ایک اور خط بنام وزیراعظم شہباز شریف


جناب وزیر اعظم!

آپ جانتے ہیں کہ پچھلے کچھ دنوں سے ایک خط کا چرچا اس قدر رہا کہ تقریباً ایک صدی سے بدون ”توشہ سفر“  کرتی شعور میں کم اور قدرتی وسائل سے مالامال جغرافیائی خطے کی مالک قوم اپنی بے روزگاری، مہنگائی، محرومی یہاں تک کہ ہر طرح کے سماجی، معاشرتی اور ذاتی مصیبتوں کو بھول کر اس ایوان کو دیکھنے لگی جس کے آج آپ وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔ اسی خط نے مجھے آپ کو خط لکھنے پر مجبور کیا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ میرا خط سابق وزیراعظم کو لکھے گئے خط جتنا اہم نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ خط میرے ان دکھوں کا بیان ہے جو میرے پرکھوں سے ہوتے ہوئے مجھ تک پہنچے۔ یہ دکھ بڑے ہو کر مجھ تک پہنچے ہیں اور دکھ جب پل کر بڑے ہو جاتے ہیں تو یہ خوف بن کر قوموں کی رگوں میں اترتے ہیں۔ خوفزدہ قوموں میں امید مرنے لگتی ہے اور جہاں امیدیں مر جاتی ہیں وہاں زندگی اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔

جناب والا!

اس سے پہلے کہ کوئی آپ کو خوشامد سے بھرا خط لکھتا میں نے سوچا کہ آپ سے ادب سے عرض کر دوں کہ آپ کے بیان ”بیگرز کانٹ بی چوزرز“ سے بطور قوم ہمارے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ جب میں نے یہ بات آپ کے منہ سے سنی تو بطور قوم ہم نڈھال ہو گئے کیونکہ آپ کی تقریروں میں مستقبل کے دکھائے گئے سہانے خواب ہی تو اس جذباتی قوم کا اثاثہ ہیں۔ آپ نے تو ہمیں اس سے بھی محروم کر دیا۔ کیا ہم نے کبھی آپ سے روڈ میپ مانگا؟ نہیں ناں!

بلکہ ہر جلسے میں تالیاں بجائیں۔ کیا ہم کبھی پریشان ہوئے کہ بار بار الیکشن سے ہمارے وسائل کا کتنا زہاں ہو گا؟ کیا ہم نے کبھی پوچھا کہ صاحب اقتدار اور عوام کی زندگیوں میں طویل تفاوت کی وجہ آخر کیا ہے؟ کیا ہم نے کبھی پوچھا کہ عام آدمی کے لئے تو عدالتیں اس کی زندگی میں فیصلہ نہیں دیتیں اور کچھ فیصلوں کے لئے راتوں رات کیسے کھل جاتی ہیں؟ کیا ہم نے کبھی پوچھا کہ بنیادی ضروریات زندگی، تعلیم، عدل اور وہ تحفظ جس کا وعدہ جمہوریت کرتی ہے ہمیں کیوں مہیا نہیں؟ تو پھر اتنے مسائل کے باوجود اگر ہم اب بھی کھڑے ہیں تو ہماری عزت نفس کو اس طرح کچلنا تو بڑا ظلم ہے۔

سر!

اگرچہ میری عمر زیادہ نہیں مگر میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ایسی لاتعداد تقریریں سنی ہیں جن کو سن کر مجھے اپنے سیاسی مستقبل میں بہتری کی نوید جلد آتی دکھائی نہیں دیتی اور اس کی امید رکھنا بھی شاید زیادتی ہو گی کیونکہ سیاست کے جس پودے کے نگہبان کے طور پر اب آپ آئے ہیں اسے کئی بار اکھاڑ کر پھینکا گیا اور بدقسمتی سے اس کی آبیاری اس طرح نہ ہوئی جس طرح دنیا نے کر کے ترقی کی منازل طے کیں۔ مگر میں کہنا چاہتی ہوں کہ یقین کیجیے ہم میں بڑی ہمت ہے اور میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ ہم تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے دیس کے پھلنے پھولنے کا انتظار کر سکتے ہیں مگر خدارا آپ ماضی کو اپنے ساتھ گھسیٹنے کی بجائے ہمیں ناکامی کی دلدل سے نکالنے کی کوئی تدبیر کیجئے اور قانون کے ایوانوں کو جو عوام کے پیسوں سے چلتے ہیں کو قانون سازی کے لئے استعمال کریں اور اس کے بعد چراغ بجھا دیا کریں ورنہ عوام کی زندگیوں میں اندھیرا ہی رہے گا اور ہم اندھیرے میں دائرے کے سفر سے نہیں نکل پائیں گے جو ہمیں دنیا سے بھیک مانگنے پر مجبور کرتا ہے۔

والسلام
ایک طالبہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments