سیاست بھی بہت بری چیز ہے


عمران خان کے اقتدار کے خاتمے کے لئے اپوزیشن جماعتوں نے مل کر حصہ لیا اور عمران کے اقتدار کو ختم کر دیا۔ سب سے بڑا کردار جے یو آئی کے تحریک کا رہا ہے اور جے یو آئی کی تحریک کی روح سندھ کی جمعیت تھی، تحریک کی کامیابی کے بعد تحریک کی روح جمعیت سندھ کو جے یو آئی کی مرکزی قیادت نے مکمل طور پر نظر انداز کر کے دیوار کے ساتھ لگا دیا، نئی حکومت سازی میں نون لیگ نے خیبر سے مشیر لیا تو پیپلز پارٹی نے پنجاب سے وفاقی کابینہ میں مشیر لیا، لیکن جے یو آئی کی قیادت نے سندھ سے اسلم غوری، عبدالقیوم ہالیجوی یا راشد محمود سومرو سمیت کسی بھی مرکزی یا صوبائی رہنما کو قلمدان نہیں دیا اس کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی نے حاصل کیا ہے۔

سندھ میں صوبائی حکومت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی سندھ کے لوگوں کو وزارتیں دی گئی ہیں اور جو پنجاب کے منتخب نہیں بھی تھے ان کو مشیر برائے وزیراعظم بنا کر قلمدان دیے گئے ہیں، عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک میں جہاں دیگر اپوزیشن جماعتوں نے کردار ادا کیا وہیں پر جے یو آئی سندھ کے کردار بھلایا نہیں جا سکتا،

سندھ میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں آنی والی سیاسی جماعت جے یو آئی سندھ کو اب مرکز کی پالیسیوں اور پی پی قیادت کی جے یو آئی کے ساتھ قربت کی وجہ سے سندھ میں جے یو آئی کی محنت پر پانی پھر گیا ہے۔

سندھ میں جس طرح جے یو آئی کے جلسے ملین مارچ پروگرام منعقد ہو رہے تھے ایسے لگ رہا تھا کہ راشد سومرو سندھ میں ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے خلاف مقابلہ کریں گے اور بڑا سرپرائز دیں گے، جے یو آئی کے جلسوں مین عوام کا جوش جذبہ ولولہ، شرکت سے لگ رہا تھا کہ سندھ میں انقلاب آنے والا ہے، لیکن اب نہیں لگتا، کیوں کہ جے یو آئی سندھ کے پاس جو پہلے بیانیہ تھا وہ دم توڑ گیا ہے دیکھا جائے تو جمعیت علماء اسلام سندھ کا بیانیہ فرد واحد کا بیانیہ ہے یا جماعت کا!

اگر فرد واحد کا ہے تو اس فرد واحد کو روکا کیوں نہیں جاتا اگر جماعت کا بیانیہ ہے تو پھر سندھ میں جے یو آئی کا پیپلز پارٹی سے مقابلہ اسی طرح ہے جس طرح مرکز میں جے یو آئی کا تحریک انصاف کے ساتھ مقابلہ ہے۔ جے یو آئی سندھ نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک میں اپنے مرکز کا ساتھ بنسبت دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ دیا، یہاں تک کہ 15 ملین مارچ میں سے سب سے زیادہ سندھ نے مارچ کیے ، اس کے علاوہ آزادی مارچ، مہنگائی مارچ، ملین مارچ، اسرائیل مردہ باد، شہید اسلام کانفرنس، سب کا آغاز سندھ نے کیا۔

اسلام آباد میں انصار الاسلام کے سالاروں کی گرفتاری کے خلاف شارٹ نوٹس پر سندھ میں 52 مقامات پر روڈ راستے، موٹروے کو بلاک کیا گیا۔ یہاں تک یہ بات ماننی ہوگی کہ لاہور جلسہ سمیت بلوچستان اور پنجاب میں سندھ کے قریب ترین اضلاع کے پروگرام بھی سندھ نے کامیاب بنائے، یہاں سوال یہ ہوتا ہے کہ جے یو آئی سندھ کی جماعت نے مرکز کے بیانیہ میں جس طرح مرکز کا ساتھ دیا اسی طرح مرکز نے سندھ کے بیانیہ میں سندھ کا ساتھ دیا ہے، سندھ میں ان چار سالوں میں جس تیز رفتاری سے جمعیت علمائے اسلام عوام پبلک میں مقبول ہوئی ہے اس کی بہت ساری وجوہات میں سے بڑی وجہ پیپلز پارٹی کا مخالف بیانیہ تھا۔

کیونکہ پیپلز پارٹی نے سندھ کو جتنا تباہ کیا ہے شاید عمران خان نے اتنا ملک کو نقصان نہی پہنچایا /تباہ نہیں کیا، جے یو آئی مرکز کی پالیسی کی وجہ سے پی ڈی ایم مین زرداری کی شمولیت کے بعد سندھ کی جے یو آئی کو اپنی پالیسی پر خاموشی اختیار کرنا پڑ گئی۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے پی ڈی ایم سے نکلنے کے بعد شاید مرکز کو بھی اپنا غصہ برابر کرنا تھا اور سندھ کی جماعت نے ایک بار پھر زور پکڑ لیا اور عوام نے جس طرح جمعیت علماء اسلام کے پروگرام میں پیپلز پارٹی مخالف بیانیہ پر شرکت شروع کی شاید اس طرح کی جلسے بے نظیر بھٹو اور خود ذوالفقار علی بھٹو شہید بھی نہ کیے ہوں گے، جو جمعیت علماء اسلام نے کیے لیکن پہر عدم اعتماد کی تحریک پر اسی پیپلز پارٹی سے ووٹ لینے تھے تو ایک بار پھر سندھ کی جماعت کو پیپلز پارٹی مخالف اپنا بیانیہ عوام کے سامنے رکھنے سے شاید روکا گیا اور ایم کیو ایم کی قیادت نے تو سونے پر سہاگہ یہ کیا کہ اپنے ورکرز کنونشن میں خالد مقبول صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ قومی قیادت سے سندھ کی تقسیم کے معاہدہ پر انگوٹھے لگوائے گئے ہیں۔ جس کی اب تک تردید نہ حکومت نے کی ہے، نہ پیپلز پارٹی نے کی نہ جمعیت علماء اسلام کی مرکزی یا صوبائی قیادت نے کی ہے۔

جس کا نقصان صرف اور صرف جمعیت علماء اسلام کے اس بیانیہ کو ہوا جس کو لے کر سندھ میں ایک تاثر بن گیا تھا کہ اس بیانیہ کے ساتھ سندھ میں جمعیت علماء اسلام اس بار پیپلز پارٹی کو شکست سے دو چار کرے گی۔ سندھ میں جمعیت علماء اسلام دوبارہ کس طرح عوام میں اپنی ساکھ بحال کرے گی، ؟ جبکہ مرکز میں جمعیت علماء اسلام کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی نے سندھ سے وفاقی کابینہ میں جو وزراء شامل کیے ہیں ان کا زیادہ تر تعلق ان حلقوں سے ہے جہاں ان کا مقابلہ صرف اور صرف جمعیت علماء اسلام سے ہوتا ہے۔

کندہ کوٹ کشمور حلقہ میں احسان مزاری صاحب کو وزارت دی گئی ہے، سکھر میں سید خورشید شاہ کو وزارت دی گئی ہے شکارپور میں عابد بھیو کو وزارت کا قلمدان دیا گیا ہے اب تو وہ اپنی اپنی وفاقی وزارت کے ذریعہ اپنے اپنے حلقوں میں جمعیت علماء اسلام کے خلاف کام کریں گے اور اپنی جماعت اور خود کو مزید جمعیت علماء اسلام کے مقابلہ میں مضبوط کریں گے جے یو آئی مرکز نے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سندھ میں ایک بھی صلاح کاری، مشیر برائے وزیراعظم کا قلمدان نہی لے کر دیا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سندھ میں ایک دو قلمدان دیے جاتے، تاکہ کارکنوں کے کام ہو جاتے، کچھ نوکریاں مل جاتی، ترقیاتی منصوبے شروع کیے جاتے لیکن یہاں ایک اور اہم بات جو شاید جمعیت علماء اسلام کے قائدین کی نظروں سے اوجھل ہے یا اس پر بھی مصلحتا خاموشی ہے کہ سندھ میں بلدیات کے انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے اور پیپلز پارٹی نے کروڑوں روپیہ خرچ کر کے ساری سرکاری مشینری کو خرید کر جمعیت علماء اسلام کے مضبوط حلقوں کو توڑ دیا ہے، خود جمعیت کے صوبائی جنرل سیکریٹری راشد محمود سومرو کے گھر کے وارڈ کو شہر سے نکال کر دیہات مین ڈال دیا گیا ہے تاکہ جمعیت علماء اسلام کے امیدوار جیت نہ سکیں۔

اس صورتحال میں جمعیت علماء اسلام کو اپنی پالیسی پر از سر نو غور کرنا ہو گا کہ اس تحریک سے کس کو فائدہ ہوا کس کو نقصان ہوا سندھ کی جماعت کو اتنا ہی نقصان ہوا ہے جتنا عمران خان کو ہوا ہے۔ عمران خان دوبارہ امریکہ مردہ باد نعرہ سے عوام میں چلے جائیں گے، سندھ کی جے یو آئی کس منہ سے عوام میں جائے گی، کیا بیانہ لے کر جائے گی، لگ ایسے رہا ہے کہ سندھ میں جمعیت علماء اسلام اپنی پالیسی پر عمران خان کی طرح یوٹرن لینے اور مرکز میں پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کی قرابت کی وجہ سے اس بار بھی شکست سے ہی دو چار ہوگی اور اس کو شکست مرکز میں اپنی ہی جماعت کے اٹھائے گئے اقدامات سے کہانی پڑی گی، اس لئے کہتے ہیں کہ یہ سیاست بھی بہت بری چیز ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments