میہڑ کا سانحہ اور سندھ حکومت کی بے حسی


دو روز قبل میہڑ کے گاؤں فیض محمد چانڈیو میں قیامت صغریٰ اس وقت برپا ہوئی جب دوپہر کا وقت تھا اور سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ زمین پر رہنے والے ہر جیو کو دن کے تارے دکھا رہا تھا، جبکہ انسان تو دور کی بات ہے جانور بھی درختوں کا سایہ دیکھ کر گرمی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، شمال سندھ ان دنوں گرم ترین ہوتا ہے اور کبھی کبھی پارہ باون سے لے کر پچپن تک پہنچتا ہے، ایسے میں شمال سندھ میں ہر سال کچے بنے ہوئے گھر سورج کی تپش سے جل اٹھتے ہیں اور کئی کئی زمینوں پر اگے فصل تک جل جاتے ہیں۔

مہیڑ کے فیض محمد چانڈیو گاؤں میں اس وقت اس وقت قیامت صغریٰ کا منظر تھا جب ایک گھر کچے گھر سے دوسرے گھر کو اور اسی طرح پورے گاؤں کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، مگر بے حس حکومت اور بے حس ضلع انتظامیہ سوشل میڈیا پر خبریں چلنے کے باوجود بھی جائے وقوعہ پر نہیں پہنچی جس کی وجہ سے پورا گاؤں جل کر خاکستر ہو گیا جس میں نو معصوم بچے جنہوں نے ابھی زندگی کے سفر میں پورا سفر کرنا بھی نہیں سیکھا تھا وہ ابدی نیند سو گئے اور متعدد جانور بھی جھلس کر جاں بحق ہو گئے۔

حکومت سندھ کے پاس وسائل تو بہت ہیں اور کرنا چاہے تو بہت کچھ کر سکتی ہے مگر شاید لگتا ایسا ہے کہ سندھ حکومت کو صرف سندھ کے لوگوں سے ووٹ لینے کی حد تک لگاؤ ہے، نہیں تو جب دوپہر کو آگ لگتی ہے پورے سندھ سمیت ملک میں جنگل کی آگ کی طرح خبریں پہنچ جاتی ہیں مگر سندھ حکومت کے کانوں تک جوں بھی نہیں رینگی۔

سندھ حکومت کو اقتدار میں مسلسل 15 سال ہو گئے ہیں مگر جامشورو سپر ہائی وے سے لے کر جیکب آباد تک کوئی ٹراما سینٹر نہیں بنا سکی اور نا ہی کوئی برنس سینٹر ہے تاکہ اگر کوئی اس طرح کا واقعہ رونما ہو تو فوری طور پر ٹراما سینٹر یا برنس سینٹر لوگوں کو منتقل کیا جا سکے۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جامشورو سے لیکر، سن، سہیون، بھان سعید آباد، دادو، ککڑ، کے این شاہ، میہڑ، نصیرآباد، وگن، قمبر، شہداد کوٹ سمیت تمام شہروں میں جو تعلقہ ہاسپیٹلز ہیں یا بیسک ہیلتھ یونٹس ہیں ان میں ڈاکٹر صاحبان سمیت اسٹاف صبح 9 بجے سے لے کر زیادہ سے زیادہ 12 بجے تک ہوتا ہے اس کے بعد اگر کوئی بڑا حادثہ بھی رونما ہوتا ہے تو ان کو فوری طور پر یا تو جامشورو اسپتال منتقل کیا جاتا ہے یا حیدرآباد منتقل کیا جاتا ہے، اس اس پورے پونے پانچ گھنٹے کے سفر میں کوئی مثالی اسپتال موجود نہیں جہاں پر تمام ساز و سامان کے ساتھ اسپتال ہو جہاں پر ایمرجنسی میں لوگ اپنا علاج کروا سکیں۔

ادھر سے کراچی کے علاوہ ڈبلیو ایف او ٹراما سینٹر نوری آباد میں قائم ہے اور دوسرا حیدرآباد میں قائم ہے اس کے علاوہ مٹیاری، ہالا، نیو سعید آباد، قاضی احمد، شہید بینظیر آباد، سکرنڈ، دولت پور، مورو، نوشہرو فیروز، کنڈیارو، رانی پور، گمبٹ، خیرپور میرس، سمیت سکھر سمیت پورے نیشنل ہائی وے پر ایک بھی ٹراما سینٹر یا برنس سینٹر نہیں ہے۔

میہڑ کے گاؤں میں جو یہ المناک واقعہ ہوا ہے وہ اتنا بڑا واقعہ نہیں ہو سکتا تھا اگر موقع پر فائر بریگیڈز پہنچ جاتی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ میہڑ سے 15 کلومیٹر دور یہ گاؤں ہے اور دادو جو کہ وزیر اعلی کے گھر سے 15 کلومیٹر دور ہے وہاں کی فائر بریگیڈ بھی نہیں پہنچ پائی، بتایا جا رہا ہے کہ جس دن آگ نے پورے گاؤں کو لپیٹ لیا دوسرے روز دوپہر کو فائر بریگیڈز پہنچی ہیں جب پورا گاؤں جل کر راکھ بن چکا تھا، ضلع انتظامیہ کی بے حسی کی انتہا ہے کہ اگر لاڑکانہ سے ہی فائر برگیڈ نکلتی تو آرام سے ایک گھنٹے میں پہنچ جاتی، دادو سے نکلتی تو بھی ایک گھنٹے میں پہنچ جاتی اور اگر سکھر، شکارپور، جیکب آباد، کشمور سے بھی نکلتی تو کم و بیش دو گھنٹے میں فائر بریگیڈز پہنچ جاتی مگر بے حسی نے معاشرے میں اس طرح سے پنجے گاڑے ہوئے ہیں کہ کسی کو کسی کی پرواہ نہیں کوئی جلتا ہے تو جلتا رہے ہمارا کیا والی بات ہے۔

یہ بھی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان تمام شہروں میں فائر بریگیڈز کی مینٹیننس کے لئے ہر سال بجٹ مختص ہوتا ہے جس میں ٹائر تبدیل ہونا اور فیول ملتا ہے مگر آپ اگر آ کر دیکھیں گے تو لگے نا تو فائر بریگیڈز ورکنگ کنڈیشن میں ہوں گی اور نا ہی اس کے ٹائر چلنے جیسے ہوں گے ۔

مجھے یقین ہے کہ ان تمام شہروں کے مین جن کے نام اوپر لکھ کر آیا ہوں وہاں کی فائر بریگیڈز بھی سوائے چند بڑے شہروں کے باقی کی خراب ہوں گی ۔

وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ واقعے کے دوسرے روز پہنچے اور ان ماؤں کو دلاسا دیا جن کے لخت جگر اس بے رحم آگ کی لپیٹ میں جل کر خاکستر ہو گئے تھے اور انہوں نے جاں بحق بچوں کے لئے 5، 5 لاکھ اور زخمیوں کے لئے 2، 2 لاکھ کا اعلان کیا اور یہ بھی اعلان کیا کہ پورے گاؤں کو نئے سرے سے تعمیر کیا جائے گا، مگر کہنے کا مقصد ہے کہ حکومت کے پاس اتنا تو میکینزم ہونا چاہیے کہ اگر کوئی اتفاقا ایسے واقعے ہو جاتے ہیں تو اس کو روکنے کے لئے ایسی مشینری تو بروقت ہونی چاہیے تاکہ ان واقعات کو روکا جا سکے۔

سندھ حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کے مزید واقعات کو روکنے کے لئے برنس سینٹر اور ٹراما سینٹرز بنائے جائیں اور فائر بریگیڈز کو ورکنگ کنڈیشن میں لایا جائے تاکہ اس طرح کے واقعات پر بروقت قابو پایا جا سکے تاکہ کبھی بھی کسی کے لخت جگر اپنی ماؤں سے اس طرح سے جدا نا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments