کیا پاکستانی سیاست کا غیر جانبدار تجزیہ ممکن ہے؟


غیر جانبداری کسی بلیک اینڈ وائٹ چڑیا کا نام نہیں ہے۔ اور سو فیصد تک یہ قابل حصول بھی نہیں ہے۔
نکتہ مگر یہ ہے کہ آئین و قانون اور مروجہ اخلاقی اصولوں کو معیار طے کرتے ہوئے ہم کس حد تک انصاف کر سکتے ہیں؟ یہ نکتہ ہماری غیر جانب داری کو متعین کرتا ہے۔
چوں کہ عام عوام کے لیے آسانی سے سمجھ آنے والی باتوں پہ نعرے لگانا آسان ہوتا ہے اور پیچیدہ اکیڈمک گفتگو نہ کوئی سننا چاہتا ہے نہ کوئی پڑھنا چاہتا ہے، اس لیے ایسی باتیں لکھنے اور بولنے والے دانشور عنقا ہو گئے ہیں۔ بلکہ میں اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر یہ عرض کروں گا کہ پیچیدہ اکیڈمک ڈسکورس کی صلاحیت کا بھی فقدان ہوتا جا رہا ہے۔ اس ساری صورتحال کے باوجود یہ حقیقت برقرار ہے کہ مسائل کا حل اسی اکیڈمک ڈسکورس میں ہے نہ کہ بلیک اینڈ وائٹ خوش کن نعروں میں جو سیاست دان لگاتے ہیں اور عوام سنتے ہیں۔
اس ساری صورت حال کی بڑی ذمہ داری بہر حال سیاست دانوں پہ ہی عائد ہوتی ہے کیوں کہ وہی ذمہ دار پوزیشن پہ ہوتے ہیں۔ عوام کی تربیت انہی کی ذمہ داری ہے۔ اور تربیت نہ کرنے کے نتائج بھی وہی بھگت رہے ہوتے ہیں۔
دراصل پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما عاجزی جیسی خوبی سے عاری ہیں۔ اگر ہم سابق وزیراعظم عمران خان سے شروع کریں تو ان کا تصور ایک انا پرست اور طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے اور اس کا بے مہار استعمال کرنے والے شخص کا ہے۔ مگر دوسری جانب سابق وزیراعظم نواز شریف بھی دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد مزید قوت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے تھے جو کہ نہ ہو سکا۔ کسی بھی طریقے سے قوت حاصل کرنے ہوس کبھی بھی کسی حکمران کو انصاف پہ مائل نہیں کر سکتی۔
اگر ہم پاکستان کی سیاسی صورتحال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کریں تو ہمارے سامنے کچھ پیمانے ہونے چاہئیں۔ جیسا کہ
1۔ قوم کی تربیت کا پیمانہ۔
2۔ تعلیم ، صحت، انفراسٹرکچر اور دوسری سروسز کی ڈلیوری کا پیمانہ۔
3۔ انصاف کی فراہمی کا پیمانہ۔
4۔ معیشت کا پیمانہ۔
5۔ خارجہ پالیسی کا پیمانہ۔
1۔ سابق وزیر اعظم عمران خان پہلے پیمانے پہ بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ چوں کہ وہ خود ہزاروں کے مجمع میں نقلیں اتارتے ہیں۔ نام بگاڑتے ہیں الزام لگاتے ہیں تو ان کے پیروکار سوشل میڈیا اور اصل زندگی میں ان سے چار ہاتھ آگے بڑھ کر یہ سب کرتے ہیں۔
دوسری جانب میاں نواز شریف اب تو یہ سب نہیں کرتے مگر نوے کی دہائی میں پیپلز پارٹی کے خلاف وہ یہ سب کچھ کرتے رہے ہیں۔ جس کے اثرات لمبے عرصے تک رہے ہیں۔ موجودہ زمانے میں اگر ان کا کوئی پیروکار اس طرح کی گفتگو کرتا ہے تو وہ اسے منع کرنے میں کوئی خاص سنجیدگی نہیں دکھاتے۔
2۔ تعلیم اور صحت کے معاملے میں گزشتہ تینوں حکومتیں بری طرح ناکام ہوئی ہیں جب کہ ن لیگ کی کارکردگی انفراسٹرکچر کی حد تک حوصلہ افزا قرار دی جا سکتی ہے۔
صوبہ پنجاب میں سابق وزیر اعلی پرویز الہٰی نے 1122 کی سروس شروع کی تھی، جس کی اس کی پیشرو حکومت نے کافی دیر کے بعد سرپرستی شروع کی اور اب یہ سروس بین الاقوامی سطح کی کارکردگی کے ساتھ چل رہی ہے۔ اسی طرح پرویز الہٰی نے ہی پٹرول پولیس لائے تھے جس سے روڈ ڈکیتیوں میں خاطر خواہ کمی ہوئی تھی۔ بد قسمتی سے شہباز شریف صاحب کی پنجاب حکومت نے اس محکمہ کی کچھ خاص سرپرستی نہ کی۔
3۔ سستے اور فوری انصاف کی فراہمی میں کوئی حکومت کامیاب نہیں ہو سکی۔ کورٹ کچہری کے تصورات آج بھی عوام کو دہلا دیتے ہیں۔
4۔ معیشت کے میدان میں بھی ن لیگ کی کارکردگی نسبتاً بہتر قرار دی جا سکتی ہے۔ معیشت کا ایک پہلو بین الاقوامی اشاریے ہوتے ہیں جب کہ دوسرا پہلو عوام کو مہنگائی اور مارکیٹ مافیاز سے تحفظ دے کر آسان زندگی دینا ہے۔ دونوں پہلوؤں سے ن لیگ کی کارکردگی اندھوں میں کانے راجے کے طور پہ بہتر قرار دی جا سکتی ہے۔ مگر کوئی آئیڈیل صورت حال بہرحال نہیں ہے۔
5۔ خارجہ پالیسی کے رخ پہ ہر حکومت متضاد دعوے کرتی رہتی ہے۔ اگر ہم عوام کی نظر سے دیکھیں تو کشمیر کے مسئلے پہ ہم نہ تو کچھ حاصل کر سکے اور نہ ہی بین الاقوامی قوتوں کی کوئی خاطر خواہ حمایت حاصل کر سکے۔ اسی طرح برآمدات کی خارجہ پالیسی میں بھی ہماری کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں ہے۔
سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ن لیگ نے دس سال حکومت کی ہے مگر سرکار کے دفتر سے انصاف کی فراہمی کا تصور عام نہیں ہو سکا۔ دوسری جانب اس وقت خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف آٹھ سال سے حکومت کر رہی ہے اور 8 سالہ کارکردگی صفر بٹہ صفر ہی ہے۔ احتساب پارٹی کا سب سے بڑا نعرہ تھا اور اس نعرے کے تحت پہلے پنج سالہ دور میں احتساب کا ادارہ بنایا گیا مگر اپنے ہی لوگوں کے احتساب کے ڈر سے ادارہ ختم کر دیا گیا اور کروڑوں روپے کے نقصان کا کسی نے کبھی تذکرہ ہی نہیں کیا۔
صوبہ سندھ میں عرصہ چودہ سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ چودہ سال میں لیڈر قوموں کے مزاج بدل کے رکھ دیا کرتے ہیں لیکن یہاں انصاف کہیں نہیں ملتا۔ میرٹ کا تصور نہیں ہے۔ اس وقت بھی ایک ایم این اے ایک صحافی کے قتل کے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں مگر یہ سامنا بھی مین سٹریم میڈیا کے شور کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔
صوبہ بلوچستان کے بدقسمت عوام کے لیے تو ابھی تاریخ کا سو سال یا ڈیڑھ سو سال کا سفر پڑا ہوا ہے تب جا کر کہیں، کچھ بہتری کے آثار دکھائی دینے کا امکان ہے۔
پاکستانی سیاست کا ایک الگ پہلو اسٹبلشمنٹ کا اثر و رسوخ ہے۔ پاکستان کے تمام وزراء اعظم اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تناؤ کا شکار ہوئے اور اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔ مگر اس سب کے باوجود پاکستانی سیاست دان قربانیاں دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ مختلف الزامات پہ جیلوں میں جاتے ہیں اور پھر کبھی شوق اور کبھی مجبوریوں میں دوسرے پیٹی بھائیوں کے خلاف آلہ کار بن جاتے ہیں۔
مارشل لاؤں کے ساتھ مقابلہ پاکستانی سیاست کی اضافی ذمہ داری بنا دی گئی ہے جس میں کامیابی بھی ناکامی ہے اور ناکامی بھی ناکامی ہے۔ مارشل لاؤں کی پالیسیاں ہمیشہ ملک کو پیچھے کی طرف دھکیل گئی ہیں۔ اور یہ پالیسیاں اندرونی اور بیرونی ہر دو محاذوں پہ ایک جیسی ہوتی ہیں۔
پاکستان کے تمام مسائل کا پہلا اور آخری حل صاف اور شفاف انتخابات اور جمہوریت کا تسلسل ہے۔ اگر یہ تسلسل قائم رہا تو وہ دن دور نہیں جب یہ مملکت ایک روشن ستارہ بن کر عالم میں چمکے گی۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments