تحریک انصاف سیاسی جماعت یا کلٹ


پاکستان میں حالیہ سیاسی حدت کے بعد ملک بھر میں ہیجان کی سی صورت حال ہے۔ مار کٹائی طنز کے بعد حطار انڈسٹریل ایریا سے سیاسی اختلاف پہ قتل تک کی خبریں سامنے آ چکی ہیں۔ یہ نہایت تشویشناک صورت حال ہے۔ شاید لوگوں کو لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنان کے متعلق جو جذباتی پن اخلاق باختگی کی بات کی جا رہی ہے وہ ”بغض عمران“ کا نتیجہ ہے۔ مگر لندن میں نواز شریف کے گھر کے سامنے ہڑبونگ مچانے سے لے کر میرٹ ہوٹل میں باغی ارکان اسمبلیوں کو گالیاں دینے تک صورتحال واقعی سنجیدہ ہے۔

خان صاحب کے فالورز کو لگتا ہے جو خان صاحب سے اختلاف کرتا ہے وہ ملک دشمن ہے غدار ہے قابل نفرت ہے۔ خان کے جس سیاسی و صحافتی ساتھی نے ان سے اختلاف کی جسارت کی سوشل میڈیا پہ اس کی ماں بہن اک کر دی گئی۔

خان صاحب کے فالوورز کی اکثریت 2000 ء کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے نہ تو ضیا کی آمریت دیکھی نہ ہی نوے کی دہائی کا وہ سیاسی تماشا جس کے تانے بانے اسٹیبلشمنٹ سے ملتے ہیں۔ یہ نہیں جانتے کہ اک دوسرے کو اکسا کر نواز دور میں زرداری کے خلاف اور بی بی کے دور میں شریف برادران کے خلاف کرپشن کے نام پہ سیاسی کیسز بنوائے۔ آئی جے آئی نے آئی ایس آئی کی فنڈنگ سے کس طرح سیاستدانوں کو کرپٹ کیا۔ پھر اسی کرپشن کے بہانے مشرف کا مارشل لا آیا۔

مشرف دور کے اوائل میں ان کے خان نے کس طرح مشرف کی حمایت کی ریفرنڈم میں ساتھ دیا اس دور میں کس جرنیل نے محترمہ کے خلاف سرے محل کا کیس بنا کر فائل خان صاحب کے حوالے کی۔

کس طرح خان صاحب کو وزیراعظم کے خواب دکھا کر ہاتھ کیا گیا۔ تب خان صاحب نے چودھری برادران کی کرپشن کو بہانہ بنا کر اپوزیشن کرنا شروع کر دی کہ میں ان کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔ بعد میں انہی کے ساتھ مل کر حکومت بھی بنائی اور آخر میں وزارت اعلیٰ بھی آفر کی۔

جب مشرف کی آمریت کا دور تھا تب یہ بچے تھے۔ انہوں نے ہوش سنبھالا تو خان صاحب کے جلسوں کا زور تھا۔ ماضی میں خان صاحب نے کس کس کو دھوکہ دیا کس کس بانی کارکن کو ان کی اصلیت آشکار کرنے پہ خان کی نفرت سہنی پڑی۔ کس طرح انہوں نے اپوزیشن میں کے دوران کیے گئے ہر وعدے سے آنکھیں چرا لیں۔

سیاست شروع کرنے سے لے کر حکومت میں آنے تک ہر وہ کام کیا جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا اور آج باہر نکالے جانے پہ پھر وہی پرانے عمران خان بن چکے ہیں۔

ان کی جماعت نہیں اک کلٹ ہے ان کے سیاسی کارکن نہیں بلکہ عقیدت مند ہیں خان ان کے نزدیک انسان نہیں فرشتہ ہے جو کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتا۔

پاکستانی سیاستدانوں نے ماضی میں اقتدار کے لیے کمپرومائز کیے ہوں گے اتحادیوں کی جائز ناجائز مانی ہو گی جب پاور اور پیسہ ہو تو کرپشن بھی کی ہو گی لیکن ان کو اس افیم پہ لگانے والوں کا کوئی نام نہیں لیتا۔ سیاستدانوں کی فائلیں بنانے ان کی ویڈیوز بنانے ان کو بلیک میل کرنے والوں کی کوئی بات نہیں کرتا۔

خان صاحب کی ہمشیرہ کا نام لیکس میں آتا ہے کوئی کچھ نہیں کہتا۔ فارن فنڈنگ کیس کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے سب چپ ہیں۔ بنی گالا کی ریگولرائزیشن کا ایشو سیاسی بنا دیا جاتا ہے۔ کوئی کاروبار کوئی سورس آف انکم نہ ہونے کے باوجود خان کے لیوش لائف سٹائل کا کوئی سراغ نہیں لگاتا۔

سیف اللہ نیازی حفیظ اللہ نیازی کو رشتہ داروں کی جلن قرار دے دیتے ہیں حامد خان اور اکبر ایس بابر کے انکشافات کو کیا کہیں گے

اکبر ایس بابر اور جسٹس وجہیہ الدین جن کو خان صاحب خود ڈیڈ آنسٹ قرار دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے جیسے ہی سوالات اٹھائے وہ مطعون قرار دیے گئے۔

مبشر لقمان اور محسن بیگ صحافت سے تعلق رکھنے والے دو ایسے کردار جنہوں نے خان صاحب کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزارا۔ اک وقت تھا خان صاحب اپنے خانگی معاملات ان سے ڈسکس کیا کرتے تھے۔ اتنے قریبی ساتھیوں کے انکشافات کہ کس طرح خان صاحب کا خرچہ اٹھایا جاتا ہے ان کا کچن کون چلاتا ہے ان کی گاڑیاں ان کے لیے ہیلی کاپٹر کا بندوبست کیسے ہوتا ہے۔ کیسے خان صاحب کو کروڑوں روپے کیش ہینڈ اوور کیے گئے یہ سب سوالات مین سٹریم پہ آنے سے پہلے ہی دب گئے۔

اوپر بتائی گئیں ان شخصیات کے علاوہ جہانگیر ترین علیم خان عائشہ گلالئی اور ریحام خان سمیت ہر اس شخص کو ٹرول کیا گیا جس نے خان سے اختلاف کی جرات کی یا سوال کرنے کی جسارت کی۔

خان صاحب جیسے تیسے حکومت میں آ گئے لیکن انہوں نے ان ساڑھے تین سالوں میں اپنے دکھائے گئے سبز باغوں میں سے کسی اک خواب کو بھی پورا کیا یا پورا کرنے کی کوشش بھی کی؟

عمران خان صاحب بہت اچھے سپیکر ہیں ان کا اپنا اک کرزما ہے یہ مسحور کن شخصیت کے حامل ہیں یہ باتوں کے شیر ہیں یہ قائل کرنا جانتے ہیں یہ ریاست مدینہ کی مثالیں دیتے ہیں انبیا اور صحابہ کرام کو کوٹ کرتے ہیں

مغرب اور چائنہ کی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں بھارت سے موازنہ کرتے ہیں اور کام؟ کام ان سے نہیں ہو پایا۔ انہوں نے ان ساڑھے تین سالوں میں ریکارڈ قرض لیا ان کے دور میں کرپشن کم ہونے کی بجائے مزید بڑھی۔ سانحہ ساہیوال سے لے کر لاشوں سے بلیک میل ہونے تک انہوں انسانی معاملات میں بھی مایوس کیا۔

چلیں مان لیتے ہیں تبدیلی وقت لیتی ہے ان کو کام نہیں کرنے دیا گیا ہو گا ان پہ دباؤ ہو گا ان کی مجبوریاں ہوں گی اس لیے انہوں نے سی پیک رول بیک کر دیا جہاں چینیوں کا نام آتا خان صاحب دس قدم پیچھے ہٹ جاتے۔ ان کو سعودی عرب کو منانا پڑا مانگے کا جہاز واپس کرنا پڑا یو ٹرن لینا پڑے۔

مگر اس ریکارڈ قرض سے یہ زراعت کے حوالے سے اقدامات اٹھا سکتے تھے۔ زیادہ دور نہیں جاتے بھارت کی مثال لیتے ہیں وہ گرین انقلاب نامی مہم سے ڈیڑھ ارب آبادی کی اناج کی تمام ضروریات میں خودکفیل ہونے کے ساتھ پاکستان جیسے ملک کو سبزیاں برامد بھی کرتا ہے۔ ہائبرڈ فصلیں زیتون، چائے کی پتی سولر ٹیوب ویل کسان کارڈ ایسے کئی منصوبوں پہ خان صاحب کو کام کرنے سے کس نے روکا تھا؟

بھارتی وزیراعظم سے سوال ہوا کہ آپ کی خود کی اتنی آبادی ہے ان کی ضروریات پوری کرنے کا چیلنج درپیش ہے ایسے میں آپ کیا ایکسپورٹ کریں گے بھارتی پی ایم نے کہا ہم بندے ایکسپورٹ کریں گے اور انہوں نے ایسا کیا بھی آج دنیا کے کسی بھی ملک کا نام لیں وہاں آپ کو بھارتیوں کی قابل ذکر تعداد ملے گی۔ خان صاحب ہنر مند پاکستانیوں کو بیرون ملک بھیجنے کی تگ و دو کر سکتے تھے۔

پاکستان جیسا ملک جو ایٹم بم تک بنا لیتا ہے لیکن سوئی سے لے کر جہاز تک درآمد کرتا ہے کیا وہ یہ سب نہیں بنا سکتا؟ خان صاحب چائنہ کی مثالیں دینے کے ساتھ ان کے گھریلو صنعت والے ماڈل کو فالو کر لیتے۔ یوٹیوب پہ ہزاروں ویڈیوز پڑی ہیں آپ دیکھ کر حیران ہو جائیں گے کہ چینیوں نے گھریلو سطح پہ چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں جہاں مرد و خواتین مل کر جوس کھلونوں سے لے کر جوتے اور چینی تک گھر میں بنا کر ایکسپورٹ کرتے ہیں۔

پاکستان اک عرصے سے بگ تھری نامی تین آٹو کمپنیز سے لٹ رہا ہے جبکہ بھارت نے ہندوستان موٹرز ٹاٹا موٹرز مہندرا جیسی جائنٹ کمپنیاں کھڑی کر دی ہیں جو لینڈ کروزر جیسے برانڈز خرید کر اپنے اندر ضم کر چکی ہیں۔ بھارت کی آٹو انڈسٹری صرف بھارتیوں کی ہی اپنی گاڑی کی خواہش پوری نہیں کر رہی بلکہ ایشیا اور افریقہ کے بعد یورپ تک میں ایکسپورٹ بڑھا رہی ہیں

سوئزرلینڈ سپین فرانس جیسے کافر ملکوں کے ساتھ یو اے ای ترکی مراکش لبنان آزر بائیجان جیسے مسلم ممالک سیاحت سے اپنی معیشت کھڑی کرتے ہیں

پاکستان میں ہر لینڈ سکیپ موجود ہے چار موسم ہیں بندرگاہیں ہیں صحرا ہیں آثار قدیمہ ہیں مگر سیاحت کو انڈسٹری کی شکل نہیں دی جا سکی۔

خان صاحب صرف بیچز پہ توجہ دے کر سیاحت کو اک نیا رخ دے سکتے تھے بیچ ہاؤسز یاٹس کاٹیجز یہ سب بنانا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں تھا

آپ فلموں کی شوٹنگ کے حوالے سے خصوصی توجہ دے سکتے تھے دنیا بھر سے فلمی یونٹس کو پرکشش مراعات دے کر متوجہ کر سکتے تھے جس طرح آپ نے سکھ کمیونٹی کے لیے کرتار پور کھولا اسی طرح دیگر مذاہب کے مونیمینٹس پہ توجہ دے سکتے تھے لیکن مندر مجسمے جہاں ملے ہم محمود غزنوی بن گئے ادھر مغلوں سے شدید ترین نفرت کے باوجود بھارت نے ان کی نشانیاں سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں۔

خان صاحب اگر کام کرنے پہ آتے تو ایسے کئی چھوٹے چھوٹے اقدامات اٹھائے جا سکتے تھے جن کے لیے ان کو کسی نے نہیں روکا تھا مگر افسوس ان کی ساری تان این آر او نہیں دوں گا فلاں کرپٹ ہے ملک کو کھا گئے اور انتقامی گرفتاریوں نیب کو استعمال کرنے پہ آ ٹوٹتی تھی۔

خان صاحب بھی دوسروں کی طرح روایتی سیاستدان ہیں سیاست کے لیے اپنے تعلق قربان مت کریں خدارا کسی کو اتنا مہان مت بنائیں کہ اس پہ تنقید کرنے پہ ہی تشدد ہو خون بہے قتل ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments