حکومت کا پریشان کُن آغاز


تحرير: مليحہ لودهی
ترجمہ: ياسر قاضی
اس وقت عمران خان کا مقصد پارلیمانی اور سیاسی نظام کو متاثر کرنا اور حکومت کو قبل از وقت انتخابات پر مجبور کرنا ہے۔ سڑکوں پر نکلنے اور عوامی ریلیاں نکالنے کی ان کی غیر پارلیمانی مہم حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے، جب تک کہ وہ خود باز نہ آئیں، یا اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہ کرے۔ وہ جن بڑی اور پرجوش ریلیوں سے خطاب کر رہے ہیں، اس نے انہیں اس راستے پر چلتے رہنے کا حوصلہ مل رہا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے گزشتہ ہفتے ہونے والے اجلاس نے عمران خان کے اس دعوے کو واضح طور پر مسترد کر دیا، کہ انہیں ہٹانے میں کوئی غیر ملکی سازش کارفرما تھی۔ اس اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلاميے میں کہا گیا ہے: “این ایس سی (قومی سلامتی کمیٹی)، رابطے کے مواد (کيبل/سائفر)، موصول ہونے والے جائزوں اور سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے پیش کیے گئے نتائج کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی۔”
اس اعلاميے سے اس تنازع کو ختم ہو جانا چاہیے، لیکن عمران خان کے اس بیانیے سے باز آنے کا امکان نظر نہیں آتا۔ وہ ان حامیوں کے درمیان جذبات کو بھڑکانے کے لیے “ٹرمپ” کی حکمتِ عملی کی پیروی کر رہے ہيں، جو حامی ان کے اس دعوے کو ماننے اور اس پر آنکهيں بند کر کے يقين کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ وہ مذہب کو قوم پرستی کے ساتھ جوڑنے والی تقاریر کے ذریعے اپنے ہی آشيانے کو آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہيں۔ انہوں نے اور ان کی پارٹی نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنی سیاسی بیان بازی اور طرزِ عمل، دونوں میں بے حیائی کو مرکز بنانے کا اہتمام کيا ہے، جس سے سیاست میں زہر داخل ہو گیا ہے۔
پنجاب اسمبلی میں پیدا ہونے والی تباہی، پی ٹی آئی کے قانون سازوں کی جانب سے نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹ کو زبردستی روکنے میں بدتہذیبی اور بدتمیزی کے سب سے حیران کن مظاہروں میں سے ایک ہے۔ نہ صرف ڈپٹی سپیکر پر جسمانی تشدّد کیا گیا، تشدد کے مناظر ٹیلی ویژن پر براہ راست دیکھے گئے، بلکہ بعد میں جھوٹے دعوے کیے گئے کہ تشدّد پر کس نے اُکسایا۔ اس کارروائی میں دنوں کی تاخیر ہوئی اور ووٹنگ لاہور ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد ہی ہوئی۔
اس کے بعد پی ٹی آئی کے گورنر نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کو غلط قرار دے کر حلف لینے سے انکار کر دیا۔ اس کے نتیجے میں صوبہ تین ہفتوں سے حکومت کے بغیر چل رہا ہے اور آخرکار لاہور ہائی کورٹ نے صدر سے حلف لینے کے لیے کسی اور کو نامزد کرنے کو کہا۔
صرف یہی وجہ نہیں تھی کہ شہباز شریف حکومت کا آغاز غیر یقینی سے ہوا۔ مخلوط کابینہ بنانے اور محکموں کی تقسيم میں توقع سے زیادہ وقت لگا، جس سے مختلف جماعتوں کے درمیان اتفاق میں مشکلات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اس تقسيم پر کچھ ارکان ناراض اور کچھ اُنہيں ملے ہوئے محکموں پر ناخوش نظر آئے۔ بہرحال، قومی اتحاد کی حکومت پنجاب اور سندھ کے نمائندوں کے درمیان اپنی ساخت اور اتحاد کو دیکھتے ہوئے، متفقہ طرزِ حکمرانی فراہم کرنے اور وفاق کو مضبوط کرنے کا وعدہ تو کر رہی ہے، لیکن ابهی تک کے پيدا ہونے والے اختلافات سے یہ بھی اندازہ کيا جا سکتا ہے کہ حکومتی پالیسیوں پر اتفاق رائے پیدا کرنا کس قدر مشکل ہوگا۔ تاہم، اگر يہ اتحاد قومی مقاصد پر مل کر کام کر سکے گا تو یہ ایک نئی اور صحتمند سیاسی روایت قائم کرنے ميں کامياب ضرور ہوگا۔
حکومت کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ اپنی ساکھ قائم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے۔ اس کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ حکومت کو ملک کے اصلاحاتی اہداف و مقاصد کو واضح طور پر بیان کرنا چاہيئے، ورنہ تحريکِ عدم اعتماد کو محض ایک ايسے اقدام کے طور پر دیکھا جائے گا، جس کا واحد مقصد عمران خان کو ہٹانا تھا۔ موجودہ حکومت کی مختصر مدّت کی وجہ سے، یہ صرف ضروری معاملات سے نمٹ سکتی ہے، نہ کہ اہم ترين اور دُور رس منصوبابندی کے متقاضی مسائل سے۔ لیکن اس کے باوجود یہ حکومت ایک ايسا روڈ میپ پیش کر سکتی ہے، جن اہداف پر کام چاہے يہ حکومت مکمّل ناں بهی کر سکے، مگر پهر آنے والی سرکار اس کو مکمّل کر لے۔ اس طرح موجودہ حکومت خود کو پچھلی حکومت سے ممتاز کر سکتی ہے اور قابل حکمرانی فراہم کر کے اس کے بارے میں شکوک و شبہات کو بھی دُور کر سکتی ہے۔
اگرچہ موجودہ کابینہ ایک متنوّع مگر اختلافات سے بهرپور مجموعہ اراکين ہے، جس ميں بهانت بهانت کی نمائندگی ہے، لیکن اس ميں موجود کئی وزراء اپنے اپنے شعبے ميں تجربے اور قابليت کی ساکھ رکهتے ہیں۔ وزیرِاعظم خود ایک طویل عرصے سے ایک ‘متحرک منتظم’ کے طور پر جانے جاتے ہیں، جو جانتے ہیں کہ کام کیسے کرنا ہے اور بیوروکریسی کی مدد کو یقینی بناتے ہوئے، کسی بهی کام کی تکميل کے ليے تیزی سے آگے کیسے بڑھنا ہے۔
شہباز شریف حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی توانائیاں سیاسی مخالفین پر وار کرنے میں صرف کرنے میں پی ٹی آئی کی نقالی کرنے سے گریز کرے۔ عمران خان کے الزامات اور چالوں کا جواب دینا ایک الگ چیز ہے، مگر اس کے بارے میں جنُون، صرف حکومت کے کام سے توجّہ ہی ہٹا سکتا ہے۔ حکومتی رہنما بارہا يہ کہہ بهی چکے ہیں کہ کوئی سیاسی انتقام یا مخالفین پر ظلم نہیں کيا جائے گا، لیکن انہیں اس دعوے پر عمل بهی کرنا ہوگا۔ گوکہ عمران خان کو جن جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالنا حکومت کے ليے پرکشش بهی ہوگا، تو نتیجہ خیز بهی۔ اب، ملک میں حریفوں کے خلاف سیاسی مقدمات بنانے کی نامعقول روایت کو ختم کرنے کے لیے مزاحمت کی جانی چاہیے۔
معیشت، حکومت کے لیے يقيناََ ايک بہت بڑا مسئلہ ہے اور آگے بهی ہوگی۔ صورتحال سنگین ہے، جس نے وزيرِاعظم کو اوّلین ترجیح کے طور پر آئی ایم ایف پروگرام کو تیزی سے دوبارہ شروع کرنے پر مجبور کیا ہے۔ نئے تعیّنات ہونے والے وزیرِ خزانہ، مفتاح اسمٰعيل پہلے ہی واشنگٹن میں ہیں اور يہ امید نظر آرہی ہے کہ جلد ہی آئی ایم ایف معاہدے کو حتمی شکل دی جائے گی۔ یہ ضروری ہے لیکن کافی نہیں۔
بلاشبہ، حکومت کا اوّلين ہدف نازک معاشی صورتحال کو مستحکم کرنا، اخراجات کو روکنا اور ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے اور قرض کی ادائیگیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے فنڈز کو محفوظ بنانا ہے۔ سب سے بڑا چیلنج بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کم کرنا اور مہنگائی کے مزید قرضوں کا سہارا نہ لینا ہے۔ شہباز شریف کے پاس اپنے ابتدائی دنوں میں یہ ثابت کرنے کا ایک موقع ہے کہ وہ ایسے اقدامات کے ذریعے قوم کو لگے ان زخموں کو بهرنے کے ليے مرہم لگانے سے کچھ زیادہ کوششیں کر سکیں، جو گهائو ماضی کی حکومت نے ديے ہيں۔ ان اقدامات میں سیلز ٹیکس کے پیچیدہ ڈھانچے کو ہم آہنگ کرنا، درآمدی ڈیوٹی کا یکساں نظام متعارف کرانا اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کے لیے سبسڈی میں بهی کٹوتی ہے۔
مالی استحکام کے قيام کے لیے اسٹرکچرل اصلاحات کے اعلان سے شہباز شریف کا مطلب کاروبار ہے، اور وہ اس حوالے سے ملکی مفاد میں سخت فیصلے لے سکتے ہیں۔ اگر وہ اپنے اتحادی شراکت داروں کو ایک ایسے اصلاحاتی پیکج پر راضی کروا سکيں، جو پيکيج اقتدار میں حکومت کے مقصد کی وضاحت کرنے میں مدد دے۔
شہباز شریف پہلے ہی کابینہ کو اپنے اوّلين اجلاس میں بتا چکے ہیں کہ ہماری ترجیح، سیاست نہیں بلکہ معاشی استحکام ہونی چاہیے اور ملک کے توانائی کے بحران، بڑھتے ہوئے قرضوں اور دیگر معاشی مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
ايک، انتہائی دو مکمل مخالف گروہوں میں منقسم ملک کو اس وقت گوناگون چیلنجز کا سامنے ہے۔ جمہوری نظام خود سابق حکمران جماعت کے تخریبی ہتھکنڈوں کی وجہ سے خطرے میں پڑ گیا ہے، جو ابهی تک اقتدار سے اپنی بے دخلی کو قبول کرنے کو تیار ہی نہیں۔ عمران خان نے حکومت کے خلاف اپنی مہم میں اسلام آباد کی جانب مارچ کی دھمکی بھی دی ہے۔ اس بھرے ہوئے سیاسی ماحول میں حکومت کرنے کی کوشش کرنے والے اتحاد کے لیے بڑی رکاوٹوں کو دُور کرنا ايک اہم چيلينج ہے۔ لیکن تمام سیاسی کھلاڑیوں کو یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ اگر معیشت ڈگمگاتی ہے، تو سب کچھ بیکار ہو جائے گا۔
(بشکريہ: روزنامہ “ڈان”)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments