سرمہ، کاجل، قاتل نین اور سائنس


گمان غالب ہے کہ اس دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد ہماری آنکھ میں جو سب سے پہلے چیز پڑی ہو گی وہ کورے سرمے کی سلائی ہے۔ نومولودوں کے استقبال کا یہ طریقہ زمانہ قدیم سے رائج ہے جس کا مقصد نومولود کو نظر بد اور بیماریوں سے بچانا ہوتا تھا۔ ایک روایت کے مطابق اس سے آنکھیں بڑی اور خوبصورت ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ ذہین قارئین ہماری تصویر کو اس روایت کی ضعیفی کے ناقابل تردید ثبوت کے طور پر پیش کریں۔

ایک زمانے میں ہمارے ہاں خواتین کے بناؤ سنگھار کی کل کائنات، سرمے اور اخروٹ کے چھلکے سے بنی مسواک (سکڑا) جو لپ اسٹک کا متبادل تھا، پر مشتمل تھی۔ یہ بناؤ سنگھار بھی صرف شادی بیاہ جیسے خاص موقعوں کے لیے مخصوص تھا۔ یادش بخیر، ہماری نیم جوانی تک، کسی سرمئی آنکھ کو دیکھ کر کہے جانے والے ذو معنی فقرے ”آج تو کہیں سرمے کا ٹرک الٹا ہے“ سے آگے نہیں بڑھے۔ خواتین اور بچوں تک ہی موقوف نہیں، عید اور شادی (اپنی) پر حضرات بھی سرمے سے اپنی وجاہت کو چار چاند لگایا کرتے تھے۔

اردو شاعری میں سرمے کو محبوب کی جذباتی حالت اور موڈ چانچنے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یا پھر رتجگے کے آفٹر افیکٹس کو چھپانے کے لیے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو:

دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل (سید عابد علی عابد)

پروین شاکر کا ایک مشہور شعر بھی یاد آ رہا ہے اسے بھی بے محل پیش کیے دیتا ہوں :
لڑکیوں کے دکھ عجب ہوتے ہیں سکھ اس سے عجیب
ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ

سرمہ قدیم مصری تہذیب کے زمانے سے جنوبی و وسطی ایشیاء، اور افریقہ میں بناؤ سنگھار کے علاوہ آنکھوں کی بیماریوں کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ایک روایت کے مطابق، یہ سورج سے آنے والی خطرناک بالائے بنفشی شعاعوں سے آنکھوں کی حفاظت کرتا ہے۔ خام سرمہ ایک سرمئی رنگ کی چمکدار ڈلی کی صورت میں پنساری سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پتھریلی سل پر اسے اس وقت تک پسا جاتا ہے جب تک دھوپ میں اس کے ذرات کی چمک معدوم نہ ہو جائے۔ پھر لکڑی کی بنی ہوئی ایک سلائی کی مدد سے اسے آنکھ کے پپوٹوں بیچ پھیر دیا جاتا ہے۔

سرمے کے لیے عربی لفظ ”کحل“ انگریزی میں بھی مستعمل ہے۔ اس کا فارسی متبادل ”سرمہ“ اردو اور پنجابی میں، جبکہ ہندی اور گجراتی میں ”کاجل“ استعمال کیا جاتا ہے۔ قدیم سرمہ کحل (اینٹیمنی) اور گندھک (سلفر) کا ایک مرکب (اسٹیبنائٹ) تھا تاہم فی زمانہ سرمے کا مرکزی جزو سیسے (لیڈ) اور گندھک کا مرکب (گیلینا) پایا گیا ہے۔ گمان غالب ہے کہ اسٹیبنائٹ کی عدم دستیابی اور بیش قیمتی کی وجہ سے رفتہ رفتہ اسے گیلینا سے بدل دیا گیا۔ مغربی ممالک میں مستعمل کاجل کا مرکزی جزو کاربن ہے۔ جسے نباتاتی تیل کو جلا کر بنایا جاتا ہے۔ بیاڑ اور چیڑ کی لکڑی میں قدرتی طور پر تارپین کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی لکڑی جلا کر کھانا پکانے سے برتن پر کافی مقدار میں یہ کاربن جمع ہو جاتی ہے۔

کیمیاء کی زبان میں سیسہ دراصل ایک نرم اساس ہے۔ اور ”کبوتر بہ کبوتر باز بہ باز“ کی ضرب المثل کے مصداق یہ ایک نرم تیزاب کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمین میں یہ آکسیجن کے بجائے اسی خاندان کے بزرگ یعنی سلفر کے ساتھ رہنا زیادہ پسند کرتا ہے۔ اس ملاپ سے بننے والی کچ دھات ایک چمکدار اور سرمئی رنگ کے کر سٹلز (قلم) پر مشتمل گیلینا کہلاتی ہے۔ اس کچ دھات کو جلا کر سیسہ حاصل کیا جاتا ہے۔ گیلینا میں قدرتی طور پر 0.5 فیصد چاندی بھی پایا جاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق برصغیر، عرب اور یورپ سے حاصل کیے گئے سرمے کے نمونوں میں کافی بڑی تعداد میں سیسے کی موجودگی ثابت ہوئی ہے۔ نومولود بچوں میں سرمے کے استعمال سے سیسہ خون میں سرایت کر سکتا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں ایک ایشیائی خاندان میں پیدا ہونے والے بچے میں سیسے سے پیدا ہونے والے دماغی مرض کی تشخیص کے بعد سرمے کے استعمال پر رضاکارانہ پابندی تجویز کی گئی تھی۔ تاہم اگلے دو عشروں میں انگلینڈ میں یہ بحث منظر عام سے غائب ہو گئی۔ امریکی ادارہ برائے انتظام خوراک و ادویات (ایف ڈی اے ) سرمے پر مشتمل تمام اشیاء کو غیر قانونی قرار دے کر ان کی درآمد اور استعمال کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

سرمے میں موجود سیسہ کی وجہ سے گردوں اور اعصاب کے مسائل، کو مہ، مرگی کے دورے اور انتہائی حالات میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ سیسہ جسمانی اور ذہنی نشوونما پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور جسم میں اس کی موجودگی سے خون کی کمی بھی واقع یو سکتی ہے۔ انتہائی کم مقدار میں سیسے کا طویل عرصے تک سامنا خواندگی اور برتاؤ کے مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ سرمے کے دھاتی ذرات رگڑ سے آنکھ کو زخمی بھی کر سکتے ہیں۔ سرمے کے انتہائی باریک ذرات، استعمال کے دوران سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں جا کر سانس کی بیماریوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

امید ہے کہ آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ اردو شاعری میں اکثر اوقات نینوں کو قاتل کیوں کہا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments