جمہوریت کو چلنے دیں


وطن عزیز پاکستان ایک جمہوری پارلیمانی نظام کا حامل ملک ہے۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک جدوجہد اور جمہور کے ووٹ کی پرچی سے پاکستان معرض وجود میں آیا۔ قیام پاکستان کے بعد بانی پاکستان نے کئی مواقعوں پر اپنی تقاریر اور گفتگو میں ملک کے لئے مستقبل میں جمہوری نظام ہی تجویز کیا۔ قائد کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد قائد کے دیرینہ ساتھی اور ملک کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان اور اس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے ملک کو جمہوری نظام کی طرف لانے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لئے اس وقت کی قانون ساز اسمبلی سے منظور ہونے والی قرارداد مقاصد کو جمہوری نظام کی طرف پہلا قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔

اکتوبر 1951 میں لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کے دوران نواب زادہ لیاقت علی خان کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد بدقسمتی سے جمہوریت کے اس پودے کو تناور درخت بنا نے کے بجائے اس کا قلع قمع کرنے کی کاوشیں شروع ہو گئیں جو ہنوز جاری ہیں۔

جمہوریت کا یہ پودا کبھی گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں مسلا گیا تو کبھی ملک کے پہلے صدر سکندر مرزا کی اقتدار میں ہمیشہ رہنے کی خواہش کی بھینٹ چڑھا۔ جناب سکندر مرزا کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے چلتا کر کے ملک کے اندر پہلا فوجی مارشل لاء نافذ کر دیا۔ جو 1958 سے 1969 تک جاری رہا تا آنکہ جنرل آغا یحییٰ خان نے عنان حکومت سنبھال کر فیلڈ مارشل صاحب کو گھر کی راہ دکھائی۔ یحییٰ خان کے دور میں ہی قائد اعظم کا پاکستان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورت اختیار کر گیا۔ اس سانحہ کے کئی عوامل میں سے آپس کی ناچاقی، بے انتہا نالائقی، حدوں سے چھوتی نا اہلی اور مغربی اور مشرقی پاکستان کے باشندوں کے درمیان روز بروز بڑھتی بد اعتمادی سر فہرست ہیں۔

سقوط ڈھاکہ کے جاں گسل صدمے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو سنبھالنے کی کاوشیں شروع ہوئیں تو ملکی سیاستدان ایک دستاویز پر متفق ہو گئے جس کو آئین پاکستان کہا جاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا متفقہ دستور 10 اپریل 1973 کو معرض وجود میں آیا جس کو 14 اگست 1973 کو نافذ العمل کر دیا گیا۔ اس متفقہ دستور نے قوم کے اندر ایک ولولہ تازہ پیدا کر کے ترقی اور خوشحالی کی ایک امید جگا دی اور یہ باور کیا گیا کہ اب ملک عزیز جمہوری انداز میں پھلے پھولے گا اور کوئی بھی طالع آزما اس دستور کی موجودگی میں من مانی نہیں کر پائے گا۔

مگر سیاستدانوں کی باہمی چپقلش نے پہلے جنرل محمد ضیاء الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف کو دستور پر حملہ آور ہونے اور جمہوریت کو سبو تاژ کرنے کی دعوت دی۔ اس دوران ملک با الترتیب 11 اور 9 سال تک آمریت کی چکی میں پستا رہا۔ اور سیاستدان اپنے ہی زخموں کو چاٹنے پر مجبور ہوتے رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ طالع آزما کبھی بھی دستور اور جمہوریت پر بذات خود حملہ آور نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ ان کے لئے رستہ سیاستدانوں کی باہمی چپقلش اور نا اہلی نے فراہم کیا۔ لیکن سیاستدان اب بھی اس سے سبق حاصل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

ملک عزیز میں ایک دفعہ پھر ایجیٹیشن اور نفرت کی سیاست کا دور دورہ ہے۔ بحیثیت قوم ہم مذہبی اور مسلکی اعتبار سے فرقوں میں بٹے ہوئے تو ہیں ہی اب سیاسی لحاظ سے بھی تقسیم در تقسیم ہو چکے حالات اس نہج پر پہنچ چکے کہ ہمیں ہر مخالف رائے رکھنے والا غدار اور ملک دشمن ایجنڈے لگنے لگا ہے۔ بد تمیزی، بدتہذیبی اور گالم گلوچ کا دور دورہ ہے۔ کسی کی عزت محفوظ ہے نہ پگڑی۔ کوئی دلیل ہے نہ فلسفہ۔ اقدار خواب ہو گئیں، احترام زمانے سے آٹھ گیا۔

عدالتیں بچیں نہ معزز ججز، جنرل بچے نہ سپاہی حالات اس قدر خراب کر لئے کہ تیسری قوت کو آواز دینے کی بھی ضرورت نہیں رہی مگر آفرین ہے ملکی فوج کے صبر کی کہ حالات کا فائدہ اٹھانے کے بجائے ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار پریس کانفرنس کر کے بتاتے ہیں کہ ملک کی ترقی کا راز جمہوریت، جمہوریت اور صرف جمہوریت میں ہے۔ ملک کا مستقبل آئین کی پاسداری میں ہے۔ ملک میں مارشل لاء اب کبھی نہیں لگ سکتا۔

پاک فوج کے ترجمان کی یہ پریس کانفرنس انتہائی بروقت اور خوش آئند ہے، یہ تازہ ہوا کا وہ جھونکا ہے جو ریگستان کو نخلستان بنا سکتا ہے۔ ملکی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کہ فوج نے اتنی وضاحت کے ساتھ موقف دے کر گیند سیاستدانوں کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاستدان اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے کوشاں ہوتے ہیں یا ذاتی مفادات کے حصول کے لئے ایجیٹیشن اور نفرت کی سیاست کا پرچار جاری رکھتے ہیں۔

جمہوریت کو بچانے کا، جمہوریت کو پھلنے پھولنے اور مضبوط کرنے کا ایک عظیم موقع سیاستدانوں کے پاس ہے۔ تجویز ہے کہ سب سیاستدان آپس کے اختلافات بھلا کر ملک کے وسیع تر مفاد میں ایک مضبوط، مربوط اور جامع میثاق جمہوریت کر کے ملک میں جمہوریت کو چلنے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments