بین الاقوامی سازش یا نالائقی؟


پاکستان کی قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیابی سے پہلے جس طرح کی سیاسی فضا بن گئی تھی۔ وہ فضا ملک اور جمہوریت کے لیے کسی طور پر بھی ٹھیک نہیں تھی۔ جو حالات بنے یا بنائے گئے اس کی ہمارے ملک کی سیاست پر اثرات بہت عرصے تک رہیں گے۔ تحریک انصاف حکومت کی آخر تک یہ کوشش رہی کہ وہ اپنے اقتدار کرسی بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جائیں چاہے اس کے لیے ملکی مفاد یا آئین سے روگردانی کرنی پڑی۔

اپوزیشن کی طرف سے بھی ایسے اقدامات کیے گئے جس کو کسی طرح بھی مکمل طور پر جمہوری رویہ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر سیاستدان اسی طرح اپنے اقتدار کے لئے لڑتے رہیں گے تو وہ وقت دور نہیں جب عوام کا اعتماد سیاستدانوں پر اٹھ جائے گا۔ اور اس صورتحال سے غیر جمہوری قوتوں کو فائدہ پہنچے گا۔ سیاستدانوں کو یہ بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ ان کے سیاسی رول کو کم کرنے کے لئے کیا کھیل کھیلا گیا ہے۔ ہمارے ملک کے سیاستدانوں کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ملک کے فیصلے پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے یا کہیں اور، پارلیمنٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا سکتا ہے۔

جب پارلیمنٹ بیانیے کی تشکیل اور تنازعات کو سلجھانے میں اپنا قائدانہ کردار ادا نہیں کرتی تو پھر ایسا خلا جنم لیتا ہے جس سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ افسوس کے سیاست دانوں کی کردار کشی حکمت عملی کے تحت ہوتی ہے۔ ہم اپنی کرسی کے بچانے کے لئے ملکی بین الاقوامی تعلقات بھی خراب کرنے سے دریغ نہیں کر رہے۔ تحریک انصاف آج کہ رہے ہیں کہ اس کے حکومت کو گرانے کے لئے بین الاقوامی قوتوں نے سازش کی ہے۔ بین الاقوامی طاقتیں کبھی بھی مراسلے کے ذریعے سازشیں نہیں کرتی۔ اس سازش کو وہ ایک سفارتی مراسلے کے ساتھ نتھی کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی طاقتیں کبھی بھی خط کے ذریعے سازش یا دھمکی نہیں دیتے۔

خارجہ پالیسی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے اور یہ عمل کسی طرح ملکی مفاد میں نہیں کہلایا جا سکتا۔ وزیراعظم کو اپنی گورننس کی ناکامیوں اور اس سے پیدا شدہ مشکلات کے لیے دوسروں پر الزام لگانے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ الزام لگانے والی پارٹی کو اپنے ماضی کے فیصلوں کے حوالے پر بھی نظر ضرور ڈالنی چاہیے۔ خان صاحب سمجھتے ہیں کہ امریکن محالف بیانیہ سے وہ عوام میں مشہور بو جائیں گے اور اگلے الیکشن میں اس کا فائدہ ہو گا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جس بندے نے سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کیا آئی ایم ایف کے بندے کو وزیر خزانہ بنایا عوام اب کیسے اس کے اس امریکن محالف بیانیہ پر یقین کرے؟ اور اگر یقین بھی کر لیں تو کیا پاکستان آئی ایم ایف قرضوں کے بغیر چل سکتا ہے؟ کیا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ ایک عالمی طاقت کی مخالفت مول لیں۔ یہ الزام وہ پارٹی لگا رہی ہے جس نے سٹیٹ بنک آئی ایم۔ ایف کے حوالے کیا۔ وزیر خزانہ آئی ایم ایف کا لگایا۔

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر آدھی کر دی، اسی وزیراعظم نے امریکہ کے خلاف مہاتیر اور اردگان کو۔ الگ فورم بنانے کا کہا اور پھر خود ایک فون پر ہی یو ٹرن لے لیا۔ اور اس فورم میں شریک تک نہ ہوا، سی پیک منصوبے پر کام کی رفتار کو امریکن دباؤ پر سست کیا گیا۔ یاد رہے کہ چائنہ نے سی پیک پر کام کی رفتار انتہائی کم ہونے پر بار بار ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ رزاق داود جو کہ عمران خان کے ذاتی کالج نمل کا ریکٹر اور وزیر تجارت ہے بار بار امریکہ کے لئے فری ٹریڈ زون اور سی پیک کو بند کرنے کے بیان دے چکا ہے۔

جس پارٹی کے اکثر مشیروں کے پاس اس ملک کی شہریت ہے۔ عمران خان آج تقریباً چار سال کی حکمرانی کے بعد بین الاقوامی سازش، مذہب اور ایمان کا کارڈ استعمال کرنے کی بجائے اپنی کارکردگی، منصوبوں، ترقیاتی کاموں اور اصلاحات کی فہرست عوام کے سامنے رکھتے۔ تو آپ کی بات میں زیادہ وزن ہوتی۔ جب آپ احتساب اور بدعنوانی کو سیاسی بنا دیتے ہیں وہ کبھی کرپشن روکتی نہیں ہے۔ وہ نئے طبقوں کو کرپشن میں لے آتی ہے۔ تحریک انصاف کرپشن کے خلاف بیانیہ لے کر آئی تھی لیکن حکومت میں برسر اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کرپشن میں 120 سے 140 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔

حالانکہ یہ پارٹی تو کرپشن کا چورن بھیج کر اقتدار میں آئے تھے۔ حکومت میں آنے کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ اپوزیشن سے کم از کم ایک بنیادی ورکنگ ریلیشن قائم ہو، سیاسی درجہ حرارت کم ہو تاکہ ریاستی معاملات چل سکیں۔ ’اس سے حکومت کو اپنے اصل ایجنڈا پر کام کرنے کا بھی موقع ملتا لیکن ان کی توجہ گورننس اور ڈیلیوری سے ہٹ گئی اور غلط ہدف کا پیچھا کیا جاتا رہا جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ تحریک انصاف کی بری کارکردگی کے تاثر کو ترجمانوں کی ایک فوج کی وجہ سے بھی تقویت ملی جن کی توجہ حکومت کی کارکردگی دکھانے کی بجائے اپوزیشن پر مرکوز رہی۔

پارٹی میں ان افراد کو اگے لایا جاتا رہا جو اپوزیشن پر زیادہ سے زیادہ تنقید کرتے رہیں۔ سیاسی مخالفین کے خلاف نا شائستہ اور نہ مناسب رویہ رکھا گیا۔ سیاسی اختلاف رائے جب کردار کشی میں بدلتی ہے تو جمہوری و سیاسی نظام کو گالی بنانے جیسا ہے اور جمہوریت کے دشمن ہی ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ سیاسی مخالفین کے گھروں کے باہر احتجاجی مظاہرے کروائے گئے اور ایک غلط روایت کو اختیار کیا۔ ایک خطرناک کیفیت یہ بھی ہے کہ ہم کسی شخصیت کے سحر میں اتنے مبتلا ہو جائیں کہ آئین، قانون، ضابطے حتی کہ مہذب گفتگو سب کچھ بھول کے اس شخص کی کہی ہر بات کو حرف آخر سمجھیں اور اس سے اختلاف کرنے والوں کی بے عزتی کرنا اپنا فرض۔

یہ کسی طرح بھی سیاسی رویہ نہیں تھا۔ تحریک انصاف حکومت کی معاشی پالیسیاں مجموعی طور پر انتظامی ناکامی اور نا اہلی کا شکار رہیں۔ تحریک انصاف کے دور میں پاکستانی روپے کی قدر میں ریکارڈ گراوٹ، مہنگائی سے لے کر قرضوں کے حجم میں اضافے تک کئی معاشی چیلنجز شامل تھے جس کے دوران تین بار وزیر خزانہ بھی تبدیل ہوئے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں وزرا کے بیانات نے معاملات میں بگاڑ ضرور پیدا کیا۔ وزیر اعظم کے مشیر رزاق داود کی جانب سے چین اور سی پیک پر متنازع بیان ہو یا پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے سعودی عرب کے بارے میں بیان ہو، حکومتی وزرا کی جانب سے ایسے بیانات دیے گئے جنہوں نے ہمارے دوست ممالک کے ساتھ خارجہ تعلقات پر برے اثرات ڈالے۔

ایک وزیر ہوا بازی کے غیر ذمہ دارانہ بیان کی وجہ سے پی آئی اے پر یورپ میں پابندی لگائی گئی۔ ان کے دور میں کئی سکینڈل آئے جس میں، مالم جبہ سکینڈل، دوائیوں کا سکینڈل، چینی سکینڈل، بلین ٹری میں کرپشن سکینڈل، ‏LNG سکینڈل، پشاور BRT سکینڈل، کورونا فنڈز سکینڈل، سامنے آئے۔ پاکستان تحریک انصاف حکومت کا دور میڈیا کے حوالے سے متنازع رہا۔ کبھی سوشل میڈیا پر نا پسندیدہ صحافیوں کی فہرستیں سامنے آئیں، تو کبھی صحافیوں کے خلاف آن لائن ٹرولنگ کے الزامات لگے۔

آزادی اظہار رائے پر پابندی کی کوششوں سمیت تحریک انصاف دور میں ایسے قوانین متعارف کروانے کی بھی کوشش کی گئی جن پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر صحافتی تنظیموں نے احتجاج کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں میڈیا پر جو قدغنیں لگیں وہ کسی بھی گزشتہ دور حکومت بشمول پرویز مشرف دور سے زیادہ تھیں اور بین الاقوامی اداروں جو میڈیا کی آزادی کی مانیٹرنگ کرتے ہیں ان کی جانب سے بھی کہا گیا کہ پاکستان میں آزادی صحافت گراوٹ کا شکار رہی۔

پاکستان تحریک انصاف پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جب وہ حکومت میں تھی تو تب بھی ان کا زیادہ زور جلسوں، تقاریر اور احتجاج پر تھا۔ اب جب حکومت میں نہیں رہے تب بھی وہی احتجاج، جلسے وہی تقریریں۔ کوئی ان کو بتائے کہ حکومتیں کار کردگی پر چلتی ہیں جلسوں اور احتجاج سے نہیں۔ دوسرا اپنے مخالفین کو غدار کہنے کی روایت انتہائی غیر جمہوری ہے۔ یہ بیانیہ دینا کہ جو جو میرا ساتھ دیں وہ محب وطن، جو میرا ساتھ نہ دیں وہ غدار۔

یہ سوچ ایک فاشسٹ پارٹی کی تو ہو سکتی ہے لیکن کسی جمہوری شخص یا پارٹی کی نہیں ہو سکتی ہے۔ غداری اور غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے الزامات ہماری سیاست میں نئے نہیں حتیٰ کہ 1965 میں محترمہ فاطمہ جناح نے جب ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑا تو انہیں غدار قرار دیا گیا۔ الیکشن مہم کے دوران ایوب خان کی طرف سے تقسیم ہونے والے پمفلٹ کچھ ایسے تھے جن میں محترمہ فاطمہ جناح پر پاکستان توڑنے کی سازش کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔

ایک مخصوص سوچ کے تحت مقتدر طبقے کی سوچ سے ہم آہنگی نہ رکھنے والوں کو غدار اور اپنے حقوق کا مطالبہ اور اس کے لئے کی جانے والے جدوجہد کو غداری سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔ تحریک انصاف نے حکومت سے نکلنے کے بعد استعفوں اور احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ موجودہ جمہوری حکومت ہو یا سابقہ دونوں ہی سیاسی انتشار اور مسائل میں الجھی رہیں کہ عوامی مسائل کی فکر ہی نہ رہی ساتھ ہی احتجاج دھرنوں جلسوں کا ایک نیا کلچر پیدا کر دیا گیا سیاست لڑنے جھگڑنے اور مرنے مارنے کا نام نہیں بلکہ مسائل کا حل جمہوری انداز میں گفت شنید سے کیا جانا ایک دوسرے کو برداشت کرنا ایک دوسرے کی بات سننا مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا یہی سیاست ہے اور جمہوریت کا حسن بھی، لیکن ہمارے ہاں جمہوریت کی شکل ہی بگڑتی جا رہی ہے۔

احتجاج کی روایت اپوزیشن کا جمہوری حق ہے لیکن اس حق کو استعمال کرتے وقت اس کے انجام کے متعلق بھی سوچا جانا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ اس سے امن و امان، نظم و نسق اور ملکی معیشت پر کیا تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ بدقسمتی سے حالیہ وقتوں میں جو تحریکیں چلیں ان میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ چند ہزار لوگ ہڑتال یا دھرنے سے پورے ملک کو ہائی جیک کر لیتے ہیں اور زبردستی اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں۔ جن سے اکثریت کا متفق ہونا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔

ہڑتالیں، دھرنے اور جلاؤ گھیراؤ مسائل کا حل نہیں۔ ان سے نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ عمران خان ملک میں احتجاج کی وجہ سے بحران اور غیر یقینی صورتحال پیدا کر رہے ہیں۔ جو ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ کیا موجودہ حالات میں ہم سیاسی عدم استحکام کا متحمل ہو سکتے ہیں؟ یہ ؤہ سوال ہے جس کا جواب ارباب اقتدار کو تلاش کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments