تین فرشتے اور شہد کی شریر مکھیاں


پہلا حصہ: تین فرشتے اور شہد کی شریر مکھیاں

اس تمام عرصے میں ڈاکٹر صاحب کی یہ حیرانی مستقل برقرار رہی کہ شہد کی مکھیوں کی اس قدر تعداد اور ان کے حملے کی ایسی شدت کے باوجود، بے ہوشی کیوں نہیں طاری ہوئی۔ شاید اس تجسس کے پیچھے ان کا پیشہ وارانہ پس نظر، اس ناقابل یقین عمل کو غیر منطقی سمجھتے ہوئے قائل نہیں ہو پا رہا تھا۔ پھر انھوں نے اپنی گفتگو میں لاہور میں پڑھے گئے ایک جنازے کے دوران ہونے والے تاریخی واقعے کا حوالہ بھی دیا جس پر شہد کی مکھیوں نے ہلہ بول دیا تھا۔ وہ یہ کہتے ہوئے بہت سنجیدہ نظر آئے کہ ”آج مجھے اندازہ ہوا کہ وہاں کیا قیامت ٹوٹی ہو گی“ ۔

ڈاکٹر صاحب کے انجیکشن کے بعد، درحقیقت ان کی ذمہ داری ختم ہو چکی تھی اس لئے اب ان کی کلینک پر زیادہ ٹھہرنا اور انھیں مسلسل تنگ کرنا مناسب نہیں تھا کیوں کہ تین ساڑھے تین بجے کا وقت ہو گا اور رمضان کی مخصوص مصروفیات اور ماحول کا تقاضا تھا کہ اب ان سے، ان کے تعاون کا شکریہ ادا کر کے اجازت لی جائے۔

ادھر وہ اجنبی محسن جس کی معجزانہ، جائے وقوع پر آمد نے معاملات کو اور بگڑنے سے بچا لیا تھا اور اس کی فوری مدد کی وجہ سے کلینک پہنچنا ممکن ہوا تھا، اب بھی ڈاکٹر صاحب سے رخصت لینے میں حائل تھا کیوں کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی چمٹی کے ساتھ چہرے سے مکھیوں کے ڈنک نکالنے میں اس قدر دلچسپی اور انہماک کا مظاہرہ کیے جا رہا تھا جس کی بھائی یا کسی دوست سے ہی توقع کی جا سکتی تھی۔ وہ منع کرنے پر، بار بار، بہت اپنائیت سے ان جذبات کا اظہار کرتا کہ ”یہ ڈنک چہرے پر باقی رہ گئے تو ہمیشہ کے لئے داغ چھوڑ جائیں گے“ ۔ محسن کا حسن سلوک ابھی بھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اس کا مشورہ تھا کہ اس صورت حال میں پیاس کے ساتھ روزہ رکھنا مشکل ہو گا۔ شاید اس نے صحیح پہچانا تھا۔ اسے نقاہت کا نام دیا جائے یا اس ساری صورت حال میں پیدا ہونے والی ذہنی بے چینی کا، کہ اچانک یوں لگا جیسے برسوں کی بھوک جاگ اٹھی ہو۔

سو جب یہ طے ہوا کہ اس حالت میں بھوک اور پیاس برداشت کرنا مشکل ہوگی، ایسے میں اس محسن کی شخصیت کا ایک اور پہلو سامنے آیا اور اس نے اپنی موٹر سائیکل سے بندھے ایک تھیلے کو کھولتے ہوئے کہا ”یہ سب کے سب آپ کے لئے ہے“ ۔ اس نے اپنے گھر کے لئے خریدی گئی ساری کھجوریں بہت فراخ دلی سے اس طرح پیش کر دیں جیسے وہ انھیں اسی مقصد کے لیے اپنے ساتھ لایا تھا۔ یہ گنتی بھی مشکل تھی کہ تیز رفتاری نے کتنی کھجوروں کو تھیلے کی قید سے آزاد کر دیا، شاید یہ بھوک سے زیادہ، کسی مشکل سے نکل آنے، اور اس احساس سے ملنے والی راحت کا نتیجہ دکھائی دیتا تھا، جو کیفیت اس وقت طاری تھا۔

محسن کا کردار اور خدمت کا جذبہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ چمٹی کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو کر، اس نے رابطے کے لئے گھر والوں کا نمبر پوچھا اور ایک دو مرتبہ کی کوشش کے بعد اپنے موبائل سے تھوڑی دیر میں رابطہ بھی کرا دیا۔

یہ سب کچھ ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر ہی ہوا اور انھوں نے بھی اس دوران بہت شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام تر تاخیر کے باوجود کسی طور یہ تاثر نہیں دیا کہ یہ میں کس مشکل میں پھنس گیا ہوں۔ گھر والوں کے آنے تک وہ کلینک ہی ٹھکانہ تھا جہاں سے پھر اپنے اپنے راستوں پر روانگی ہوئی۔ نہیں یاد، اس حالت میں ڈاکٹر صاحب کے غیر معمولی تعاون کے لئے شکریے کے الفاظ، خواہش کے باوجود، ادا کرنے کا موقع ملا بھی کہ نہیں۔

شہد کی مکھیوں کی اس واردات نے عملاً اور حقیقتاً کیا اثرات چھوڑے، گھر جاتے ہوئے یہی جاننے کی خواہش ذہن پر سوار تھی۔ دراصل دوسرے تو شاید ان اثرات کا مشاہدہ کر چکے تھے مگر بیتنے والے پر، تب تک یہ انکشاف نہ ہوسکا جب تک آئنے کے مقابل آنے کی نوبت نہ آئی۔ گھر پہنچتے ہی، آئنے کا سامنا کر کے، دل دھک کر کے رہ گیا۔ کچھ لمحے تو یہی جی چاہا کہ یہ کوئی برا خواب ہی نکلے۔ صحیح معنوں میں، یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ آنکھوں کی سرخی زیادہ تھی یا چہرے کی سوجن۔

جس طرح آنکھوں کی لالی سے یہ خوف در آیا کہ اس کے بصارت پر، جانے کیا نتائج مرتب ہوں گے اسی طرح بالوں میں الجھے ان گنت ڈنک، بالوں کی ممکنہ قربانی کا اندیشہ ظاہر کر رہے تھے۔ چہرے اور ہاتھوں پر، ڈنک ابھی بھی بہ خوبی محسوس کیے جا سکتے تھے۔ مختصراً یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آئنے کے سامنے کون ہے، یہ با آسانی شناخت کرنا اس لمحے خاصہ مشکل تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ، دھیرے دھیرے چیزیں معمول پر آنے لگیں۔ آنکھوں کی سرخی اور چہرے کی سوجن، بتدریج کم ہوتی رہی۔ احباب کے بتائے ٹوٹکوں سے کتنا فائدہ ہوا، یہ تو نہیں معلوم، دل جوئی اور ان کی بات رکھنے کے لئے ان کی تجاویز پر مقدور بھر عمل ضرور ہوا۔ ان میں، کسی ہم درد کا بتایا یہ ٹوٹکا اب بھی ذہن کے کسے خانے میں موجود ہے کہ پیتل کے گلاس میں دودھ کے ساتھ اصلی گھی ڈال کر پیا جائے تو ان مکھیوں کے ڈنک کے مضر اثرات سے دور رہا جاسکتا ہے۔

یہ بات سننے میں شاید عجیب لگے کہ اس ساری صورت حال کو کچھ عرصے تک، نہ بھول پانے میں لانڈری نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس ناگہانی کے دوران پہنے گئے کرتا شلوار اور اس فرشتہ صفت نادیدہ انسان کی طرف سے ان مکھیوں سے حفاظت کے لئے دی گئی چادر کو، اس خیال سے لانڈری میں دھلوایا گیا تاکہ ان کے ڈنک اچھی طرح ان کپڑوں سے نکل پائیں جو شاید گھر کی دھلائی میں اتنی آسانی سے ممکن نہ ہو تا۔ یہ کوشش یہاں بھی دو دفعہ سراسر ناکام ہوئی اور کرتے کی سفید رنگت کی وجہ سے، خاص طور پر، ڈنک اس میں، اسی طرح موجود دکھائی دیے۔ بالآخر تیسری دھلائی کے بعد ، کہا جاسکتا ہے کہ کرتا اس واقعے کی یاد دلانے سے آزاد ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments