ہٹلر کا فاشزم، ٹرمپ، عمران خان اور شاہ زیب خانزادہ


حال ہی میں محترم شاہ زیب خانزادہ صاحب کی 8 منٹ 44 سیکنڈ کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ ہٹلر کی سیاسی مہم جوئی کو بیان کر رہے ہیں اور آخر میں وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اسی گروپ میں شامل کرتے ہیں۔ اس کو خانزادہ صاحب نے اس انداز میں پیش کیا ہے کہ جیسے عمران خان کے سیاسی سفر کی تصویر پیش کی جا رہی ہو۔ جس پر سوشل میڈیا پر حکومتی حامیوں کی طرف سے صحافی جناب شاہ زیب خانزادہ صاحب کو بہت سراہا گیا۔ ہماری طرف سے ان کو Political Thoughts میں اس بہترین اضافے پر ”ارسطو پاکستانی“ کا لقب دیا جاتا ہے۔

میری نظر میں ہم ”فرقہ واریت“ کے دور میں جی رہے ہیں۔ اگر یہی فرقہ واریت ”مذہبی“ ہو تو ”فقہ سیکولر ازم“ کے مطابق ایک ناسور سمجھی جاتی ہے۔ اگر یہی فرقہ واریت سیاسی پارٹیز میں ہو تو وہ ”حسن“ سمجھی جاتی ہے۔ مذہبی فرقہ واریت کی سب سے خطرناک شکل کسی کو ”کافر“ کہنا ہوتا ہے بعینہ سیاسی فرقہ واریت میں اس کا مترادف ”فاشسٹ“ کہنا ہے۔ ایک طرف ہمارے ”ارسطو پاکستانی“ ہمیشہ مذہبی فتوی تکفیر کو معاشرے کی تباہی کا سبب بتاتے ہیں لیکن سیاسی فتوی مشین کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اپنے سے مخالف سیاسی فکر رکھنے والے کو ”فاشسٹ“ کہنا فخر سمجھتے ہیں کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

سرمایہ دارانہ نظام جمہوریت کی یہ خوبی ہے کہ یہ بین الاقوامی نظام اپنے مخالف چلنے والی ہر سیاسی آئیڈیالوجی کے خلاف ایسا پروپیگنڈا کرتا ہے کہ وہ فکر گالی بن کر رہ جاتی ہے۔ اب چاہے وہ سوشلزم ہو، خلافت ہو یا موجودہ دور میں پاپولزم، آپ دیکھیں گے کہ یہ تمام مخالف نظام سولائزیشن کے لیے خطرہ بتائے جائیں گے۔ جبکہ جمہوریت کا کلمہ صبح شام اس انداز میں پڑھایا جائے گا کہ ”منزل من اللہ“ ہونے کا شائبہ ہونے لگتا ہے۔

”ارسطو پاکستانی“ کی طرف سے ”فاشزم“ کی پیش کی جانے والی تصویر اور حقائق۔

محترم شاہ زیب خانزادہ صاحب کی طرف سے چند خصوصیات کو فاشزم کی حقیقی تصویر کہا گیا ہے اب دیکھتے ہیں کیا وہ حقیقی تصویر ہے یا ثانوی باتیں ہیں۔

1۔ اس کے مطابق اپنے مخالفین کے خلاف نعرے بازی کرنا مارچ کرنا بے روزگاری کا رونا رونا لوگوں کے جذبات سے کھیلنا، مخالف سیاسی لیڈر کے خلاف نعرے بازی لیڈر کا بہت بڑا مقرر ہونا فاشسٹ لیڈر کی خصوصیات ہوتی ہیں۔

اگر یہ ساری چیزیں ہم دیکھیں تو ہر سیاسی پارٹی کے اندر موجود ہے اگر ”بے نظیر اور نواز شریف“ کی ایک دوسرے کے خلاف تقاریر دیکھیں تو شاید چودہ طبق روشن ہوجائیں، بھٹو صاحب کا بنگالیوں کو سور کہنا، مولانا فضل الرحمان کا عمران خان کو یہودی ایجنٹ بتلانا، وزیراعظم میاں شہباز شریف کا زرداری صاحب کو کراچی لاہور، لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنا اور کبھی بلاول صاحب کی طرف سے مودی کو نواز شریف کا یار کہنا کیا فاشزم ہو گا یا نہیں؟

2۔ بیرونی مداخلت کا رونا رونا فاشزم ہے۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ طاقتور ممالک دوسرے ممالک میں مداخلت کرتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ اس خطہ میں ہم پر ایک بیرونی طاقت عملاً قابض رہی ہے لیکن ہمارے ”ارسطو پاکستانی“ بیرونی مداخلت کو ایک حقیقت سمجھنے کو فاشسٹ سوچ سمجھتے ہیں۔ جناب بیرونی مداخلت ہوتی ہے۔ پچھلے امریکی الیکشن 2016 کو دیکھیں جب ٹرمپ الیکشن جیت گیا تو امریکی ایجنسیز کی طرف سے روس کی طرف سے مداخلت کا شور مچایا گیا۔ بھائی وہ تو امریکہ ہے وہاں مداخلت ہو سکتی ہے تو یہاں تو بالاولی ہو سکتی ہے۔

3۔ لیڈر کا خود کو مسیحا بتانا فاشزم ہے۔

یہ سیاسی گر ہے ہر سیاسی لیڈر اگر خود کو دوسروں سے بہتر وژن والا نہیں بتائے گا تو عوامی ریٹنگ کیسے بڑھے گی۔ اب یہی دیکھ لیں ہمارے ”ارسطو پاکستانی“ نے اس کلپ سے ایسا ملغوبہ اس لیے بنایا ہے کہ ان کو وکھرا دانشور سمجھا جائے اور ریٹنگ بھی بڑھے۔ اگر لیڈر کا خود کو مسیحا بنا نا فاشیزم ہے تو یہاں پر باقاعدہ ”امیرالمومنین“ بھی رہے ہیں ان پر بھی ہمارے ”ارسطو پاکستانی“ کچھ خامہ فرسائی کریں گے۔

4۔ فاشسٹ لیڈر ایک فورس بناتا ہے، لیڈر جو کہتا ہے وہ اس کو من و عن تسلیم کرتے ہیں اور مخالفین کا قلع قمع کرتے ہیں۔

جہاں تک سیاسی شخصیت پرستی کی بات ہے تو وہ ہر جماعت میں ہوتی ہے لوگ لیڈر کی ہر خامی کو بھی خوبی سمجھتے ہیں۔ اگر جو فاشیزم آپ بتا رہے ہیں متشدد قسم کا جس میں مخالفین پر حملے ہوں تو اس کے لیے آپ کو موجودہ حکومتی اتحاد میں PPP کی الذوالفقار کے حملے، ایم کیو ایم کی کراچی میں بوری بند لاشیں، ”ن“ لیگ کا ”ماڈل ٹاؤن“ اور سپریم کورٹ پر بھی حملہ شاید آپ کو جمہوریت کا حسن نظر آئے۔

5۔ ہمارے ”ارسطو پاکستانی“ نے غریبوں کو بے روزگاری غربت کے خاتمے خاتمے امیروں سے دولت لینے اور قوم کی اخلاقیات کو زندہ کرنے کا، اور مارچ کا راستہ اپنانے کا نعرہ لگانے کو بھی ”فاشزم“ بتایا ہے۔

اگر ہم دیکھیں تو ہر سیاسی پارٹی یہ نعرے ہر دور میں لگاتی ہے موقع کی مناسبت سے۔ اگر روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیکھیں دیکھیں تو یہ بھٹو صاحب نے لگایا تھا، اگر حالیہ PDM کی شروعات دیکھیں تو ہمیں مہنگائی سے نجات کے دعوے ملتے ہیں۔ ویسے اگر ہم ہمسایہ ملک میں عظیم لیڈر ”ماؤ“ کی جدوجہد دیکھیں تو یہ تمام نعرے نظر آئیں گے اور ہم مارچ بھی دیکھیں گے۔ کیا وہ سب بھی ”ارسطو پاکستانی“ کے مطابق فاشزم ہو گا۔

اب آتے ہیں ”ہٹلر کے فاشیزم“ کے کرتوتوں کی طرف جو ہمارے ”ارسطو پاکستانی“ نے صحیح طرح نہیں بتائے بلکہ لایعنی چیزوں پر فوکس کیا جیسے آج کسی کی ”چھوٹی ہٹلر ٹائپ مونچھیں“ دیکھ لیں اور اسے کہیں تم ”نازی“ ہو حالانکہ میری نظر میں ہٹلر کے جرائم کے مقابلے میں ”امریکی عظیم ایٹم بم“ کا حملہ بھی کسی طرح ”فاشزم“ سے کم نہ تھا۔ لیکن چونکہ منجن ہٹلر کے خلاف بکتا ہے تو ہم بھی پہنچیں گے۔ اب عمران اور ڈونلڈ ٹرمپ چونکہ اپنی ملکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے خطرہ تھے تو ان دونوں کو بھی گالی بنا دیا گیا۔

اب آتے ہیں ہٹلر کے فاشیزم کی ”بنیادی خصوصیات“ کی طرف۔
1 ہٹلر نے جرمنی کے آئین کو منسوخ کر دیا اور ڈکٹیٹر شپ کی بنیاد رکھی۔

کیا عمران خان نے آئین کو منسوخ کیا۔ کیا ڈکٹیٹرشپ کی بنیاد رکھی ہے پاکستان میں۔ جب کہ فوجی مارشل لاء کے ذریعے کئی بار آئین کو منسوخ کیا گیا اور عدالتوں کے ذریعے توثیق بھی دی گئی۔

2ہٹلر نے آزادی اظہار رائے پر جرمنی میں پابندی لگائی تھی۔

آزادی اظہار رائے پر پاکستان میں عمران دور میں پابندی نہیں لگائی گئی جبکہ ہمارا میڈیا کتنا ذمہ دار ہے اس کی ایک مثال ”ارسطو پاکستانی“ کے چینل پر ڈی جی آئی ایس آئی کی تصویر کا آٹھ گھنٹے مسلسل چلنا اور حامد میر پر قاتلانہ حملے کا ذمہ دار بتلانا تھا۔ ہاں پروپیگنڈا اور فیک جرنلزم کے خلاف قانون سازی ضرور کی گئی جو ہر معاشرے میں قانون کا حصہ ہوتی ہے۔

3مخالف سیاسی پارٹیوں کا خاتمہ کر دیا گیا بلکہ قتل عام تک کیا گیا۔

کیا عمران خان کی طرف سے کسی سیاسی پارٹی پر حملہ کیا گیا یا کسی سیاسی پارٹی کو بین کیا گیا یا کسی سیاسی پارٹی کی لیڈر شپ کو قتل کیا گیا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اگر ہم دوسری پارٹیوں کو دیکھیں تو کچھ ایسی بھی تھیں جنہوں نے الذوالفقار بنائی، جہاز ہائی جیک کیے، وزیراعظم کا بھائی ان کے سیاسی مخالف ان کے ہی دور میں مبینہ پولیس مقابلہ میں مارا گیا، کچھ ایسی بھی تھیں جنہوں نے بوری بند لاشوں کا کاروبار کیا۔

4ہٹلر نے بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے ہمسایہ ممالک پر حملے کیے ۔

کیا عمران خان نے کسی ہمسایہ ممالک پر کوئی حملہ کیا تو جواب ہرگز نہیں بلکہ کے ”ابھی نندن“ جیسے سنگین معاملے پر ایک بہترین قدم اٹھایا اور اس کو رہا کیا گیا تاکہ تعلقات کی بہتری اور امن کی طرف لایا جا سکے۔

5مختلف یورپی ممالک میں لاکھوں لوگوں کا قتل عام۔
کیا عمران خان کے دور حکومت میں ایسی کوئی مثال ہے ہمارے ارسطو پاکستانی کے پاس۔

یہ ہٹلر کے فاشیزم کی حقیقی تصویر تھی جس کو ہمارے ”ارسطو پاکستانی“ نے کسی بھی طرح پیش نہیں کیا کیونکہ اصل میں یہی فاشیزم تھا جو دنیا کے لیے خطرہ بنا جبکہ اس کے مقابلے میں میں یہ انتہائی ثانوی باتوں کو ڈسکس کرتے رہے اور اپنی طرف سے عمران خان کے خلاف چارج شیٹ بنا کر پیش کیا ہے۔

میں محترم شاہزیب خانزادہ صاحب کی قابلیت کا معترف ہوں کہ وہ صف اول کے صحافی ہیں۔ ان کا سوال کمال اور لاجواب ہوتا ہے۔ لیکن ایک مشورہ ان کو دوں گا جو بطور صحافی ان کو اپنے ہر تجزیے سے پہلے یاد رکھنا چاہیے۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 8 میں ہے کہ ”کچھ لوگوں کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف ہی نہ کرو“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).