عمران خان نے کیا فرمایا؟


اس میں کوئی شک نہیں کہ فیلڈ مارشل ایوب خان اور عمران خان عصرِ حاضر کے عظیم ترین سیاسی مفکرین میں شمار ہوتے ہیں۔ مقدر کی لیلا نیاری ہے۔ ایک نے سپاہی اور دوسرے نے کرکٹر کے طور پر عملی زندگی کا آغاز کیا لیکن دونوں کی بصیرت کے جوہر سیاست میں کھلے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے ذکرِ خیر سے بات شروع کرتے ہیں۔ 1945 ء میں برما کے محاذ پر بزدلی دکھانے پر انہیں کمانڈ سے ہٹا کر معطل کیا گیا۔ پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر سر گلبرٹ لیتھ ویتھ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’’ہمارے ریکارڈ کے مطابق ایوب خان کی مایوس کن فوجی کارکردگی کے باعث انہیں کمانڈ سے ہٹانا پڑا تھا‘‘۔ 1947 ء میں بابائے قوم نے سردار عبدالرب نشتر کی رپورٹ دیکھ کر ایوب خان کے کورٹ مارشل کا حکم دیا تھا۔ پنجاب بائونڈری فورس میں ناقص کارکردگی کی بنا پر سخت تنقید سیاسی رہنمائوں سے ایوب کی دائمی نفرت کا نقطہ آغاز تھا۔ شیر علی پٹودی ایوب کی سفارش کرنے جنرل میسروی کے پاس پہنچے تو میسروی نے انہیں سمجھایا کہ ’پاکستان میں اعلیٰ مناصب کے لیے صحیح افسروں کا انتخاب بہت اہم ہو گا‘ افسروں کے انتخاب میں مگر ایک پراسرار حادثہ پیش آیا۔ 1949 ء کے اواخر میں لیاقت علی خان نے سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا اور کمانڈر انچیف گریسی کی سفارش قبول کرتے ہوئے میجر جنرل افتخار علی خان کو پاکستانی فوج کا سربراہ نامزد کیا۔ اعلیٰ تربیت کے لیے امپیرئیل ڈیفنس کالج لندن جاتے ہوئے 13 دسمبر 1949 ء کو جنگ شاہی (کراچی) کے قریب جنرل افتخار کا طیارہ تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں جنرل افتخار کے ہمراہ سنیارٹی میں دوسرے نمبر پر آنے والے بریگیڈیئر شیر محمد خان بھی جاں بحق ہو گئے۔ اس وقت ایوب خان سنیارٹی کے اعتبار سے دسویں نمبر پر تھے۔ 15 جنوری 1951 ء کو جنرل گریسی نے قائداعظم کے احکامات مسترد کر کے ایوب خان کو کمانڈر انچیف مقرر کر دیا۔ یہ سب تو رہا لیکن خدا اقتدار دیتا ہے تو بصیرت کے چشمے بھی پھوٹ پڑتے ہیں۔ پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک بننے کے بعد ایوب خان نے ارشاد فرمایا کہ جمہوریت صرف سرد آب و ہوا رکھنے والے ممالک کے لیے مفید ہے۔ اس پر ایک دل جلے نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے شمالی علاقوں مثلاً چترال، اسکردو اور سوات وغیرہ میں جمہوریت نافذ کر دی جائے۔ فتنہ پرور سیاسی کارکن عظیم رہنمائوں کی حکمت سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

گزشتہ دنوں عمران خان نے فرمایا کہ پارلیمانی جمہوریت کا تجربہ اینگلو سیکسن ممالک کے سوا کہیں کامیاب نہیں ہوا۔ (برطانیہ، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ اینگلو سیکسن ممالک کہلاتے ہیں )۔ عمران خان کی اس گہری دریافت کے جواب میں کوئی 65 ایسے ممالک گنوا دیے گئے جو اینگلو سیکسن نہیں لیکن وہاں پارلیمانی جمہوریت کامیابی سے چل رہی ہے۔ ان ممالک میں سویڈن، ڈنمارک، ناروے، جاپان اور ہالینڈ جیسے ملک بھی شامل ہیں۔ عمران خان کی جان ضیق میں ہے۔ جاپان کو جرمنی کا ہمسایہ بتاتے ہیں تو اعتراض اٹھتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت اور اینگلو سیکسن منطقوں میں تعلق دریافت کرتے ہیں تو تنقید ہوتی ہے۔ گزشتہ روز لاہور کے جلسے میں عمران خان نے عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے سامنے لعل و گہر کے ڈھیر لگا دیے لیکن حاسدین اعتراض کرنے سے باز نہیں آتے۔ عمران خان نے کہا کہ میں نے کبھی کسی سے ڈکٹیشن نہیں لی۔ تاہم صرف تین روز پہلے عمران خان نے اسلام آباد میں میڈیا کو بتایا تھا کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کا نام اسٹیبلشمنٹ نے تجویز کیا تھا۔ ابھی مداخلت اور سازش میں نکتہ طرازیاں جاری تھیں۔ اب تجویز اور ڈکٹیشن میں فرق پر مجادلہ ہو گا۔ تحریک آزادی (جدید) کے رہنما نے جوش خطابت میں فرمایا، ’جن کے پاس طاقت تھی، وہ کرپشن کو برا نہیں سمجھتے تھے‘۔ عوام حیران ہیں کہ وزیراعظم تو عمران خان خود تھے تو ’طاقت‘ کس کے پاس تھی؟ اس تقریر میں عمران خان نے بار بار چیری بلاسم کا ذکر کیا۔ یہ لطیف اشارہ بھی وضاحت طلب ہے۔ جنوری 2020 ء میں فیصل واوڈا نے ٹی وی شو میں ایک بڑی سی چیز لا کر میز پر رکھ دی تھی۔ پوچھا جا رہا ہے کہ چیری بلاسم سے عمران خان کا اشارہ خدا نخواستہ فیصل واوڈا کی پسندیدہ آئٹم کی طرف تو نہیں تھا۔

عمران صاحب نے گزشتہ برس پوچھے گئے مفروضہ سوال کی آڑ میں ایک بار پھر Absolutely Not کا کریڈٹ لیا ہے۔ جولائی 2021 میں امریکہ نے پاکستان سے فوجی اڈے مانگنے کی تردید کی تھی۔ 14 اپریل 2022 کو میجر جنرل بابر افتخار نے تصدیق کی کہ امریکہ نے فوجی اڈے نہیں مانگے۔ جھوٹ کون بول رہا ہے؟ 7 اپریل کو سپریم کورٹ بنچ نے قاسم سوری کی 3 اپریل 2022 کی رولنگ متفقہ طور پر غیر آئینی قرار دی تھی۔ تاہم لاہور جلسے میں عمران خان نے خم ٹھونک کر قاسم سوری کو ہیرو قرار دیا۔ عمران خان نے مزید فرمایا کہ ضمانت پر رہا شخص (شہباز شریف) کو وزیر اعظم بنا دیا گیا ہے۔ ( 1 ) عمران صاحب نے ملزم اور مجرم کا فرق نظر انداز کر دیا۔ ( 2 ) 18 اگست 2018 کو وہ خود بھی ضمانت پر تھے۔ ( 3 ) وزیر اعظم بنایا نہیں جاتا، ایوان کا اعتماد ملنے پر وزیر اعظم قرار پاتا ہے۔ تحریک انصاف کے کسی ناراض رکن نے تحریک عدم اعتماد میں ووٹ نہیں دیا لیکن عمران خاں نے ان ارکان پارلیمنٹ کو بکائو مال قرار دیتے ہوئے اپیل کی کہ انہیں کبھی ووٹ نہ دیا جائے۔ البتہ عمران خان نے ان افراد کا ذکر نہیں کیا جنہوں نے 2018 میں مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ واپس کر کے تحریک انصاف کا ٹکٹ لیا تھا۔ عمران خان کا بنیادی نکتہ یہ تھا ’غلطی ٹھیک کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے، فوری انتخابات کروائیں‘۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کون سی غلطی اور کس کی غلطی؟ تحریک عدم اعتماد تو دستور کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کا حق ہے۔ یہ حق استعمال کرنا غلطی نہیں ہو سکتا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ بھی واضح نہیں ہو سکا کہ غلطی ٹھیک کرنے کا مطالبہ کس سے کیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments