انحراف کے ریشوں سے بُنا گیا بحران


بائبل مقدس میں ایک سے زیادہ مقامات پر بنی اسرائیل کو انتباہ کرتے ہوئے ایک خاص استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ ’تم نے ہوائیں کاشت کی ہیں، تم بگولوں کی فصل کاٹو گے‘۔ اس بلیغ جملے میں دو زاویے پوشیدہ ہیں۔ کسان بیج بوتا ہے تو فصل اٹھاتا ہے۔ ہوائیں بونا کار لاحاصل ہے۔ ہوا نمود کے امکان سے خالی مظہر ہے۔ ہوائیں بونے والے کسی ثمر آور فصل کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جو آج بویا جائے گا، کل مقدار اور کیفیت میں شدت اختیار کرے گا۔ ہوائیں بونا کیسا ہی ہیچ فعل کیوں نہ ہو، اس کے نتیجے میں بگولے جنم لیں گے۔ بگولہ افتاد اور تباہی کا نشان ہے۔ جسٹس شہاب الدین کو دسمبر 1954 میں مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کیا گیا۔ وزیر اعظم چوہدری محمد علی جون 55ءمیں ڈھاکہ کے دورے پر گئے۔ دن بھر گورنر صاحب کے ساتھ گزارا مگر انہیں اپنے ارادوں کی ہوا نہیں لگنے دی۔ شام ڈھلے گورنر راج ختم کر کے ابو حسین سرکار کو وزیر اعلیٰ مقرر کر دیا۔ جسٹس شہاب الدین کو خبر پہنچی تو فوراً استعفیٰ دے دیا۔ وجہ یہ بیان کی کہ اگر وزیر اعظم مجھے اعتماد کے قابل نہیں سمجھتے تو مجھے صوبے کا گورنر نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس شہاب الدین کو منصب سے زیادہ اپنی عزت نفس عزیز تھی۔ ان کے سیکرٹری سے روایت ہے کہ دفتر سے رخصت ہوتے ہوئے اپنے قلم سے سرکاری روشنائی تک دوات میں خالی کر دی۔ یہ دیکھ کر سیکرٹری نے کہا ’جناب یہ تو بہت معمولی سی چیز ہے‘۔ مدراس سے تعلق رکھنے والے جسٹس صاحب نے جواب میں فرمایا۔ ’بڑی بڑی بدعنوانیاں بہت معمولی لاقانونیت سے شروع ہوتی ہیں‘۔
بانیان پاکستان میں سے بیشتر جوہر قابل اور گوہر تابدار تھے۔ ان اکابر کی ایک ہی کمزوری تھی کہ انہیں ایک مضبوط سیاسی جماعت ورثے میں نہیں ملی۔ یہ درست ہے کہ آزادی کے فوراً بعد بہت سی ان دیکھی مشکلات اور مسائل کے گراں بار انبار سے واسطہ پڑا لیکن بنیادی مسئلہ یہی تھا کہ مسلم لیگ ایک منظم جماعت کی بجائے تحریک کا مزاج رکھتی تھی۔متحدہ ہندوستان کا جو منطقہ پاکستان کے حصے میں آیا وہاں کی مقامی قیادت کا معتدبہ حصہ آزادی کی جدوجہد کی بجائے پیوستہ مفادات کے لیے غیر ملکی حکمرانوں کی اطاعت کا عادی تھا۔ انگریز بہادر سے ورثے میں ملنے والی ریاستی مشینری نے سیاسی قیادت کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے کی تربیت پائی تھی۔ دوسری طرف ہندوستان میں سیاسی قیادت کی عمومی طاقت کا منبع ایک منظم سیاسی جماعت تھی جس نے معیشت، تعلیم اور دفاع سے لے کر خارجہ امور تک آزاد حکومت کے خدوخال طے کر رکھے تھے۔ پاکستان کا قیام آخری مراحل تک بے یقینی کی صورتحال سے دوچار تھا۔ قائداعظم ہنگامی بنیادوں پر آئینی اور سیاسی معاملات سے نمٹ رہے تھے اور ان کے پاس موعودہ سلطنت کے دستوری اور تمدنی خدوخال پر غورو فکر کی مہلت نہیں تھی۔ ہماری نوآزاد مملکت کی تاریخ پر یہ نکتہ بری طرح اثر انداز ہوا۔ اگرچہ پاکستان نے اس موقف کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کی سیاسی سوچ میں ب±عد پایا جاتا تھا۔
یہاں رک کر ایک نظر بنیادی مشکلات پر ڈال لی جائے۔ جغرافیائی طور پر پاکستان کی ریاست کے دو الگ جغرافیائی منطقوں میں تقسیم ہونے سے بہت سے مسائل اٹھے۔ دونوں خطوں میں محض زبان کا نہیں، معیشت، ثقافت اور تاریخی تجربے کا فرق بھی حائل تھا۔ نئے ملک کے حصے میں متحدہ ہندوستان کے محض بیس فیصد مالی وسائل اور 33 فیصد فوج آئی۔ فسادات اور نقل مکانی نے نئے ملک میں مذہبی تناسب ہی بدل ڈالا۔ چنانچہ ناگزیر طور پر عسکری اور سول ریاستی قوتوں، غیر جمہوری اشرافیہ اور مذہبی عناصر کے گٹھ جوڑ نے جنم لیا۔ دستور کی تشکیل نو برس تک تعویق میں رہی۔ دستور مرتب ہوا تو طالع آزمائی کی روایت جڑ پکڑ چکی تھی۔ نو برس میں آٹھ وفاقی اور 22 صوبائی حکومتیں توڑی گئیں۔ مشرقی بنگال میں پانچ جبکہ پنجاب اور سرحد میں چار، چار حکومتیں تحلیل کی گئیں۔ سندھ پر یہ مشق ستم آٹھ بار دہرائی گئی۔ خیر گزری کہ تب بلوچستان صوبہ نہیں تھا۔ نتیجہ یہ کہ عوام ریاست سے لاتعلق ہو گئے اور ریاست نے عوامی فلاح کے نصب العین سے ہاتھ کھینچ لیا۔ آمریت کی چار آزمائشوں سے قطع نظر، پون صدی میں ایک دن بحران سے خالی نہیں گزرا، جسے معمول کے کاروبار مملکت کا حصہ کہا جا سکے، جب قانون سے انحراف کی کوئی نئی صورت سامنے نہ آئی ہو۔ جسٹس شہاب نے جن معمولی کوتاہیوں کا ذکر کیا تھا وہ اب کوہ قامت مشکلات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ عشرہ در عشرہ مہم جوئی سے نہ کوئی ادارہ اپنے دائرہ کار کا پابند رہا اور نہ کوئی معاشی اشاریہ قابل اطمینان رہا۔
حالیہ بحران میں پارلیمنٹ کے فلور پر آئین شکنی ہوئی ہے۔ دھینگا مشتی دیکھنے میں آئی ہے، تین صوبوں میں گورنر نہیں۔ چوتھے صوبے میں تین ہفتے سے وزیراعلیٰ نہیں۔ صدر مملکت اپنے آئینی فرائض ادا کرنے سے انکاری ہیں۔ ایوان زیریں میں اپوزیشن کی حیثیت مشتبہ ہے۔ سابق وزیراعظم معاملات کو الجھانے کی کوشش میں داخلی سیاسی بحران کو بیرونی دنیا تک لے گئے ہیں۔ ریاستی مشینری دو مہینے سے مفلوج ہے۔ ایسے میں ایک بڑے معاشی بحران کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ عوام میں سیاسی اختلاف خانہ جنگی کی دہلیز تک آن پہنچا ہے۔ اگر سیاسی بحران، معاشی مشکلات اور عالمی تنہائی نے ایک منجدھار کی صورت اختیار کر لی تو ملک لمبے عرصے کے لیے انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ خطرناک بات یہ ہے کہ مستقبل قریب میں بے یقینی کے خاتمے کا امکان نظر نہیں آتا۔ ہم نے انحراف کے ریشوں سے کثیر الجہتی بحران کا جو رسہ تیار کیا ہے اس نے ایک اژدھے کی طرح قوم کو جکڑ رکھا ہے۔ ہم نے ہواﺅں کی جو فصل بوئی تھی اس کے بگولے تاحد نظر رائیگانی کے صحرا میں رقص کناں ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہواﺅں کی کاشت، پرچھائیوں کے تعاقب اور دستور سے انحراف کا رویہ ترک کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments