میرے لڑکپن کا رمضان


بچپن سے یہی دیکھا کہ گھر میں سب روزہ رکھتے۔ اور افطاری کا بہت اہتمام ہوتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے صراحی کا ٹھنڈا پانی جس میں کیوڑے کی مہک ہوتی اور تخم بالنگا کا شربت روح تک اتر جاتا۔ والدہ مرحومہ چاروں مغز سے بنی کوئی چیز بناتیں جو شاید دیسی گھی سے تیار ہوتی تھی۔ پکوڑے جنہیں ہمارے یہاں پھلکیاں کہا جاتا پودینے کی چٹنی کے ساتھ کیا لطف دیتی کہ آج بھی ذائقہ نہیں بھولتا۔ گلگلے بھی بنتے جو اب قصہ پارینہ بن چکے اور دیکھنے کو ترس گئے۔ سحری میں روغنی ٹکیاں اور بالائی یا کبھی کھجلی پھینی یا گھر کی بنی سویاں ہوتیں۔

ڈرا بڑے ہوئے تو ابا سحری کے بعد مکی مسجد نماز فجر کے لیے لے جاتے نماز کے بعد دوڑ لگواتے اور وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ پیچھے پیچھے چلتے اور ہم پاپوش نگر کے قبرستان تک ہو آتے۔

والد مرحوم کٹر جماعتی تھے اور صوم و صلاۃ کے سخت پابند وہ چاہتے تھے کہ گھر کا ماحول بھی دینی ہو اور اولاد بھی انہی کی طرح ہو۔ ہم سب کو نماز کی پابندی کراتے رمضان کے علاوہ بھی فجر کی نماز کے لیے سب کو علی الصبح اٹھاتے کوئی سستی کرتا تو پانی منہ پر ڈال دیتے۔ میں چھوٹا تھا اور بقول سب کے لاڈلا بھی لہذا میں اس تجربے سے بچا رہا۔

ذرا بڑے ہوئے تو ابا مجھے اور مجھ سے بڑے مرحوم جاوید بھائی ( عمر میں تو وہ مجھ سے تین سال بڑے تھے لیکن کسی غلطی سے کاغذات اور میٹرک کے سرٹیفکیٹ میں مجھ سے چھوٹے درج کیے گئے اور آج تک یہی چل ریا ہے ) کو تراویح کے لئے ساتھ لے جائے میں اور بھائی ابا کے ساتھ مسجد میں داخل ہوتے۔ ابا اگلی صفوں میں چلے جاتے اور کم دونوں بھائی پیچھے سے کھسک لیتے اور روڈ پر کرکٹ کھیلتے یا دوستوں اور کزنز سے گپیں مارتے اور شرارتیں کرتے لیکن نظر مسجد پر ہی ہوتی جیسے ہی تراویح ختم ہوتی ہم بھی ابا کے ساتھ گھر آ جاتے۔ ختم قرآن کی رات بالکل آخری رکعت میں ہم سب دوست مسجد جاتے اور مٹھائی کے کئی حصے وصول کرتے۔

نوجوانی کی حدود میں داخل ہوئے تو ہمارے کرتوتوں میں مزید ”نکھار“ آنے لگا۔ نماز روزے سے بس واجبی سا تعلق رہ گیا۔ جب ابا گھر پر ہوتے تو ان کے خوف سے ٹکریں مار لیتے۔ رمضان میں سحری بھی کرتے لیکن روزے صرف گھر تک ہوتے تھے باہر ہم کئی دوست مل کر پارٹی کرتے تھے۔ ان دنوں ریسٹورنٹ بند نہیں ہوتے تھے صرف باہر پردہ لگادیا جاتا تھا اندر خوب ”رونق“ ہوتی تھی۔ ناظم آباد میں اب جہاں باورچیوں کا بازار ہے وہیں کواٹروں میں ڈھابے نما ہوٹل ہوتے تھے وہاں گرم گرم نان اور ”بھنا گوشت“ یا قورمہ کھاتے شاید ایک روپے میں ایک پلیٹ سالن اور دو روٹی مل جاتی۔ وہ ذائقہ اب بھی یاد ہے۔

پھر وہ پردے والے ڈھابے اور ریسٹورنٹ بھی بند کر دیے گئے تو ہم نے سوامی نارائن مندر کے احاطے میں ایک ڈھابہ تلاش کر لیا جہاں لذیذ ویجیٹیرین کھانے ملتے تھے۔ اور ہمارے روزے کا بھرم قائم رہتا۔ ویسے ان دنوں بھی کبھی کبھی جمعہ کے دن ہمت کر کے روزہ رکھ ڈالتے اور شام ہوتے ہوتے حالت غیر ہوجاتی۔

جب برسر روزگار ہوئے تو وہ کفار کی کمپنی تھی وہاں روزے آتے ہی نہیں تھے۔ ہم بڑے اہتمام سے سحری میں اٹھتے سحری کرتے اور کچھ دیر کے لیے سو جاتے اور پھر آفس چلے جاتے ہم اچھے خاصے بڑے افسر تھے آفس پہنچتے ہی ہمارا ٹی بوائے سیاہ تلخ کافی سامنے لاکر رکھ دیتا اور ہم ایک سگریٹ سلگا کر دونوں کے مزے لیتے۔ لنچ بھی آفس کی طرف سے ہوتا۔ شام گھر پہنچتے تو بیگم نے افطاری کا اہتمام کیا ہوتا۔ بچے تو چھوٹے تھے بیگم اور اماں کا روزہ ہوتا ہم بھی روزہ داروں جیسا منھ بنا کر لذیذ افطاری کرتے۔ بیگم اکثر دفتر سے واپسی پر پوچھتیں روزہ ہے اور ہم بڑی ڈھٹائی سے جواب دیتے ہاں ہاں روزہ ہے اور وہ ہمیں انتہائی مشکوک نظروں سے دیکھتیں اور ہم نظر بچا لیتے۔

اب آپ پوچھیں گے کہ اب تو ہم خود مختار ہو گئے تو یہ دکھاوا کیوں اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ کم از کم گھر میں رمضان کا ماحول تو رہے کہیں والدہ اور بیگم کی دل شکنی نہ ہو اور یہ بھی کہ افطار کے وقت بچے اس کی اہمیت سے واقف رہیں۔

روزہ۔ نماز حج و زکواۃ کچھ بھی نہیں
میں بوقت افطار روزہ تو کھول سکتا ہوں

سنہ ستاسی میں والدہ صاحبہ کو عمرے کی خواہش ہوئی میں نے بطور محرم ان کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ فلائٹ بک ہو گئی ٹکٹ آ گئے بیگم کہتی رہیں اب تو عمرے پر جا رہے ہیں نماز کی پابندی کر لیں اور میں کوئی حیلہ بہانہ کر لیتا یا کہہ دیتا پڑھ لی ہے اور وہ جانتے ہوئے بھی خاموش ہو جاتیں۔

آخر روانگی کا دن آ گیا میں نے احرام باندھا اور دو رکعت نفل ادا کیں اور اماں کو لے کر ائرپورٹ پہنچا۔ عصر کا وقت تھا جہاز نے ٹیک آف کیا اماں نے جہاز کی نشست پر ہی نماز ادا کی اور میں نے بھی نیٹ باندھ لی اور نماز عصر ادا کی اس کے بعد لبیک الھم لبیک کا ورد شروع کر دیا۔ شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی یا میری آنکھوں پر بندھی پٹی اترنے کا وقت تھا کہ اس نماز کے بعد سے آج تک نماز کی پابندی نصیب ہوئی۔

عمرے سے واپسی کے کچھ دنوں بعد رمضان آ گیا اور شاید پہلی مرتبہ پورے روزے رکھ ڈالے وہ دن بھر بھوکا پیاسا رہنے کا خوف بھی نہ رہا۔ یقیناً وہ ایک بد بختی آور شیطانی وسوسہ تھا جو ختم ہوا اور اس کے بعد روزے کی بھی پابندی بھی نصیب ہوئی

میرا ماننا ہے کہ یہ دونوں نعمتیں مجھے والدہ کو عمرہ کرانے کے انعام کے طور پر اللہ نے عطا کیں۔

اب سوچتا ہوں کہ کیوں اپنے فرائض سے غافل رہا۔ اکثر والد مرحوم ہم بھائیوں سے بڑے کرب سے کہا کرتے تھے ”آپ لوگوں نے ہمیشہ مجھے نماز روزے کا پابند دیکھا اس کے باوجود آپ اس کی پابندی نہیں کرتے سوچیں جب آپ کی اولاد آپ کو نماز اور دوسرے دینی فرائض ادا کرتے نہیں دیکھے گی تو وہ کیونکر اس کی اہمیت جانے گی اور آپ کس منھ سے ان کو ان فرائض کی تکمیل کے لیے کہہ سکیں گے“

مقام شکر ہے جب میرے بچوں نے ہوش سنبھالا تو مجھے صوم و صلاۃ کا پابند دیکھا اور وہ فرنگیوں کے دیس میں رہنے کے باوجود نماز روزے اور حرام حلال کا خیال رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments