پروپیگنڈا اور موجودہ سیاسی صورت حال


ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار نے چودہ اپریل بروز جمعرات صحافیوں کو بریفنگ دی۔ اس بریفنگ میں بہت سے اہم سوالات کا جواب دیا گیا جو مختلف لوگوں کے اذہان میں پنپ رہے تھے۔ ملک کا سب سے ذمہ دار اور حساس ادارہ ہونے کے ناتے ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ بابر افتخار کا بیان دبے الفاظ میں بہت سی چیزوں کی نشان دہی کر گیا۔ سب سے پہلے صحافیوں کو دی گئی اس نیوز بریفنگ کے اہم نکات پر بات کرلیتے ہیں پھر اس پر تنقیدی نگاہ سے بات کرلیتے ہیں۔

افواج پاکستان کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ امریکہ نے نہ پاکستان سے فوجی اڈے مانگے تھے اور نہ ہی ان سے انکار کیا گیا بلکہ سابق وزیراعظم نے ایک۔ صحافی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا لیکن بالفرض اگر ایسا کوئی مطالبہ کیا بھی جاتا تو آرمی کی طرف سے بھی انکار ہی ہوتا۔

سابق وزیر اعظم کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشن نہیں دیا تھا بلکہ سابق وزیراعظم عمران خان کی طرف سے چیف آف آرمی سٹاف کو اپروچ کیا گیا اور پھر آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان تین آپشن زیر بحث لائے گئے جس میں سے عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کر کے جلد الیکشن کرانے والے آپشن کو مناسب قرار دیا۔ متحدہ اپوزیشن سے بات کی گئی لیکن اپوزیشن نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک کو لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

جمعرات کو صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پاکستان میں اب کبھی مارشل نہیں لگے گا۔ پاکستان کی بقا صرف اور صرف جمہوریت میں ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کو ملنے والے دھمکی آمیز مراسلے سے متعلق ترجمان کا کہنا تھا کہ ڈی مارش صرف سازش پر نہیں دیا جاتا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے فوج اپنی وضاحت دے چکی ہے اور نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں بھی کسی غیر ملکی سازش کا ذکر نہیں ہے۔ عمران خان کے ایٹمی پروگرام کے بارے بیان کے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے بات کرنے سے پہلے سیاستدانوں کو سوچنا چاہیے اور ایٹمی پروگرام پر سیاست کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ ایٹمی پروگرام میں سب جماعتوں نے دیانت داری کے ساتھ اپنا حصہ ڈالا ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے، ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، ہم آئین اور قانون کی عمل داری پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر فوج پر تنقید کی جا رہی ہے اور سابق فوجی افسران کے فیک پیغامات وائرل کیے جا رہے ہیں جس کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ اگر کسی کے پاس فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت سے متعلق کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائے۔ ان کا کہنا تھا کہ افواہوں کی بنیاد پر افواج کی کردار کشی کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہ چیف آف آرمی اسٹاف نہ تو ایکسٹینشن کے خواہش مند ہیں اور نہ ہی اپنے عہدے کی میعاد میں توسیع قبول کریں گے بلکہ وہ رواں برس انتیس نومبر کو اپنی مدت پوری کر کے ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ اعتراف بھی معنی خیز ہے کہ پروپیگنڈا نئی مشکلات یا برائیوں کو جنم دینے کی بجائے پہلے سے موجود برائیوں کو بڑھاوا دیتا ہے۔ ان کا یہ اعتراف کہ پہلے کچھ دراڑیں تو موجود ہوتی ہیں اور پروپیگنڈا ان دراڑوں کو بس بڑھاتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان نے واضح الفاظ میں سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور ہم سب کو یہ باور کرایا کہ پاک فوج کی عدم مداخلت کا اظہار پچھلے چند انتخابات سے میں دیکھا جاسکتا ہے جب ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں کسی سیاسی حلقے کی طرف سے بھی فوج کی مداخلت کا بھی الزام نہیں لگایا گیا، ہم مستقبل میں بھی اپنے آئینی کردار ادا کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سوشل میڈیا پہ کل سے ایک پروپیگنڈا شروع ہو گیا ہے، میمز اور ٹویٹر ٹرینڈز کے ذریعے ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا گیا ہے جس میں نشانہ پاک فوج کو بنایا جا رہا ہے۔ سازش اور مداخلت کے فرق پر ہزاروں میمز بن چکی ہیں۔ حالاں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے سازش اور مداخلت کا لفظ دو الگ الگ مقامات پر ادا کیا۔ اس سے صاف تاثر لیا جاسکتا ہے کہ جو جو پارٹی اپنی اکثریت کھونے لگے گی اور پارلیمنٹ میں ہارنے لگے گی تو وہ پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا شروع کرا دے گی اور مزاحمت کارڈ کھیلنا شروع کردے گی۔

امریکہ کارڈ اور مزاحمت کارڈ سب سے زیادہ مضبوط کارڈ رہے ہیں جو پاکستان میں کھیلے جاتے ہیں۔ عمران خان بھی یہی کارڈ کھیلنے لگے ہیں اور اپنا جمہوری سفر جس اسٹیبلشمنٹ کے ہوتے ہوئے پورا کیا اور بناء مداخلت کے پورا کیا، پارلیمنٹ میں اکثریت ختم ہوتے ہی انہی کے خلاف ہی محاذ آرائی پر اتر آئے ہیں ایک طرف ان کی اعلیٰ قیادت کا یہ بیانیہ ہے کہ آئی ایس پی آر کی طرف سے ان کے بیانیے کی حمایت کی گئی ہے اور دوسری طرف انہی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی طرف سے ذو معنی جملوں اور میمز کے ذریعے طوفان بدتمیزی شروع کیا جا چکا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت اور خاص طور پر اس بارے میں سنجیدہ نوٹس لینا چاہیے اور جلسوں میں مناسب زبان استعمال کرنی چاہیے تاکہ ان کے کارکن بھی مناسب زبان استعمال کریں اور ملک بدامنی سے بچ سکے۔ انہیں جمہوری سفر اختیار کرنا چاہیے اور بجائے ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے، انہیں اگلے الیکشن میں مقابلہ کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments