ارتقائے بشر اور اخلاقیات۔ مصنف:جان ایوری۔ مترجم:اعجاز احمد


تبصرہ: مہ ناز رحمن

جان اسکیلز ایوری ایک سائنسدان ہیں اور ابتدائی شہرت انہیں اپنی سائنسی تحقیق کی بنا پر ہی حاصل ہوئی لیکن 1990 کے عشرے کے اوائل سے وہ امن کے لئے کام کرنے والے کارکن کی حیثیت سے فعال ہو گئے۔ اسی لئے وہ سائنس اور اخلاقیات کے باہمی تعلق پر زور دیتے ہیں۔ وہ سائنسدانوں کو ان کی سماجی ذمہ داری کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسانی سماج کو بہت سے فائدے پہنچائے ہیں لیکن اس عہد میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ سائنس اور انفارمیشن پر انحصار کرنے والی ہماری صنعتی تہذیب بحران کا شکار ہو چکی ہے۔

حیوانات اور نباتات بڑے پیمانے پر غائب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ کیڑوں مکوڑوں کے ختم ہونے کی وجہ سے پرندے ختم ہو رہے ہیں۔ ایک ماحولیاتی قیامت سروں پر منڈلا رہی ہے۔ ایٹمی جنگ کا خطرہ اس پر مستزاد ہے اور تیسرا خطرہ قحط کا ہے جو آبادی میں اضافے، ماحولیاتی تبدیلیوں اور پٹرول اور کوئلے وغیرہ کے ختم ہونے کے نتیجے میں رونما ہو سکتا ہے۔ جان اسکیلز ایوری کی رائے میں ان آفات کو ٹالنے کی ذمہ داری سائنسدانوں پر عائد ہوتی ہے۔ وہ ایسے بہت سے سائنسدانوں کا حوالہ دیتے ہیں جو سماجی طور پر بھی روشن ضمیر تھے جیسے آئن سٹائن۔

جان ایوری کا ماننا ہے کہ سائنس نے ہمیں قدرت کی طاقتوں پر غلبہ کی طاقت عطا کی ہے۔ اگر اسے دانشمندی سے استعمال کیا جائے تو یہ طاقت انسانوں کی خوشیوں کا سبب بن سکتی ہے اور اگر اس کا استعمال غلط انداز سے ہو تو نتیجہ بد بختی ہو گا۔ ہسپانوی مصنف آرٹیگا وائی گیسٹ کے بقول ”ہم زندہ ہیں جہاں ایک ہی وقت میں انسان ہر چیز کا آقا ہے، لیکن اپنا آقا نہیں ہے۔“ یا جیسا کہ آرتھر کوئسلر نے کہا ”ہم ایک خلائی سیارے کی حرکات کو تو کنٹرول کر سکتے ہیں جو ایک دور دراز سیارے کے گرد گردش کر رہا ہو، مگر ہم شمالی آئر لینڈ میں صورتحال کو کنٹرول نہیں کر پاتے۔“

اس صورتحال کی تصحیح کے لئے تعلیمی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سائنس اور انجینئرنگ کے طلبہ کو چاہیے کہ وہ سائنس اور تاریخ کے سماجی اثرات کا کچھ نہ کچھ علم حاصل کریں۔ انہیں سائنسی نظریات کی تاریخ کا ایک کورس پڑھانا چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ جدید تاریخی نشو و نما بھی شامل ہو مثلاً صنعتی انقلاب، کرہ ارض کی آبادی میں اضافہ، جوہری ہتھیاروں کی ترقی، جینیاتی انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سماجی تصادم کے اثرات پر چند نظریات شامل کیے جا سکتے ہیں۔ اگر ہم یہ چاہتے ہوں کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کو سود مند ہونا چاہیے نہ کہ نقصان دہ تو سائنسی تعلیم میں ان عناصر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

اس کے بعد جان ایوری پوچھتا ہے کہ مذہب کیا ہے؟ ’تمام معلوم انسانی معاشروں کے مذاہب ہیں اور یہ حقیقت نہ صرف موجودہ معاشروں پر صادق آتی ہے بلکہ ان پر بھی جو گزشتہ ادوار میں تھے اور نا پید ہو گئے جن کے بارے میں ہمارے پاس معلومات موجود ہیں۔ چنانچہ یہ مفروضہ اس حوالے سے معقول ہے کہ فطرت انسانی میں مذہبی ہونے کا میلان خلقی یا جبلی ہے۔ لگتا ہے کہ یہ ہماری جینز میں شامل ہے۔ ثقافتی ارتقا ہماری کامیابیوں کا ذمہ دار ہے۔

مذہب کے دو پہلو ہیں، اخلاقیات اور کائنات۔ دینی اخلاقیات کا نہ صرف سائنس سے کوئی اختلاف نہیں بلکہ دنیا کے بلند درجہ مذاہب میں اخلاقی اصولوں پر عام اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی مثال دو دھاری تلوار کی سی ہے جو ایک بڑی بھلائی یا زبردست نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اخلاقی غور و فکر کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ایک نئے عالمی سیاسی ڈھانچے کی تشکیل و تعمیر کے ساتھ ہمیں ایک نئی عالمی اخلاقیات مرتب کرنا ہو گی جو ہماری تنگ نظر وفا داریوں کو تمام انسانیت سے وفاداری میں بدل دے گی۔

وقت کے طویل دورانئے میں انتہائی تباہ کن ہتھیاروں کی وجہ سے جو سائنس کے غلط استعمال کے ذریعے تیار کیے گئے، تہذیب کی بقا کی ضمانت صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر ہم جنگ کے ادارے کے خاتمے کے قابل ہو جائیں۔

کتاب کا دوسرا باب ”ارتقا“ کے بارے میں ہے۔ ظاہر ہے اس میں چارلس ڈارون کی زندگی اور تحقیق کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ ڈارون کے نظریہ ارتقا کو تھیوری آف نیچرل سلیکشن بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے چار اہم نکات ہیں :

٭ضرورت سے زیادہ افزائش نسل
٭بقا کی جدوجہد
٭تبدیلی اور موروثیت
٭فطری انتخاب یا Survival of the fittest
٭نئی انواع Speciesکی تشکیل

تیسرا باب سالماتی حیاتیات اور ارتقا کے بارے میں ہے۔ اس میں سب سے پہلے کلاسیکی جینیات کے بارے میں بتایا گیا ہے لیکن میں صرف ڈی این اے کا ذکر کرنا چاہوں گی کیونکہ ڈی این اے ٹیسٹ عورتوں کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ 1944 تک سمجھا جاتا تھا کہ جینیاتی پیغامات کی ترسیل کروموسوم کے لحمیات کے ذریعے ہوتی ہے لیکن 1944 میں سائنسدانوں نے پتا چلایا کہ وہ مادہ جو جینیاتی معلومات کی ترسیل کرتا ہے، لحمیات یا پروٹین نہیں بلکہ ڈی آکسی ریبو نیوکلیک ایسڈ ڈی این اے ہے۔

یہ باب کافی مشکل اور ٹیکنیکل ہے اس لئے میں صرف جینیاتی انجینئیرنگ کی بات کروں گی جو دراصل ڈی این اے میں جینیاتی تبدیلیاں لانے کا نام ہے۔ اس کے ذریعے انسان نے پہلی مرتبہ ”عمل ارتقا“ پر راست اختیار حاصل کر لیا ہے۔ نئے پودوں اور حیوانات کی منتخب افزائش کوئی نئی چیز نہیں، یہ تہذیبوں کی پرانی مہارتوں میں سے ایک ہے مگر اپنے درجے، با ضابطگی اور مداخلت کی رفتار جو recombinant ڈی این اے کی وجہ سے ممکن ہو گئی ہے۔ یہ ایک بالکل ہی نئی چیز ہے۔ 1970 میں مختلف انواع کے جینیاتی خزانوں کو آپس میں ملانا ممکن ہو گیا ہے ۔ ایک چوہے اور انسان کی جینز کو آپس میں ملا کر ایک نئی زندگی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ”

باب چہارم باہمی تعاون کے ارتقا کے بارے میں ہے۔ ایک نوع کی حیثیت سے، انسان کی کامیابی کی وجہ ہمارے باہمی تعاون کی فطری ذہانت پر ہے۔ تہذیبی ارتقا جو ارتقا کی نئی صورت ہے جس میں ایک پشت سے دوسری پشت کے درمیان معلومات کی ترسیل خلقی طور ( genetically) کی بجائے لسانی علامات کی صورت میں ہوتی ہے۔ انسان کی کامیابی کی کلید ہے۔ سماجی ارتقا کا انحصار معلومات کی شراکت داری پر ہوتا ہے اور انسان نے لسانی اور باہمی تعاون کی صلاحیتوں میں قابل تعریف ترقی کی ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی فطرت انسانی کا ایک تاریک پہلو بھی ہے، یہ ہمارے ان مورثین کی وراثت ہے جو شکاری اور غذا جمع کرنے والے تھے اور جینیاتی طور پر ہم آہنگ چھوٹے قبائلی گروہوں کی صورت میں رہتے تھے، یہ افریقہ کے گھاس کے میدانوں میں مختلف علاقوں پر قبضے کی کشمکش میں مصروف رہتے تھے۔ ایک ہی قبیلے کے افراد میں باہمی جذبہ ء ایثار اور مختلف قبائل کی آپس میں جنگ جو نوع انسانی کے دور دراز پرکھوں کی وراثت ہے۔

تہذیبی ارتقا کا انحصار غیر جینیاتی ذخیرہ کاری، ترسیل، نفوذ اور معلومات کے استعمال پر ہے۔ انسان کی قوت گویائی کی اصلاح، تحریر کی ایجاد، کاغذ اور چھپائی کی ایجاد، اور عہد جدید میں ماس میڈیا، کمپیوٹر اور انٹر نیٹ، یہ تمام معاشرے کی معلومات اور اطلاعات، اور علم کے دھماکہ خیز اقدامات ہیں۔ یہ ایک بڑی کامیابی بھی ہے اور اس کے ساتھ تہذیب ایک بحران کے دور میں بھی داخل ہو رہی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی اور پھیلاؤ تہذیب کی تباہی اور خوف کی علامت ہے۔

تنازعات پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں دو مختلف قسم کی جارحیتوں میں امتیاز کرنا ہو گا۔ پہلی کا تعلق بین الا گروہی جارحیت سے ہے جسے گروہ میں درجہ یا مقام کے تعین کی کوشش میں دیکھا جا سکتا ہے مثلاً جب دو بھیڑیے گروہ کی سرداری کے لئے لڑتے ہیں۔ دوسری جارحیت کی بالکل مختلف قسم ہے جب ایک بیرونی حملہ آور کسی گروہ کے خلاف جارحیت کرتا ہے تو بہت سے حیوانات جن میں انسان بھی شامل ہیں، مل جل کر اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ جنگیں ذاتی مفادات کی غرض سے نہیں لڑی جاتی ہیں بلکہ صرف بادشاہ سے وفاداری یا وطن کی خاطر لڑی جاتی ہیں۔

تمام انسان ایک ہی نوع ہیں۔ ان کی شادیوں کی راہ میں کوئی حیاتیاتی رکاوٹ نہیں ہے لیکن خاصی سخت نوعیت کی ثقافتی رکاوٹیں موجود ہیں۔ انہیں آپ مختلف گروہی شناختیں بھی کہہ سکتے ہیں جیسے زبان اور مذہب۔ گو کہ انسان ابتدا ہی سے چھوٹے اور جینیاتی حوالے سے ہم جنس قبائل کی صورت میں رہتا آیا ہے۔ جدید دنیا کے سماجی اور سیاسی گروہ کئی گنا بڑے ہیں، اکثر مختلف نسلوں پر مشتمل ہیں اور مختلف رسوم اور سماجی روایات رکھتے ہیں۔ گروہی شناخت دراصل سماجی تشکیل ہے جس میں مصنوعی قبائلی علامات گروہ کی حدود کا تعین کرتی ہیں۔

یہ جان کر مستقبل کے بارے میں امید کی کرن جاگ اٹھتی ہے کہ کرہ ارض کے بہت بڑے حصوں پر جو متنوع آبادیوں پر مشتمل ہیں، اندرونی امن اور سماجی یکجہتی قائم ہو، بڑے اور نسلی طور پر متنوع ممالک کو ایک واحد مربوط اور ہم آہنگ سماجی اور سیاسی اکائی کے طور پر قائم کر پانے اور تمام دنیا کو ایک اکائی میں پرونے میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ چونکہ گروہ کی شناخت سماجی تشکیل ہے تو یہ کوئی ناممکن منزل مقصود نہیں کہ پہلے سے ہی موجود دنیا کے بڑے گروہوں کو مزید بڑا کر دیا جائے تا کہ تمام انسانیت کو شامل کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments