جھگڑا اسلام کی سیاسی تشریح کا ہے


پچھلے کچھ عرصے سے لگ رہا تھا کہ وطن عزیز میں دہشت گردوں کی حمایت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن گزشتہ ہفتے یکے بعد دیگرے پانچ دھماکوں نے ثابت کیا کہ حمایت میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ دھماکوں میں ہی کمی ہو گئی تھی۔ جونہی دھماکے دوبارہ شروع ہوئے ہیں، یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ دہشتگرد آج بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنے ضرب عضب سے پہلے تھے۔ ان حمایتیوں کی جانب سے ان کے حق میں دلائل بھی اسی شد و مد سے جاری ہیں اور دہشتگردوں کے حوصلے بھی جواں ہیں۔ یہ ہمارے لئے ضرور حیران کن ہو سکتا ہے لیکن اگر آپ ان حمایتیوں کے نظریے سے دیکھیں تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔

ان کا ہمیشہ سے ماننا ہے کہ یہ دہشتگردی کی حمایت نہیں کر رہے بلکہ اس سب کو صرف اس کے سیاق و سباق کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ ان کاخیال ہے کہ دہشتگردی اپنی اصل میں کچھ نہیں، صرف افغانستان اور عراق پر امریکی قبضوں کا رد عمل ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر خطّے میں امریکی فوجوں نے شہری آبادیوں کو نشانہ نہ بنایا ہوتا اور ان ملکوں کے وسائل پر قبضہ نہ کیا ہوتا تو دہشتگرد اس وقت دنیا میں موجود نہ ہوتے۔ جب آپ انہیں بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس سایہ زدہ درخت کی جڑیں دراصل مذہبی بنیاد پرستی کی اصل نرسریوں سے پھوٹتی ہیں جو انیسویں صدی کے دوران دیوبند اور اس جیسے دوسرے مدرسوں میں لگائے گئے تھے تو یہ الزام نو آبادیاتی نظام پر ڈال دیتے ہیں اور بحث ایک مرتبہ پھر ‘تہذیبوں کے تصادم’ کی طرف چلی جاتی ہے۔

لیکن ہمارا فرض ہے کہ غصّے میں آنے کی بجائے ان بیچاروں کو پیار سے سمجھائیں۔ انہیں تاریخ کا علم نہیں اور اس میں ان کا کوئی قصور بھی نہیں۔ ہمارا سسٹم بنایا ہی اس انداز میں گیا ہے کہ لوگ تحقیق سے کم از کم سو میل کے فاصلے پر رہیں بلکہ ایسے کسی شخص سے بھی سو میل کے فاصلے پر رہیں جو تحقیق کی دعوت دیتا ہو۔ ہمیں ان کو یہ یاد دلاتے رہنا ہوگا کہ مسئلہ صرف انگریز یا امریکا کا نہیں ہے، ہمارے اپنے مذہب کی چند مخصوص تشریحات کا بھی ہے۔ ہاں، نو آبادیاتی نظام یا غیر ملکی تسلّط نے ضرور عمل انگیز کا کام کیا ہوگا مگر دراصل یہ مذہبی تشریحات ہی ہیں جو کسی شخص کو کسی بازار یا مزار میں جا کر پھٹنے اور اپنے ساتھ بیس، پچاس، سو یا اس سے بھی زائد لوگوں کو مار دینے پر قائل کر لیتی ہیں۔

مثال کے طور پر اٹھارویں صدی کے وسط  تک برصغیر پر مغلوں کی ہی حکومت تھی اور خلافت عثمانیہ اپنی پہلی سی شان و شوکت تو کھو چکی تھی لیکن ابھی بھی ایک بڑی اور مضبوط طاقت کے طور پر موجود تھی۔ ہاپسبرگ سلطنت اس وقت بھی روس کی مدد کے بغیر ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی بلکہ 1739 میں بھی عثمانی اکیلے ان دونوں کے خلاف کامیاب رہے تھے۔ اس کے باوجود محمّد ابن عبدالوہاب صاحب ظہور پذیر ہوئے۔

اس سے دو صدیاں پہلے مغل سلطنت ہندوستان میں اپنے عروج پر تھی۔ اکبر اس خطّے پر اپنی عسکری طاقت اور زبردست سیاسی حکمت عملی کی بدولت حکومت کر رہا تھا۔ اس وقت مسئلہ غیر ملکی تسلّط کا نہیں تھا۔ شیخ احمد سرہندی نے اکبر کی مخالفت اس لئے نہیں کی کہ اس کے آباؤ اجداد ترک تھے۔ سرہندی نے اکبر کی مخالفت اس لئے کی کیونکہ ان کے خیال میں اکبر ہندوستان میں حکومت اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق نہیں چلا رہا تھا۔

اس سے تین صدیاں پہلے حافظ ابن تیمیہ گزرے۔ انہوں نے شہرت کا سفر کہاں سے شروع کیا؟ شام میں ایک مسیحی عالم دین اسف النصرانی پر ایک گستاخی کا الزام لگا تھا۔ ابن تیمیہ نے فتویٰ دیا کہ اسے سزائے موت دی جانی چاہیے۔ شام کے گورنر نے نصرانی کو اس فتوے سے بچانے کی خاطر اسے مشورہ دیا کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ نصرانی نے اسلم قبول کر لیا. لیکن ابن تیمیہ نے فتویٰ واپس نہ لیا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ‘گستاخ کی بس ایک سزا، سر تن سے جدا’۔ یہاں بھی وجہ غیر ملکی قبضہ نہیں بلکہ شریعت کی ایک مخصوص تشریح تھی۔

مزید پیچھے چلے جائیں تو امام  احمد بن حنبل ملتے ہیں۔ امام کی ولادت 780 میں ہوئی اور 855 عیسوی میں آپ دنیا سے رخصت ہوئے۔ یہ عباسی خلافت کا عروج تھا۔ کیا امام کو یہ خلافت پسند تھی؟ نہیں۔ کیا آپ کے خیال میں عباسی غیر ملکی حکمران تھے؟ نہیں۔ یہاں بھی مخالفت کی وجہ صرف شریعت کی تشریح ہی تھی۔ امام نے ان خلفا کی بھرپور مخالفت کی اور آپ کو کوئی ملال نہ ہوتا اگر کوئی تیسری قوّت آ کر ایک مزید بہتر اسلامی طرز کی نئی خلافت قائم کر لیتی کیونکہ اگر خلافت شریعت پر عمل پیرا نہیں تو اس خلافت کا کوئی فائدہ نہیں۔

واپس 2017 میں آتے ہیں۔ ہمارے گھر کے آنگن میں دہشتگرد موجود ہیں اور اس ریاست کو گرا کر ایک ایسی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں جو ان کے مطابق الله اور اس کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق سزائیں دے۔ یہ درست ہے کہ انہیں ایک وقت میں ریاست پاکستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کی حمایت حاصل تھی۔ ان دونوں ممالک کی اپنی وجوہات تھیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان ملاؤں کو بدلے میں کچھ نہیں ملا یا انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ کیا کر رہے ہیں اور کس سے مدد لے رہے ہیں۔ انہیں ان تمام باتوں کا اچھی طرح علم تھا۔ مجاہدین کے درمیان ہونے والی کسی بھی گفتگو کا حوالہ اٹھا کر دیکھ لیں، ان کے مطابق امریکا بھی روس ہی کی طرح ایک شیطان تھا۔ افغان جنگ کے دوران بھی خمینی اکثر امریکا کو ‘عظیم طاغوت’ کے لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے۔ 1979 میں جب کچھ شدت پسند وہابیوں نے جهيمان العتيبي اور محمّد بن عبدللہ کی سرکردگی میں خانہ کعبہ پر کچھ دنوں کے لئے قبضہ کیا تھا تو ان کے نزدیک بھی مسئلہ سعودی حکومت کی امریکا کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربتیں ہی تھا۔ لیکن خمینی کا بھی اصل ہدف رضا شاہ تھا کیونکہ ان کے مطابق رضا شاہ پہلوی ایران کو اسلام سے دور لے جا رہے تھے۔ العتيبي کا بھی یہی خیال تھا کہ شاہ فیصل اور ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے ٹی وی پر خواتین نیوز کاسٹرز رکھ لی تھیں اور خواتین کے لئے یونیورسٹی بھی بنا دی تھی۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں کسی دن عورت کو ایک عام انسان کی طرح رہنے کے حقوق ہی نہ دے دئے جائیں۔

لہذا معاملہ ہمیشہ سے مذہب کی تشریح ہی کا ہے۔ دہشتگرد بھی عام سیاسی جماعتوں کی طرح سیاسی باتیں کرتے ہیں۔ وہ اور ان کے حمایتی بار بار نیٹو کی پاکستان سے کزرنے والی سپلائی، افغانستان اور عراق پر امریکی قبضے، اسرائیل اور بھارت کے فلسطین اور کشمیر میں مظالم کا ذکر کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ان تمام ریاستوں پر قبضہ کر کے ان پر شریعت کی اپنی تشریح نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان، بھارت، ایران، افغانستان، عراق، امریکا یا دنیا کے باقی کسی ملک میں کوئی فرق نہیں۔ انہیں اپنی شریعت چاہیے اور ہر جگہ چاہیے۔ 1999 میں افغانستان پر کوئی غیر ملکی قبضہ نہیں تھا۔ کیا اس وقت بھی ہمارے وزیر اعظم صاحب ملا عمر کو خط نہیں لکھ رہے تھے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ کارروائیوں میں ملوث تنظیموں کو پناہ فراہم نہ کریں؟ افغانستان ایک مسلم ملک تھا جس پر طالبان کی حکومت تھی۔ اس پر کوئی غیر ملکی قبضہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود یہ الله کے بندے بدھا کے مجسمے گرا رہے تھے۔

لہذا غیر ملکی تسلّط اصل ایشو نہیں ہے۔ ان لوگوں کا مقصد مدرسوں میں مرنے والے بچوں کا انتقام لینا نہیں اور نہ ہی بنیادی مقصد فوری انصاف کی فراہمی ہے۔ اصل مقصد ریاست پاکستان کو گرا کر اسے غزوہ ہند کا گیریژن بنانا ہے۔ جنگ اسلام کی اس شریعت کی ہے جس کا وہ یہاں اطلاق کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ جنگ ہمیشہ سے یہی رہی ہے۔ رضا اسلان کے الفاظ میں یہ کائناتی جنگ ہے۔ آپ اسے دنیاوی پیرائے میں دیکھ رہے ہیں۔ اس جنگ کو جیتنے کے لئے آخری حد تک جانا ہوگا۔ یہ بچوں کے بدلے لینے کے لئے قتال نہیں کر رہے۔ مدرسوں میں مرنے والے بچوں پر حملے کرنے والے ڈرون یا ایف 16 سہون شریف میں لال شہباز قلندر کے مزار سے نہیں اڑائے جاتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments