کچھ ادائے کافرانہ: مغربی ممالک کے کچھ تجربات اور مشاہدات


میں کسی کام سے لندن میں ایک ڈاکخانے گیا۔ قطار لمبی تھی تو میں ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔ میرے سامنے ایک جوان جوڑا بیٹھا ہوا تھا۔ میں ویسے ہی خلا میں گھور رہا تھا۔ اچانک اس لڑکی نے میری طرف دیکھ کر اپنے بوائے فرینڈ کو کہا کہ دیکھو یہ شخص مجھے گھور رہا ہے۔ میں پہلے تو سمجھا نہیں لیکن جب سمجھ آئی تو جاکر ان سے معافی مانگی کہ میں ان کو نہیں گھور رہا تھا، میں کسی اور خیال میں ڈوبا ہوا تھا۔ مہذب معاشروں میں گھورنا نہایت معیوب سمجھا جاتا ہے کجا کہ کسی کے جسمانی نقص کے بارے پوچھا جائے۔

برمنگھم میں کے ایف سی کی کئی حلال برانچیں ہیں۔ ایک دفعہ میں رات گئے پہنچا تو انہوں نے معذرت کرلی کہ سامان ختم ہو چکا ہے۔ جبکہ میں شیلف پر چکن پیسز دیکھ رہا تھا۔ میں نے ان کی طرف اشارہ کیا تو سیلزمین بولا کہ ان کو پکے ہوئے ہمارا معیاری وقت ختم ہو چکا ہے۔ اس لیے ہم یہ آپ کو نہیں دے سکتے۔

برطانیہ میں اپنی تربیت کے ابتدائی دنوں میں مجھے ایک بچے سے خون کا سیمپل لینا تھا۔ وہ بچہ گبھرا رہا تھا تو میرے منہ سے نکلا کہ ”گھبراؤ نہیں۔ کوئی درد نہیں ہو گا“ ۔ میرا یہ کہنا تھا کہ نرس نے مجھ سے سرنج واپس لے لیا۔ کہنے لگی کہ آپ آج اس کو جھوٹ بولیں گے تو یہ ساری عمر آپ کی کسی بات کا یقین نہیں کرے گا۔ پھر پیار سے بچے کو سمجھایا کہ بیٹا صرف چند سیکنڈ کا درد ہو گا جیسے مچھر کاٹتا ہے اور پھر کچھ بھی نہیں ہو گا۔

جرمنی میں ہیمبرگ میں ٹرین کا ٹکٹ لیا۔ ڈبے کا نمبر دیکھا اور میں اور بیگم دو نشستوں پر براجمان ہو گئے۔ ایک گھنٹے بعد ٹکٹ چیکنگ کرنے والی گارڈ آئیں۔ ہمارے ٹکٹ دیکھے تو کہنے لگیں کہ آپ تو بزنس کلاس میں بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ ٹکٹ کم درجے کا ہے۔ ہم نے زبان سے ناواقفیت کا بتایا۔ کچھ دیر سوچا اور پھر ہمیں ایکسٹرا ٹکٹ مفت میں دے دیا کہ رستے میں کوئی اور نہ پوچھے۔

بورس جانسن برطانیہ کے وزیر اعظم ہیں۔ نیو ائر نائٹ پر انہوں نے اپنے سرکاری گھر کے تہہ خانے میں پارٹی کا اہتمام کیا جبکہ باقی ملک میں ان اجتماعات پر پابندی تھی۔ پولیس آئی۔ وزیر اعظم سے تفتیش کی۔ ان کو قصور دار ٹھہرایا اور اب انہیں اچھا خاصا جرمانہ کر دیا ہے۔ اس سے قبل ان کی ایک ویڈیو ان کے ذاتی گھر پر بنائی گئی تھی جہاں صحافی ان سے انٹرویو کے لئے آئے تھے۔ بورس نے معذرت کی کہ گھر میں بیٹھنے کی جگہ نہیں۔ چنانچہ لان میں ان کے لئے مختلف رنگوں کی پیالیوں میں خود کافی لے آئے۔

بارک اوبامہ سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ اور سٹھیائے ہوئے جو بائیڈن جب ”ائر فورس ون“ سے بارش میں اترتے ہیں تو نہ صرف خود اپنی چھتری اٹھاتے ہیں بلکہ اپنی بیگم کو بھی کور کرتے ہیں۔

تمام مہذب ممالک میں ڈیپارٹمنٹ آف سٹینڈرڈ ہوتے ہیں جو تمام قابل استعمال اشیاء کے معیار کو چیک کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر برطانوی قانون ہے کہ جب تلک کوئی چیز دکان میں کھلے عام پندرہ دن تک زیادہ قیمت پر نہ بکی ہو اس پر سیل کا لیبل نہیں لگایا جاسکتا۔ نہ کسی پٹرول پمپ کا پیمانہ کم ہوتا ہے اور نہ کسی پیکٹ پر درج اجزاء میں کسی قسم کی غلط بیانی ہوتی ہے۔ سیل کاؤنٹر پر قطار، خواہ کتنی بھی لمبی ہو، اپنی باری کا انتظار تحمل سے کرتے ہیں۔ جب تک پچھلا گاہک اپنا معاملہ ختم نہیں کرتا، سیلز کاؤنٹر پر کوئی دوسرا شخص مداخلت نہیں کرتا۔

صفائی ان کا پورا ایمان ہے اور بڑے سے بڑے شاپنگ مال میں ایک دو سے زاید صفائی کرنے والے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ ہر شخص اپنا گند ڈسٹ بن میں ڈالتے ہیں۔ بلکہ اب تو تین چار قسم کے کوڑے دان رنگوں کی بنیاد پر صاف بتاتے ہیں کہ کس بن میں ڈالی جانے والی اشیاء کو ری سائیکل کیا جاسکتا ہے۔ شیشہ دوبارہ پگھلا کر دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جا سکتا ہے اور باقی قسم کے گند کا کیا کیا جاسکتا ہے۔ یہ صفائی کی دین پر قائم لوگ اپنے گرم بستر چھوڑ کر ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو کی چوٹیوں پر پہنچ کر وہ گند سمیٹنے پر پہنچ جاتے ہیں کہ ہم نصف ایمان والوں کا پھیلا گند صاف کرسکیں۔

بسوں اور ٹرینوں میں معذور افراد کے نہ صرف ویل چیر کی گنجائش ہوتی ہے بلکہ ان کے لئے الگ سیٹیں بھی مختص ہوتی ہیں۔ ہر پارکنگ لاٹ میں معذور افراد کے پارک کرنے کے لئے نسبتاً کھلی جگہ مخصوص ہوتی ہے۔

حالیہ دنوں میں کئی مغربی ممالک میں ماسک کے خلاف احتجاج ہوئے۔ بنیادی وجہ اس مسکراہٹ سے محرومی تھی جو آنکھیں ملتے ہی یہ کافر لوگ مسکرا کر باقی دن روشن کرتے ہیں۔ وہ شخص نہایت بداخلاق سمجھا جاتا ہے جو دروازے سے اندر جاتے وقت اپنے پیچھے سے آنے والے کے لئے دروازہ پکڑ کر نہ رکے اور پیچھے آنے والا اگر مسکراہٹ کے ساتھ شکریہ ادا نہ کرے تو شوہدہ سمجھا جاتا ہے۔

پچھلے ہفتے میرے پیارے دوست پلاسٹک سرجن ریاض ملک بمع اپنی برطانوی ٹیم کے ساتھ گجرات میں سرجری کا کیمپ لگانے آئے تھے۔ میں نے اپنے زیر تربیت نوجوان ڈاکٹروں کو بھی نئے ٹیکنیک استعمال کرنے کے لئے بھیجا۔ واپسی پر انہوں نے مجھے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ جب سرجن نے نرس سے کوئی اوزار مانگا تو نرس نے ٹوک دیا کہ ”پہلے پلیز کہو“ ۔

مجھے ایک دن میرے ایک ساتھی سرجن نے پوچھا کہ ”آج کل آپ کے کافی رشتہ دار آپ کے پاس علاج کے لئے آتے ہیں”۔ میں چونک پڑا کہ ایسی تو کوئی بات نہ تھی۔ عقدہ یہ کھلا کہ میں ویل چیئر پر بیٹھے اپنے ہر مریض کو خود کرسی پکڑ کر دروازے سے باہر نکالتا ہوں۔ میرے ساتھی یہ سمجھے کہ میرے رشتہ دار ہیں۔ لیکن میں ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ یہ عادت مجھے برطانیہ اور امریکہ کے کافر ڈاکٹروں نے پختہ کروائی تھی اور ابھی تک چھوٹی نہیں۔

یہ کافر لوگ اتنی پرواہ بھی نہیں کرتے کہ دنیا کیا کہے گی۔ بڑے افسران کو دھوپ سے بچانے کے لئے کوئی چھتری لے کر کھڑا نہیں ہوتا۔ ملک کے سربراہ کی بیٹی کی شادی ہو تو لگتا ہے ایدھی کسی لاوارث لڑکی کی شادی کروا رہا ہے۔ بورس جانسن برطانیہ کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے سپر سٹور پر قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔

جرمنی پر سولہ سال آہنی گرفت کے ساتھ حکومت کرنے والی انجلینا مرکل سے کسی صحافی نے پوچھا کہ آپ کے پاس یہی ایک نیلے رنگ کا جوڑا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جرمن عوام نے خدمت کے لئے ووٹ دیا تھا فیشن کے مقابلے کے لئے نہیں۔ عجیب لوگ ہیں، کافر کہیں کے! اور تو اور رمضان میں امریکی سٹورز پر ہم مسلوں کے لئے سیل لگ جاتی ہے۔ واشنگٹن کے ایک علاقے میں جمعہ کی نماز کے لئے جگہ کم پڑ جاتی ہے تو آس پاس کے چرچ آفر کرتے ہیں کہ آئیے ہماری عبادت گاہ ویسے ہی جمعے کے دن فارغ ہوتی ہیں، یہاں جمعہ کی نماز پڑھیں۔ برطانیہ میں اکثر ہسپتالوں میں چرچ میں مسلمانوں کے علاوہ ہندؤوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی با نہیں کھول کے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ انہی ہسپتالوں میں مسلمان ملازمین کی تعداد کے پیش نظر کینٹین میں حلال گوشت میسر ہوتا ہے۔

علم کی وہ قدر کہ گویا ”اقراء“ کا حکم ان کو دیا گیا ہو۔

بچوں کی حفاظت میں شک و شبہ ہو تو سوشل سیکورٹی ان معصوموں کو خطرے کے علاقے، خواہ وہ اپنا ہی گھر کیوں نہ ہو، سے نکال کر محفوظ گھروں میں دیکھ بھال کے لئے رکھتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں بہت سے اور بڑے بڑے اہم مذہبی رہنماؤں کو جیل کی یاترا ہوئی ہے کہ بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا تھا۔ کیا عیسائیت، یہودیت یا اسلام، اس حمام میں سب ننگے ہو گئے ہیں۔ تاہم ہر ایسے واقعے کی نہ صرف جرم کی نگاہ سے تفتیش ہوتی ہے بلکہ آئندہ را احتیاط کے اقدامات بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ بسا اوقات تو الزام لگانے والے مظلوموں کی عمریں تیس پینتیس سے اوپر کی ہوتی ہیں۔

عدالت میں جھوٹ بولنے یعنی جھوٹی شہادت کی سخت سزا ملتی ہے خواہ ملزم ملک کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو۔
اب آپ ہی بتائیے کہ زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments