کیا تحریک انصاف کے علاوہ سب غدار ہیں؟


سات سال کی عمر تک روس میرے لیے ایک ایسا عفریت تھا جس کی بہت سی ٹانگیں اور بازو تھے۔ اس کا قد اتنا بڑا تھا کہ آسمان کو چھوتا تھا۔ روس میرے ذہن میں کیوں ایسے متشکل ہوا؟

یہ اسی کی دہائی تھی اور دور گاؤں دیہات تک خوف کی لہریں پھیل چکی تھیں۔ گھروں میں عموما بزرگ اپنے جملوں میں کہا کرتے تھے کہ ‘روس بہت بڑی بلا ہے جی‘۔ میرا بچگانہ ذہن اسی جملے کو پکڑتا تھا اور روس کو ایک عفریت کی شکل بنا دیتا تھا۔ ان دنوں اس بیانیے کو فروغ دیا جا رہا تھا کہ روس بہت بڑی بلا ہے اور اس طاقتور ملک کو گرم پانیوں تک رسائی چاہیے۔ اس کو روکنے کے لیے جہاد بہت ضروری ہے اور امریکہ ہمارے ساتھ ہے۔

کسی بھی ایسے ملک میں، جہاں تنقیدی فکر کا فقدان ہو اور جذبات فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کریں، وہاں پروپیگنڈا کے ماہرین کے لیے کام آسان ہو جاتا ہے۔ بہت سے ترقی یافتہ ملکوں کے شہری بھی پروپیگنڈا کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ پروپیگنڈا کو ڈیزائن کرنے والے ماہرین کس قدر ذہین ہیں؟

تیسری دنیا میں پروپیگنڈا کے بہت ہی بنیادی اصولوں پر عمل کر کے اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پروپیگنڈا کا ایک اصول یہ ہے کہ مخالفین کو گروہوں کی شکل میں نہیں دیکھنا بلکہ کوئی ایسی علامت یا زبان کے حوالے سے کوئی ایسی ترکیب وضع کرنی ہے، جو تمام گروہوں کے لیے یکساں استعمال ہو۔

 اس کے بعد تمام توانائی اس ترکیب یا علامت کے پھیلاو پر صرف کرنی ہے، یوں توانائی منقسم نہیں ہوتی۔ حالیہ پاکستانی سیاست کے تین برسوں میں ’چور ڈاکو‘ ایک ایسی ہی اصطلاح ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کا مخاطب ذہن ’چور ڈاکو‘ کے حوالے آپ کے مخالفین کا ذہن میں ایک سکیما وضع کر لیتا ہے۔ ایسا ذہن یہ بالکل بھی تجزیہ کرنے سے قاصر ہو گا کہ تمام افراد کیسے چور ڈاکو ہو سکتے ہیں یا انہیں سیاستدانوں میں بہت سے اچھے افراد بھی تو موجود ہیں۔ ایسے اذہان آپ کی دی ترکیب کا ایبسٹریکٹ استعمال ہی کریں گے۔

گروہی نفسیات کا ایک مسلمہ قانون ہے کہ گروہ اپنی بقا کے حوالے سے اپنے ہی رکن کے حوالے سے زیادہ حساس ہوتا ہے۔ گروہ ایسا رویہ کیوں رکھتا ہے؟ اس لیے کہ اس کو اس کی بنیادیں ہلتی نظر آتی ہیں۔ گروہ کے رکن یا مخالف گروہ کے رکن کا ایک ہی جملہ مختلف تاثیر رکھتا ہے۔ ایک ہی فقرہ یا دھمکی ہوتے ہوئے بھی اثرات مختلف ہوں گے۔ پروپیگنڈا کا ایک اصول یہ ہے کہ کوئی رہنما اپنے ہی گروہ کو تقسیم کرے اور تقسیم کردہ چھوٹے گروہ کے بارے میں تکرار سے بتائے کہ یہ غدار ہیں اور ان غداروں کی وجہ سے ہماری بقا کو خطرہ ہے۔

 پاکستانی تناظر میں داخلی سیاست کے حوالے سے کسی لیڈر کو بھارت کو بطور دشمن ملک پیش کرنے سے وہ اہداف حاصل نہیں ہو سکتے، جو اپنے گروہ کے طبقے کو غدار کہنے سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ دوسرا غدار کو بھی بطور علامت یا لفظی ترکیب کے طور پر استعمال کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ مخالفین کے مختلف گروہوں سے نمٹنے میں توانائی استعمال نہیں کرتے بلکہ ایک ہی علامت پر اپنی توانائی استعمال کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ماضی میں بھی سیاسی جماعتیں پروپیگنڈا کے اس اصول کو استعمال کرتی رہی ہیں لیکن تحریک انصاف نے نہ صرف یہ اصول بہترین استعمال کیے ہیں بلکہ سب سے زیادہ حوصلہ افزا نتائج بھی وصول کیے ہیں۔

پروپیگنڈا کا ایک اصول یہ ہے کہ عوام الناس یا غیر ترقی یافتہ اذہان کو جذبات کی بنیاد پر متاثر کیا جائے۔ اس کیٹیگری میں مذہب اور نوجوان نسل کا استعمال آتا ہے۔ سیاست میں مذہب (ایک ایسا ادارہ، جس کے ارکان کے رویوں کی کثرت کی قوت متحرکہ خوف ہو) کے استعمال کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنی انسان کی یا جدید انسان کی، جس کی تاریخ سات آٹھ ہزار سال تک جاتی ہے۔ فاشسٹ ذہن کے لیے یہ سب سے بہترین اور نتیجہ خیز اصول رہا ہے۔ جامد اذہان کی کثرت حق اور باطل کی نظر سے یا یوں کہیے کہ سیاہ و سفید کی واضح تقسیم سے دنیا کو دیکھتی ہے۔ اس کی نظر میں اضافیت نہ صرف بے معنی بات ہے بلکہ وہ جزیات میں دیکھنے کی قوت سے ہی محروم ہوتی ہے۔ اس لیے حق و باطل کی تقسیم میں خود کو حق کہنے اور تمام مخالف گروہوں کو باطل کہنے کی تکرار سے نتائج حاصل ہو جاتے ہیں۔

پروپیگنڈا کے اسی اصول میں نوجوانوں کا استعمال اس لیے موثر رہتا ہے کہ نوجوان اپنی عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں، جب فیصلوں کی غالب متحرک قوت جذبات ہوتے ہیں۔ صرف جمہوری اور فاشسٹ رہنما ہی نہیں بلکہ مذہبی رہنماوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ بھی نوجوان ہی ہوتے ہیں۔

پروپیگنڈا کا ایک سنہری اصول یہ ہے کہ ‘حقائق‘ کو سادہ بنا کر پیش کیا جائے۔ مثال کے طور پر امریکہ سے اپنے تعلقات کی پیچیدگی اور دفاع و معیشت پر ہمارا اس ملک پر انحصار، آئی ایم ایف کو بنانے کا حقیقی مقصد، درآمدات و برآمدات کے شماریات، تجارتی خسارے کی وجوہات اور یہ تجارتی خسارہ کیسے پورا کیا جاتا ہے، قوموں کی خودداری کا طویل سفر (جس میں کام کرنا پڑتا ہے) اور ہمارے رویے وغیرہ جیسی تفصیلات کے بجائے حقائق کو سادہ رکھا جائے۔

عام ذہن کو آپ سادی سی بات بتا دیں کہ امریکہ ہمارا دشمن ہے اور اس ملک میں حق (جو کہ ہم ہیں) کا دشمن ہے اور وہ ہمیں کبھی پاوں پر کھڑا نہیں ہونے دے گا۔ آپ نے عبارت کو سادہ رکھ کر اس کی تکرار کرنی ہوتی ہے۔ مخاطب اذہان یہ بالکل بھی نہیں سوچیں گے کہ صرف سویلین اسٹسنس میں آپ نے امریکہ سے سات ارب ڈالر کیوں وصول کیے یا آپ نے قومی معاشی خودمختاری کے لیے اب تک کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ ’حقائق‘ کو سادہ رکھ کے امریکہ و بھارت کارڈ ہمارے ہاں گزشتہ پچھہتر برسوں سے بخوبی کھیلا جا رہا ہے۔ یوں جانیے کہ پروپیگنڈا کے اس اصول کی روشنی میں پیغام کو انتہائی سادہ رکھا جاتا ہے تاکہ اسے کمزور ترین دماغ تک پہنچنے میں بھی دشواری نہ ہو۔

پروپیگنڈا میں ’آرکسٹریشن‘ کا اصول بھی ملتا جلتا ہے۔ اس میں آپ نے تقریر کا حد درجہ اعادہ کرنا ہوتا ہے۔ مخالفین چاہے کہتے رہیں کہ آپ کی تقریر میں کچھ نیا نہیں ہوتا اور ہر دفعہ وہی ایک جیسی باتیں ہوتی ہیں، آپ نے مخالفین کے اس تنقید کو قابل توجہ ہی نہیں سمجھنا کیونکہ ایک ہی باتیں بار بار کرنے سے آپ کا مخاطب ذہنی الجھاو کا شکار نہیں ہوتا بلکہ وہ مزید آپ کے ساتھ ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپ کو مطلوبہ نتائج سے غرض ہونی چاہیے۔

پروپیگنڈا کا اصول تجدید بہت ہی موثر ہے۔ اس میں آپ مخالفین پر الزامات کی بھرمار کر دیتے ہیں۔ اور یاد رکھیے آپ نے صرف الزامات لگانے ہیں ان الزامات کے ثابت ہونے سے آپ کو کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ اصول تجدید میں اہم یہ ہے کہ الزامات کی تعداد کتنی ہے۔ اس کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ مخالفین کو الزامات کی تردید کا وقت نہ ملے۔ ابھی وہ الزام نمبر 19 کا جواب دے رہے تو آپ کو الزام نمبر 20، 21، 22 جڑ دینے چاہییں۔

پروپیگنڈا میں خاموشی کا اصول دلچسپ ہے۔ یہاں خاموشی سے مراد یہ ہے کہ مخالفین کے حوالے سے کسی مثبت خبر یا رویے پر مثبت تاثر نہیں دینا۔ اگر مخالفین مکالمے کی بات کریں یا مفاہمت و ہم آہنگی کی بات کریں تو آپ نے متذکرہ بالا اصول یعنی الزامات کی دوبارہ بھرمار کر دینی ہے بلکہ نمایاں علامت مثال کے طور پر ’چور ڈاکو‘ کی پھر سے تکرار کر دینی ہے۔

پروپیگنڈا کے حوالے سے ان اصولوں کا ذکر کرتے ہوئے ضروری ہے کہ پروپیگنڈا کرنے والی شخصیت میں پائے جانے والے تضاد پر بھی بات کر لی جائے۔ پروپیگنڈا کرنے والا رہنما یا ادارہ شدید فکری تضاد کا مظہر ہوتا ہے۔ اس تضاد کو وہ کسی طور پر چھپا نہیں سکتا اور اس کے مخاطب ذہن بھی اس کی اس کمزوری کو نوٹ کر سکتے ہیں۔ اس کا توڑ یہ ہے کہ آکسٹریشن اور اصول تجدید پر اپنی پوری توجہ رکھی جائے اور اپنے مخاطب ذہن کو اس قدر فرصت دماغ ہی نہ دی جائے کہ وہ ان کمیوں کجیوں پر غور کرے۔ نفرت تحقیر اور خوف اس حوالے سے بہترین ہتھیار ہیں۔

پروپیگنڈا سے وقتی نتائج کے برعکس کیا حتمی نتائج حاصل ہوتے ہیں؟ کیا پروپیگنڈا کا کوئی مثبت استعمال بھی ہے؟ پروپیگنڈا سے قومی سطح پر کیا نقصان ہوتا ہے اور اس سے عام فرد کا معیار زندگی کس قدر متاثر ہوتا ہے؟ یہ علیحدہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ تھا کہ شاید کوئی ذہن سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ ’غدار‘ کتنا بڑا الزام ہے؟ فکری تنقید کا سب سے بڑا حاصل یہ ہے کہ ایسا ذہن الزام کا ناقابل تردید ثبوت مانگتا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے حوالے سے اہلیت و نااہلیت قابل بحث معاملہ ہونا چاہیے۔ غداری کے ٹائٹلز بانٹنے میں گروہ کی بقا یقینی نہیں بلکہ ناقابل ضمانت ہو جاتی ہے۔ یہ سادہ سی نفسیات ہے۔ وگرنہ زمینی حقائق اور تخیل میں وہی فرق ہوتا ہے، جو روس کو ایک ملک کے طور جاننے اور اس کو بہت سی ٹانگوں اور بازوؤں والا عفریت سمجھنے میں ہوتا ہے۔

بشکریہ ڈوئچے ویلے اردو۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments