اپوزیشن نے حکومت گرانے کا اتنا بڑا رسک کیوں لیا


پاکستان کی تاریخ نے خود کو ایک بار پھر دہرایا، ایک اور وزیر اعظم بغیر مدت پوری کرے ڈنڈا ڈولی کر کے گھر بھیج دیا گیا۔ تاہم، اس بار وزیر اعظم کے گھر بھیجے جانے پر جمہوریت پسند احباب کی جانب سے بہت زیادہ دکھ کا اظہار اور احتجاج نہیں کیا گیا۔ جس کی بڑی وجہ وزیراعظم اور اس کی حکومت پر منتخب ہونے کا الزام ہے۔ دوسری جانب حکومت گرانے کے لیے بھی آئینی راستہ اختیار کیا گیا تھا۔

نئی حکومت قائم ہو چکی اور شہباز شریف نے ہٹو بچو بھی شروع کر دی ہے۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اس حکومت کے پاس آئینی طور پر ڈیڑھ سال ہے جبکہ اپوزیشن کے پریشر اور خود اتحادی جماعتوں کے مطابق چند ماہ میں الیکشن کروانے پڑیں گے۔ اس ضمن میں شہباز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد بلاول کا ٹویٹ اہم ہے۔ بلاول نے لکھا کہ وہ اپنی ذمہ داری مکمل کر چکے اب شہباز شریف کی حکومت کے لیے نیک تمنائیں ہیں۔ وہ اب الیکشن ریفارمز کی طرف دیکھ رہے۔ یعنی بلاول پہلے دن ہی اسے اپنی حکومت نہیں بلکہ شہباز شریف کی حکومت کہ رہے ہیں۔

اگر اس حکومت کو کھینچ تان کر سال بھی مل جائے تو کیا گل کھلا سکتی؟ کچھ خاص نہیں بلکہ عمران خان حکومت کی ناکامی کا بوجھ بھی انہیں اٹھانا پڑے گا۔ تو پھر ایک ایسے وقت میں جب حکومت خود اپنی کار کردگی کی بدولت عوام میں غیر مقبول ہو رہی تھی حکومت گرانے کا اتنا بڑا رسک کیوں لیا گیا ہے؟

اس کی جو وجہ حکومت کھلے عام بتاتی ہے وہ الیکشن اصلاحات ہیں۔ اگر مقصد محض الیکشن اصلاحات تھا تو کیا الیکشن اصلاحات پر عمران خان حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے تھے؟ کیا تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی شرط کے ساتھ الیکشن اصلاحات کی شرط نہیں رکھی جا سکتی تھی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا غداری کے ان الزامات اور مہنگائی کے اس طوفان کے ساتھ الیکشن اصلاحات کروا کے بھی جب میدان میں اترا جائے گا تو شہباز شریف اور ان کی پارٹی اس مہنگائی میں شراکت دار بن چکی ہوگی اور عوام کے سامنے جواب دہ نہیں ہوگی؟

تاہم، ڈھکے چھپے الفاظ میں جو بات کی جا رہی ہے وہ یہ کہ خان صاحب پشاور کو پنڈی منتقل کر کے اگلے الیکشن کے لیے بھی اپنے حق میں بندوبست چاہتے تھے جسے روکنے کے لیے اقدام اٹھایا گیا۔

لیکن اب ایسی صورتحال جس میں غداری کا الزام سڑکوں پر پہنچ چکا ہے پشور کے پنڈی منتقل نہ ہونے کا بھی کوئی خاص فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ یہ پاکستان ہے یہاں غداری اور توہین مذہب کی بات سڑک پر آ جائے تو اسے واپس داخل دفتر کرنا تقریباً نا ممکن ہوتا ہے۔ میموں گیٹ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اب کیسی بھی تحقیق ہو جائے عوامی سطح پر اپوزیشن تحقیقات کے نتائج نہیں مانے گی تاہم بند دروازوں کے پیچھے قبول کرے گی کہ انہوں نے اس نعرے کو سیاسی طور استعمال کیا۔ اس کی دوسری بڑی وجہ گزشتہ چند سالوں میں تقریباً تمام اداروں کا متنازع ہوجانا بھی ہے۔

بہرحال، حکومت کے گرائے جانے کی جو تیسری وجہ زبان زد عام ہے وہ خارجی محاذ پر خان صاحب کی جانب سے جرمنی جاپان کی سرحدوں کو ملانے اور بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے جیسی مہمات کی وجہ سے ہوئے نقصان کو روکنے کے لیے صاحب بہادر کو جہاز دوڑانا پڑا تھا۔ جس پر تھک کر اب انہوں نے ہاتھ اٹھا لیے اور اپوزیشن کو اپنے ”چا“ (شوق) پورے کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے تو سوال پھر وہی ہے کہ ان چند ماہ میں یہ حکومت ایسا کیا کر لے گی؟ اور اگر خارجی حالات کچھ بہتر ہو بھی جائیں تو کیا گارنٹی ہے اگلی حکومت پی ٹی آئی کی نہ آئے؟

یہ بہت سادہ اور سامنے کی باتیں ہیں جو کسی بھی سیاسی بصیرت کے حامل شخص کے ذہن میں آ سکتی ہیں لیکن کیا یہ باتیں اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ نون کو نظر نہیں آئیں؟ اگر اس حکومت میں بیٹھے جملہ احباب کی سیاسی بصیرت اور تجربے کو سامنے رکھا جائے تو جواب نفی میں آتا ہے اور اس حکومت کے گرائے جانے کے پیچھے کوئی اور وجہ (جس میں امریکی سازش تو بالکل نہیں لگتی) کار فرما ہونے کا شبہ پیدا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں نے بل عموم اور مسلم لیگ نواز نے بل خصوص گزشتہ حکومت کی ناکامی کا بوجھ بھی اپنے سر لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اگر بالفرض محال ایسا نہیں ہے اور اپوزیشن کو محض حکومت آئی ہوئی تھی تو پھر ان تمام جماعتوں نے اپنی سیاست کے لیے انتہائی بڑا رسک لیا ہے اور سیاسی حماقت کی ہے۔ جس کا خمیازہ آئندہ الیکشن میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments