط گھوڑے پر ہاتھ رکھ بیٹھے ہیں ‌، پھر انہیں قدم قدم پر عمران کی راہ کے کانٹے خود صاف کرنا پڑے۔ سیاسی رموز سے نا آشنائی، تاریخ و جغرافیہ سے عدم واقفیت اور مطالعے کے فقدان نے انہیں پہلے روز سے ہی مذاق بنا دیا۔

عمران خان نے اپنی حد سے زیادہ مقبولیت کو بلیک میلنگ کا ذریعہ بنایا۔ وہ منتخب وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود آئین شکنی کے مرتکب ہوئے حد سے زیادہ تکبر اور رعونت کو ان کے ساتھیوں نے کس طرح برداشت کیا اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ جو لوگ انہیں بر سر اقتدار لائے تھے عمران خان نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اس سے پہلے بھٹو صاحب اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ کر چکے تھے۔ وہ ایک ایک کو ٹشو پیپر کی طرح جھٹکنے کے بعد تنہا ہوتے چلے گئے۔

بھٹو کی شخصیت میں انتقامی رویہ ان کے جاگیردارانہ پس منظر کی وجہ سے تھا لیکن عمران خان جاگیردارانہ ذہنیت رکھتے تھے اور اسی ذہنیت کی بنیاد پر انہوں نے آئین اور قانون کو بھی اپنے اس باپ کی جاگیر سمجھ لیا جسے بھٹو صاحب نے کرپشن کی بنیاد پر سرکاری ملازمت سے نکالا۔ تھا کچھ دوستوں کو بھٹو صاحب کے ساتھ عمران کا موازنہ پسند نہیں آ رہا ہو گا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دونوں کی کرشماتی شخصیت نے لوگوں کو مسحور کر دیا۔

دونوں ہی بڑی تعداد میں لوگوں ‌کو پولنگ سٹیشنوں کی طرف لائے۔ فرق یہ تھا کہ بھٹو صاحب کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں، انہوں نے آئین سمیت بہت سے ادارے اور قوانین بنائے عمران کا دامن بھی آلودہ ہے اور انہوں نے آئین، قوانین اور اداروں کو پامال بھی کیا۔ ہاں بھٹو صاحب کی طرح عمران خان نے اقتدار کی خاطر مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات سے ضرور کھیلا۔ وہ ایک ہی سانس میں طالبان کی حمایت بھی کرتے تھے ان کے مدرسوں کو فنڈز بھی دیتے تھے ان پر ڈرون حملوں کی مخالفت بھی کرتے تھے اور تحریک لبیک کی مخالفت کے باوجود آسیہ کو پاکستان سے نکالنے میں مدد بھی دیتے تھے۔

کوئی واضح سمت نہیں ‌تھی اور کوئی نظریہ نہیں ‌تھا ان کا۔ ان کی آئیڈیل صرف ان کی اپنی ذات تھی اور بس۔ عمران خان نے اس معاشرے کو توہمات اور بد زبانی کا بھی تحفہ دیا۔ ہمیں ‌بد زبانی اور گالی کا کلچر اس سے پہلے کسی پارٹی میں ‌دکھائی نہیں دیا۔ عمران خان نے فاشسٹ طرز عمل اپناتے ہوئے مخالفین پر زمین تنگ کر دی۔ سزائیں دینے کے لیے راتوں کو عدالتیں کھلوائی گئیں ‌، اور جس عدالتی نظام کا انہوں نے بے رحمی سے استعمال کیا آخر خود بھی اسی کا شکار ہو گئے۔

میڈیا نے عمران کے زمانے میں ‌بد ترین سنسر شپ دیکھی۔ وہ ایسا شخص تھا جو خود کو حرف آخر سمجھتا تھا وہ ایسا شخص تھا جو لاشوں کے ساتھ بھی جھگڑ تا تھا۔ ساہیوال میں ‌معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو قتل کر دیا گیا، عمران کو ان کے سر پر ہاتھ رکھنے کی توفیق نہ ہوئی۔ ہزاروں ہزارے لاشیں لے کر سڑکوں پر بیٹھے رہے لیکن عمران نے ان کی داد رسی کی بجائے اپنی ضد منوائی۔ پہلے لاشیں دفنائی گئیں پھر عمران انتہائی تکبر کے ساتھ انہیں ملنے گئے۔

اس روز وہ مجھے دنیا کا سب سے سفاک انسان دکھائی دیا تھا۔ آخری بات یہ ہے کہ عمران خان اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان کے جو چاہنے والے ان کی واپسی کی امید لگائے بیٹھے ہیں ‌ان کے لیے محبتیں لیکن کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ بے پناہ عوامی مقبولیت کو سنبھالنا بہت مشکل کام ہے، یہی مقبولیت آپ کی دشمن بن جاتی ہے۔ آپ کو جان بچانے کے لیے یا مناسب وقت کے لیے خاموشی اختیار کرنا یا جلاوطن ہونا پڑتا ہے اور جلا وطن کوئی بھی اپنی خوشی سے نہیں ہوتا۔ لیکن جو رہنما عوامی مقبولیت کی آس لگاتا ہے اس کا انجام پھر بھٹو والا ہوتا ہے۔ لیکن یہ منصب بڑے لوگوں اور نصیب والوں کے حصے میں ‌آتا ہے۔

بشکریہ: گرد و پیش ملتان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).