تحریک انصاف کی استعفوں کی سیاست


عمران خان صاحب نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سے جو جارحانہ حکمت عملی اختیار کررکھی ہے وہ ان کے جنونی مداحین کو یقینا بہت بھائی ہے۔سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ اس کے بعد کیا کرنا ہے۔دھرنے اور مظاہرے 2014ء کے برس بھی تحریک انصاف کے کام نہیں آئے تھے۔”پانامہ پیپرز“ کے منکشف ہونے کا انتظار کرنا پڑا۔وہ دھماکے کی صورت منظر عام پر آئے تو ریاستی ادارے بھی متحرک ہوگئے۔سپریم کورٹ کے ہاتھوں نواز شریف صاحب کو عمر بھر کے لئے کسی بھی عوامی عہدے کے لئے نااہل کروانا پڑا۔ مذکور ہ نااہلی کے باوجود 2013ءمیں قائم ہوئی قومی اسمبلی نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ اس کے بعد جو انتخاب ہوئے انہوں نے عمران خان صاحب کی جماعت کو سادہ اکثریت بھی فراہم نہ کی۔”آزاد“ حیثیت میں کامیاب ہوئے اراکین کو جہانگیر ترین کے طیارے میں لاد کر بنی گالہ پہنچانا پڑا۔ حکومت سازی کے لئے ان کی تعداد بھی تاہم کافی نہیں تھی۔ ”اتحادی“ جماعتوں سے رجوع کرنا پڑا۔

عمران خان صاحب اور ان کے مداحین یقینا 2014ء میں واپس لوٹنا چاہ رہے ہیں۔ اپنے جلسوں اور دھرنوں کو مزید جارحانہ بنانے کے لئے اسمبلی سے فی الفور استعفوں پر زور دیا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کی ٹکٹ پر جولائی 2018ئکے انتخاب میں قومی اسمبلی پہنچنے والوں کی اکثریت مگر اس کے لئے دل سے تیار نہیں ہورہی۔ وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان صاحب امریکہ اور ”امپورٹڈ“ حکومت کیخلاف پاکستان کے شہرشہر جاکر اپنی مہم جاری رکھیں۔تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی مگر ایوان میں رہتے ہوئے ہی بھرپور توانائی سے ”بھان متی کا کنبہ“ دِکھتی حکومت کی مزاحمت جاری رکھیں۔ مجھے خبر نہیں یہ کالم چھپنے تک کیا فیصلہ ہوگا۔ منگل کی صبح اسے لکھتے ہوئے لیکن مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر میں یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی نے اپنے استعفے اپنی جماعت کے چیف وہپ عامر ڈوگر کے پاس جمع کروائے ہیں۔ڈوگر صاحب نے ابھی تک انہیں قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر تک نہیں پہنچایا تھا۔

پیر کی دوپہر عمران خان صاحب پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کرنے پارلیمان ہاﺅس تشریف لائے تھے۔تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین کی اکثریت نے انہیں محتاط انداز میں سمجھانا چاہاکہ فی الفور قومی اسمبلی سے مستعفی ہونا درست اور بارآور حکمت عملی ثابت نہیں ہوگا۔ ریاض فتیانہ کے دلائل اس ضمن میں کافی اہمیت کے حامل تھے۔ وہ فریاد کرتے رہے کہ تحریک انصاف اگر با جماعت استعفوں کے بعد قومی اسمبلی میں موجود نہ رہی تو حکومت یقینا 100نشستوں پر ضمنی انتخاب کروانے کے بجائے عام انتخاب کو ترجیح دے گی۔ یہ سوچتے ہوئے وہ عجلت میں ”انتخابی اصلاحات“ والے قوانین بھی منظور کروالے گی۔تحریک انصاف کا مگر مذکورہ قوانین کی تیاری میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ نئے انتخاب کی نگہبانی کے لئے عبوری حکومت کی تشکیل میں بھی اس جماعت کی رائے نہیں مانگی جائے گی۔

تحریک انصاف کے حامیوں کی اکثریت فی الوقت بہت جذباتی ہے۔وہ فتیانہ صاحب جیسے اراکین اسمبلی کی سوچ کو ”بزدلانہ اور موقعہ پرست“ ٹھہرائے گی۔ عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر ایک بار پھر بٹھانے کے لئے تاہم یہ لازمی ہے کہ آئندہ انتخاب میں عوام کی بے پناہ اکثریت تحریک انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں اترے امیدواروں کی حمایت میں آنکھ بند کرتے ہوئے مہریں لگائیں۔ سابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے دن سے تحریک انصاف نے جو حکمت عملی اپنائی ہے اس نے یقینا اس جماعت کے دیرینہ حامیوں کو متحرک کردیا ہے۔شاید اس کی بدولت مذکورہ جماعت کے ووٹ بینک میں بھی تھوڑا اضافہ ہوا ہوگا۔ نواز شریف نے 1990ء کی دہائی سے جو ووٹ بینک تشکیل دیا ہے اسے تحریک انصاف کی جارحانہ حکمت عملی رتی بھر نقصان نہیں پہنچاپائی ہے۔اصل حقیقت یہ ہے کہ 2011ءسے ہمارا معاشرہ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہو چکا ہے۔فریقین اور ان کے حامی اپنے اپنے موقف پر ڈٹ کے کھڑے ہیں۔سوشل میڈیا پر حاوی ہیجان انتخابی مقابلوں پر قطعی انداز میں اثرانداز نہیں ہوتا۔ ڈیرے اور دھڑے والے سیاستدان برادری اور دیگر بنیادوں پر کئی نسلوں سے ”میرا حلقہ“ بنائے ہوئے ہیں۔تعلیم کے فروغ اور میڈیا کی بدولت ان کے اثر میں بتدریج کمی یقینا آرہی ہے۔ جب تک ہماری سیاسی جماعتیں مقامی اور ضلعی سطحوں پر منظم نہیں ہوں گی ”الیکٹ ایبلز“ کی طاقت برقرار رہے گی۔ ان کی اکثریت انتخاب کے قریب ”ہواکا رخ“ دیکھتی ہے۔”جہیڑا جتے اوہدے نال“ والا رویہ اختیار کرتے ہوئے اس جماعت سے ٹکٹ کی طلب گار بن جاتی ہے جو اقتدار میں آتی نظر آئے۔ اس ضمن میں ”عوامی لہر“ فقط 1970ء کے انتخاب کے دوران ہی نظر آئی تھی۔ مذکورہ انتخاب کے نتیجے میں لیکن پاکستان دو لخت ہونے کی راہ پر چل نکلا۔

سقوط ڈھاکہ نے ہمارے ریاستی اداروں کو مجبور کیا کہ آئندہ سے ”انتخابی نتائج“ انہیں ہرگز پریشان نہ کریں۔ اسی باعث 1988ء میں راتوں رات محترمہ بے نظیر بھٹو کو اکثریت سے محروم رکھنے کے لئے ”اسلامی جمہوری اتحاد“ بنوا دیا گیا تھا۔مذکورہ اتحاد نے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب بڑے صوبے یعنی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہونے نہیں دی۔وہ آج بھی اس صوبے میں اپنی قوت بحال نہیں کر پائی ہے۔ 1997ء کے بعد سے یہ سوچ بھی ریاستی اداروں میں پائی جاتی ہے کہ کسی بھی جماعت کوانتخاب کے دوران دو تہائی اکثریت حاصل کرلینا اسے بے قابو بناکر من مانی کو اکساتا ہے۔12اکتوبر 1999ء کا واقعہ اسی وجہ سے ہوا جس کے بعد ہمیں 2002ء تک انتخاب کا انتظار کرنا پڑا تھا۔ تحریک انصاف کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ وہ اپنے حامیوں کے جذبات کو ان کی محدودات سمیت سمجھنے کی کوشش کرے۔ نام نہاد ”سسٹم“ میں رہتے ہوئے ہی اقتدار میں بحالی کی حکمت عملی تیار کرے وگرنہ جلسے محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھی اپریل 1986ء میں ”تاریخی“ اور پرجوش تھے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments