انمول گھڑی


ٓتیسری مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک ملک نا خداداد پر ایک راج کمار حکومت کرتا کیا تھا۔ اس کی چھتر چھایا تلے رعایا نہ چاہتے ہوئے بھی خوش تھی کیوں کہ ان کے پاس خوش رہنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ راج کمار نے چوں کہ بچپن ہی سے حساس طبیعت پائی تھی اس لیے رعایا کو اندیشہ تھا کہ اگر اس نے اپنے دکھوں کا رونا رویا تو اس سے راج کمار کو دکھ پہنچے گا اور وہ کسی بھی صورت اپنے راج کمار کو دکھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ راج کمار بہت ہی خوبصورت تھا۔ اس نے تین چار مرتبہ مقابلہ ء حسن میں شرکت کی اور آخر کار مقابلہ ء حسن جیتنے میں کامیاب ہو گیا اور دنیا کا حسین ترین راجہ کہلایا۔ سو رعایا نے اسے مسند اقتدار پر بٹھا دیا تاکہ وہ اس بات پر خوش ہو سکیں کہ ان پر ایک خوبصورت راج کمار حکومت کرتا ہے۔

راج کمار کو دیس پر راج کرتے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ ایک دور دراز ملک کا شہزادہ اس ملک میں آیا۔ راج کمار نے اس کا خوب استقبال کیا اور اپنے نو رتنوں کو حکم دیا کہ وہ شہزادے کا ہر حکم بجا لائیں۔ ایک دن جب شہزادے نے فرمائش کی کہ وہ شہر کی سیر کو نکلنا چاہتا ہے تو راج کمار نے نہ صرف اسے اپنی ذاتی بگھی پیش کی بلکہ کوچوان کی ذمے داری بھی خود نبھائی۔ شہزادے کو راج کمار کی یہ ادا بھا گئی اور دونوں میں گاڑھی چھننے لگی۔ رعایا خوش تھی کہ ہمارا راج کمار اتنا خوبصورت ہے کہ اس پر ایک دور دراز ملک کا شہزادہ بھی مر مٹا ہے۔ جب شہزادہ واپس جانے لگا تو اس نے راج کمار کو اپنے ملک آنے کی دعوت دی۔

کچھ دنوں بعد راج کمار اپنے نو رتنوں کے ساتھ شہزادے کے ملک گیا تو وہاں اس کا شان شایان استقبال کیا گیا۔ راج کمار اور اس کے رتن کئی روز تک وہاں طرح طرح کی میوؤں اور دیگر نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ جب راج کمار کی واپسی کا دن آیا تو شہزادے نے راج کمار کے اعزاز میں ایک خصوصی تقریب منعقد کی۔ اس نے راج کمار کو اپنے ساتھ اس مسند پر بٹھایا اور اپنی جیب سے دو گھڑیاں نکالیں جو نہ صرف خالص سونے کی تھیں بلکہ ان میں ہیروں کے ہندسے جڑے ہوئے تھے۔

شہزادے نے ایک گھڑی راج کمار کی کلائی پر باندھی اور دوسری اپنی کلائی پر ۔

”پوری دنیا میں ان گھڑیوں جیسی کوئی تیسری گھڑی موجود نہیں، جو اس بات کی ضمانت ہے کہ ہم دونوں کے درمیان کوئی بھی تیسرا نہیں۔ آج کے بعد جب بھی تم اس پر نظر ڈالوں گے تمھیں صرف اور صرف میری یاد آئے گی۔“ شہزادے نے راج کمار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

راج کمار نے شہزادے کا شکریہ ادا کیا اور اپنے نو رتنوں کے ساتھ واپس وطن روانہ ہو گیا۔ اس انمول گھڑی کی خبر راج کمار کے وطن پہنچنے سے پہلے ہی پورے ملک میں پھیل گئی۔

راج کمار جب واپس وطن پہنچا تو رعایا اسے دیکھنے امڈ آئی۔ لیکن ان سب کی نظریں راج کمار کے چہرے کے بجائے اس کی بائیں کلائی پر جمی ہوئی تھیں۔ راج کمار چوں کہ بچپن ہی سے نرگسیت پسند تھا اس لیے اسے رعایا کی یہ ادا پسند نہ آئی۔ وہ ساری رات سو نہ سکا، سحری کے قریب اسے اندیشہ ہوا کہ عرب شہزادہ چوں کہ اس کی خوبصورتی سے جلتا تھا اس لیے اس نے جان بوجھ کر اس کے لیے یہ انمول گھڑی تیار کی ہے تاکہ میری رعایا میرے بجائے اس کی دی ہوئی گھڑی سے پیار کرے۔

دوسری طرف رانی کو اندیشہ ہوا کہ اگر یہ گھڑی راج کمار کی کلائی پر موجود رہی تو وہ اس کے حسن کو ہمیشہ شرماتی رہے گی۔ ساری رات وہ سو نہیں سکی۔ اگلی صبح وہ سیدھی اپنی بچپن کی سہیلی کے گھر گئی اور اسے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔ سہیلی نے اسے مشورہ دیا کہ اس منحوس گھڑی کا راج کمار کی کلائی میں رہنا کسی صورت بھی اچھا شگن نہیں۔ وہ جب بھی اپنی کلائی پر نظر ڈالے گا اسے اپنی رانی کے بجائے عرب شہزادہ یاد آیا کرے گا۔

دن بھر الجھن میں گرفتار راج کمار جب شام کو محل میں واپس آیا تو رانی کو اداس پایا۔ اس نے اداسی کی وجہ پوچھی تو رانی نے کہا کہ جب سے آپ نے یہ گھڑی پہنی ہے آپ کی محبت میرے دل سے مٹنا شروع ہو گئی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کچھ ہی دنوں میں میرا دل آپ کی محبت سے بالکل خالی ہو جائے گا۔ یہ سنتے ہی راج کمار کو شہزادے کے کہے ہوئے الفاظ یاد آئے کہ تیسری گھڑی کا موجود نہ ہونا اس بات کی ضمانت ہے کہ ہم میں کوئی تیسرا موجود نہیں۔ وہ تو بھول ہی گیا تھا کہ ان دونوں کے درمیان کوئی تیسرا بھی موجود ہے۔

”میں بھی جب اس منحوس گھڑی کو دیکھتا ہوں۔ مجھے اس عرب شہزادے کی یاد ستانے لگتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر یہ کچھ دن اور میرے پاس رہی تو میں بھی صحن گل چھوڑ کے صحرا کی طرف جا نکلوں گا۔“ راج کمار نے کہا۔

راج کمار نے بغیر سوچ بچار کے اسی وقت فیصلہ کیا کہ وہ آج رات ہی اس منحوس گھڑی کو محل کے پچھلے حصے میں موجود توشہ خانے میں دفن کر دے گا۔

رانی نے اسے مشورہ دیا کہ اس گھڑی کو توشہ خانے کی نذر کرنا اچھا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ توشہ خانہ بھی اسی محل کا حصہ ہے۔ اس صورت میں بھی اس کا منحوس سایہ ہمارے سروں پر منڈلاتا رہے گا۔ راج کمار کو یہ تجویز پسند آئی اور اس نے ملک بھر کے جوہریوں کو طلب کر نے کا فیصلہ کر لیا تاکہ اس گھڑی سے جان چھڑائی جا سکے۔ مگر قبل اس کے کہ راج کمار اس فیصلے کو عملی جامعہ پہناتا۔ رانی کی سہیلی ان کی مدد کو پہنچی اور اس نے انھیں مشورہ دیا کہ اس انمول مگر منحوس گھڑی کا اس ملک میں رہنا مناسب نہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ رعایا کے دل سے بھی اپنے راج کمار کی محبت جاتی رہے۔

طویل صلاح مشورے کے بعد طے پایا کہ اس گھڑی کو کسی دوسرے ملک جا کر بیچا جائے اور اگر نہ بکے تو وہیں سمندر میں پھینک دیا جائے۔

یہ بھاری ذمے داری رانی کی سہیلی کو سونپی گئی۔ اس نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور ہوئی بیڑے میں بیٹھ کر شہزادے کے ملک روانہ ہو گئی۔

اس کے کچھ ہی دنوں بعد اگرچہ ایک سازش کے تحت راج کمار کا تختہ الٹ دیا گیا مگر راج کمار کی محبت کو آج بھی رعایا کے دل سے نہ نکالا جا سکا اور وہ اس پر پہلے سے بھی زیادہ مر مٹنے لگی۔

نتیجہ:ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments