مریم نواز کہاں ہیں؟

فاروق عادل - مصنف، کالم نگار


عزیزم علی حسنین میرے عزیز شاگرد اور ایک ممتاز انصافین ہیں۔ ٹیکسلا کے تاریخی کوچہ و بازار میں عمران خان کی دھوم مچاتے پائے جاتے ہیں لیکن ان کی پہنچ دور دور تک ہے۔ تحریک انصاف کے مرکزی قائدین کے ساتھ بھی ان کے راز و نیاز رہتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے روز اپنے جوش خطابت سے دھوم مچا دینے والے علی محمد خان سے تو خاصی قربت ہے۔ اکثر ان کے ساتھ کالے چشمے پہن کر تصویریں بنواتے پائے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے گرد و غبار میں رشتے ناتوں کے احترام اور تعلق واسطے کا بھرم باقی نہیں رہا۔ ابھی چند روز ہوتے ہیں، ایک صاحبزادے نے اپنے رشتے کے ایک نانا کوایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ‘ یو بلڈی بیگرز’ کہا اور سینہ پھلا کر یہ جا وہ جا۔ اس کھلی بے حیائی کے زمانے میں علی حسنین ایک ایسے نوجوان ہیں جن کی تربیت کرنے والے بزرگ قابل داد ہیں کہ اس عہد ستم میں بھی ان کی تربیت کا اثر دکھائی دیتا ہے۔علی حسنین کو ایک بے مروت بھیڑ کا حصہ ہونے باوجود انھیں رشتوں کا احترام آتا ہے۔ اختلاف بھی کرتے ہیں تو اس رکھ رکھاؤ کے ساتھ کہ انھیں دعا دینے کو جی چاہتا ہے۔

یہ ان ہی علی حسنین کا ذکر ہے ۔ کچھ دن ہوتے ہیں کہ ایک ویب سائٹ پر عمران خان کے کارٹون کی اشاعت پر انھیں اعتراض ہوا۔ کہا کہ عمران خان جیسے لیڈر کے کارٹون کی اشاعت مناسب نہیں۔ سوال ہوا کہ کیوں مناسب نہیں؟ اس سوال پر ان کا جواب تھا کہ عمران عالم اسلام کے لیڈر ہیں، ایک ایسے لیڈر کی تضحیک درست نہیں۔ ان کے اس کلمے نے بحث کا دروازہ کھول دیا۔ یوں کھلا کہ اس دیس میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ، مصور و مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کے کارٹون بنتے آئے ہیں، علمائے دین کو بھی کسی نے معاف نہیں کیا۔ مولانا مودودی جیسی شخصیت کے ساتھ یہ سلوک ہوا کہ کسی رقاصہ کے دھڑ پر ان کا چہرہ لگا کر شائع کر دیا گیا۔خیر، کارٹون کے نام پر اس قسم کی بد ذوقی تو گوارا نہیں کی جاسکتی لیکن کسی صورت حال کی وضاحت اور طنزیہ و ظریفانہ تبصرے کے لیے کارٹون ایک دلچسپ اور خوبصورت ذریعہ اظہار ہے۔

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ صحافت میں کارٹون کیوں بنتے ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ سب کے کارٹون بنتے ہیں تو بنا کریں، کسی ایسی شخصیت کا کارٹون نہ بنے جسے ہم پسند کرتے ہیں۔ یہ گویا ایک طرح سے امتیازی انداز فکر ہے۔ جن لوگوں کو آپ پسند نہ کریں انھیں اسٹوجز قرار دیں، چور اور ڈاکو کہیں۔ ان کی زندگی اور موت کا مذاق نہ بنا لیں بلکہ ان کی کھلے عام تضحیک بھی کریں اور اگر کسی جی دار کا جی چاہے تو وہ بھرے جلسے میں اعلان کر ڈالے کہ اس کا جی تو یہ چاہتا کہ وہ اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کر تمام دشمنوں کے پرخچے اڑا دے۔ ایک طرف اس قدر شدت، تلخی بلکہ جارحیت اور دوسری طرف یہ حساسیت کہ ان کی کسی پسندیدہ شخصیت کے بارے میں آپ کو زبان کھولنے کی اجازت بھی نہیں۔ کسی سیاسی معاشرے میں ایسے رویے کس طرح پیدا ہو جاتے ہیں؟ ایک امریکی دانش ور کرٹ لینگ نے نہ صرف اس کا راز کھولا ہے بلکہ کسی معاشرے پر مرتب ہونے والے اس کے مضر اثرات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

کرٹ لینگ اور ان کی اہلیہ گلیڈی اینگل لینگ کا تحقیقی سفر شروع تو اس سوال پر ہوا تھا کہ کبھی کبھی ایسا کیوں ہوتا ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد انتخابی عمل سے بے گانہ ہو جاتی ہے؟ یہ سوال انھیں ایک نئی دنیا میں لے گیا ۔ معلوم ہوا کہ سیاسی عمل، خاص طور پر انتخابات کے قریب یا کسی سیاسی بحران کے دوران کوئی گروہ اپنی جارحیت سے ایک خاص کیفیت پیدا کر دے تو اس کے نتیجے میں عوام کی غالب اکثریت سیاسی عمل سے بیزار ہو جاتی ہے۔ یوں لوگ انتخابی عمل سے بھی دوری اختیار کر لیتے ہیں۔ کسی گروہ کی جارحیت سے پیدا ہونے والی خاص کیفیت کیا ہے؟ کرٹ لینگ بتاتے ہیں کہ ایک ایسا جبر جس کے نتیجے میں کوئی درست بات بھی آپ نہ کہہ سکیں۔ کرٹ لینگ نے اس سلسلے میں اپنے عہد سے بڑی دلچسپ مثالیں پیش کی ہیں۔ آسانی کے لیے ہم اسی قسم کی مثالیں اپنے عہد سے بھی تلاش کر سکتے ہیں۔

چند برس ہوتے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی نے کراچی تعلق رکھنے والے ایک راہ نما شاہی سید کو سینیٹ کا رکن منتخب کرا دیا۔ کراچی میں یہ زمانہ الطاف حسین کی قیادت میں کام کرنے والی ایم کیو ایم کا تھا، شاہی سید جس کے نزدیک ناپسندیدہ ترین شخصیت تھے۔ اسفندیار ولی ایک بار کراچی آئے تو بعض صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے ایم کیو ایم کی ایک ناپسندیدہ شخصیت کو سینیٹر کیسے بنا دیا؟ کراچی میں اسی زمانے اور اس سے متصل پہلے کی چند دہائیوں میں اس قسم کی سیکڑوں مثالیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔کچھ ایسا ہی معاملہ موجودہ دور میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ توشہ خانہ سے حاصل کر کے فروخت کیے جانے والے تحائف کا معاملہ ان دنوں زیر بحث ہے۔ یہی عمران خان اور ان کے ساتھی بالکل قانونی طریقے سے خریدے گئے تحائف پر اعتراض کیا کرتے تھے۔ جن لوگوں نے یہ تحائف خریدے تھے، ان میں سے کسی نے بھی یہ تحائف بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت نہیں کیے تھے۔ اس بار ایسی ان ہونی بھی ہو گزری ہے لیکن گردن زدنی وہی لوگ ہیں جنھیں عمران خان اور ان کے پیرو کار پسند نہیں کرتے۔ سبب کیا ہے؟ سبب وہی جبر ہے جس کی نشان دہی کرٹ لینگ نے کی تھی یعنی جارحانہ پروپیگنڈے کے جبر کی فضا بنا دینا۔ پاکستان میں اس وقت جبر کی یہی فضا پائی جاتی ہے۔

کرٹ لینگ کی اس تھیوری کی روشنی میں اس قسم کے جبر کی فضا کے کئی قسم کے نقصانات کا باعث بنتی ہے۔ سردست دو نقصانات کا ذکر ضروری ہے۔ اس قسم کی فضا کاایک نقصان یہ ہو گا کہ متحرک سیاسی کارکنوں کو چھوڑ کر سیاسی تقسیم سے لاتعلق رہنے والے عوام سیاسی عمل سے بیزار ہو جائیں گے۔ ان کی یہ بیزاری سیاسی عمل کے وزن یا مقبولیت میں کمی لائے گی۔ اس کا دوسرا بدترین نقصان یہ ہو گا کہ رائے عامہ تصویر کے دوسرے رخ سے محروم ہو جائے گی۔ عوام کبھی جان ہی نہ پائیں گے کہ جبر کے ذریعے مسلط کیے جانے والا بیانیہ اپنی جگہ لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔اس قسم کی صورت حال میں ضروری ہو جاتا ہے کہ معاشرے میں متحرک دیگر سیاسی قوتیں عوام کے سامنے ایک متبادل بیانیہ پیش کریں۔ یہ تجویز تو نہیں کیا جاتا کہ متبادل بیانیہ پیش کرنے کے لیے بھی اسی قسم کی جارحیت اور بدلحاظی روا رکھی جائے جسے پہلے فریق نے اختیار لیکن یہ بہرحال ضروری ہے کہ معاشرے کو یک رخے موقف کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے تصویر کا دوسرا پوری قوت کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان نے جو جارحانہ مہم جوئی شروع کی ہے، وہ ایک اعتبار سے ان کا حق ہے لیکن یہ جو کچھ بھی ہے، یک طرفہ ہے۔ عوام کو پوراسچ بتانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورت حال میں یہ ضرورت مریم نواز ہی پوری کر سکتی ہیں۔ اب انھیں زیادہ دیر تک سیاسی اعتکاف میں نہیں رہنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments