سیاسی گہما گہمی


ہمارے علاقے میں ایک وڈیرا گزرا ہے جس کو سب غریبوں کی آواز کے نام سے پہچانتے تھے۔ اس کے بارے مشہور تھا کہ وہ کسی کو نراش نہیں کرتا بلکہ سب کی شنوائی کرتا ہے اور سچ بات بھی یہی تھی کہ وہ کسی بھی مسئلے کا فوری حل پیش کرتا تھا۔ ایک دفعہ کسی غریب شخص کے دو موٹے تازے بیل چوری ہو گئے، وہ سر پیٹتا ہوا سردار صاحب کے پاس گیا اور ان سے فریادیں کرنے لگا۔ سردار صاحب نے سر پر دست شفقت رکھا اور اسے بے فکر ہو جانے کو کہا۔ پولیس بھی کچھ دنوں سے تفتیش کر رہی تھی لیکن کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ جب سردار صاحب نے اپنی ذمہ داری پر بیل واپس لانے کی بات کی تو غریب مزدور مطمئن ہو گیا۔

تین دن بعد ہی وہ دونوں بیل واپس آچکے تھے۔ غریب مزدور کی تو عید ہو چکی تھی۔ وہ مزدور جو پچھلے تمام انتخابات کے دوران سردار صاحب کا مخالف رہا تھا، وہ اب سردار صاحب کی حمایت میں ریلیاں اور جلوس نکالنے لگا۔ عوام کی ساری ہمدردیاں بھی سردار صاحب کی طرف ہو گئیں اور اسی واقعے کی وجہ سے سردار صاحب علاقے کے ناظم کا الیکشن جیت گئے۔ الیکشن کے ایک ہفتے بعد یہ انکشاف ہوا کہ وہ بیل سردار صاحب نے خود ہی چوری کر اکر اپنے کسی فارم پر رکھے ہوئے تھے، جب غریب مزدور کو بے بس پایا تو فوراً بیل واپس کر دیے، یہ ہوتی ہے انسانیت، یہ ہوتی ہے ہمدردی۔

اس واقعے سے مجھ توشہ خانے کے سارے تحائف اور نیب کی طرف سے ہونے والی تمام ریکوری کی کہانیاں یاد آجاتی ہیں۔ امریکہ کی سازش پر بھی یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ خود ہی جمہوری حکومتوں کو گراتا ہے اور خود ہی ان کی جگہ ایک اور جمہوری حکومت لے آتا ہے۔

ایک دفعہ ایسے ہوا کہ ہمارے علاقے کے چرواہے کا بچھڑا چوری ہو گیا۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا لیکن شام تک کہیں نہ ملا، پرانے زمانے کی بات ہے سو اس وقت زیادہ دور پائے جانے کا احتمال نہیں تھا سو اس نے قریب قریب ساری بستیوں سے پتا کر لیا۔ اسے کسی نے مطلع کیا کہ فلاں قوم کے پاس جاؤ تو ان کے پاس ہو سکتا ہے چوں کہ ان کی وجہ شہرت کچھ اچھی نہیں۔

مظلوم شخص ان کے پاس پورے مجمع کے ساتھ جا پہنچا، دعا سلام کرنے کے بعد اس نے اپنے بچھڑے کے بارے دریافت کرنا چاہا تو میزبانوں نے کہا کہ پہلے آپ کچھ کھا پی تو لیں پھر اس بارے بات کر لیں گے۔

اسے بڑا گوشت کھلایا گیا جس کو سیر ہو کر کھایا، بڑے پائے بھی کھلائے گئے۔ اس نے اس پر خدا اور میزبانوں کا شکریہ ادا کیا۔ جب اس نے پھر سے بات کرنا چاہی تو انہوں نے کہا کہ مشروب وغیرہ تو پی لیں۔ جب پوری طرح ضیافت وغیرہ ہو چکی تو مظلوم شخص نے کہا کہ اب تو بتا دیں کہ بچھڑا کہا ہے تو میزبانوں نے کہا ”کتنے نادان ہو کہ اپنے ہی جانور کی خوشبو نہیں پہچان سکے، اب تو ہضم کر چکے ہو سب“ یہی بات مجھے تب یاد آتی ہے کہ جب لاکھوں کے حساب سے عشائیے اور ڈنر کھا کر آنے والے صحافی میاں صاحب اور دوسرے سیاست دانوں سے کرپشن اور لوٹے گئے پیسے کے بارے سوال کرتے ہوں گے تو سیاست دانوں کا یہی جواب ہونا چاہیے ”ارے نادان کیا اپنے ہی پیسے کی خوشبو نہیں پہچان سکتے؟

میں چھوٹا تھا تو ہماری گائے ایک دفعہ گھر سے بھاگ گئی، ہم نے بہت پیچھا کیا لیکن سب بے سود، ہم لڑکوں نے اس کا پیچھا کیا لیکن اسے قابو نہ کرسکے تو ہم نے خاندان کے کسی بڑے کو ساتھ لے کر چلنے کی ٹھان لی، اپنے چچا کو ساتھ کیا اور ان کے ساتھ گائے ڈھونڈنے چل نکلے، سموں کا تعاقب کرتے کرتے ہم نے آخر اس گھر کو ڈھونڈ لیا جس میں گائے نے جا کر پناہ لی تھی بلکہ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ گائے کو وہاں پکڑ کر باندھا گیا تھا، خیر جب ہم نے وہاں کے مالک سے بات کی تو پہلے تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا لیکن ہمیں ان کے مذموم عزائم کا علم اس وقت ہوا جب ہمارے سامنے اس گھر کا ایک بچہ ایک نئی بنی ہوئی رسی لے کر آیا اور کہا کہ ہم نے تو کل اس گائے کو منڈی لے کر جانا تھا اور اسے بیچ کر بابا نے مجھے کھلونے لے کر دینے تھے، جب ہم نے اسے حقیقت بتائی کہ گائے تو ہماری ہے اور ہم اسے لے کر جائیں گے تو وہ زمین پر لیٹ گیا اور کہنے لگا ”آپ اسے کیوں کر لے جا سکتے ہیں، یہ ہمیں اللہ کی زمین سے ملی ہے اور ہماری ہے اب“

یہی حال اب ہماری سیاست کا بھی نظر آتا ہے کہ انہیں بھی ایسے لگتا ہے کہ سارا ملکی خزانہ انہیں اللہ کی زمین سے ملا ہے اور وہ اس کو خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments