دعا زہرا کو دارالامان بھیجنے کی استدعا مسترد؛ ’لڑکی جہاں جانا چاہے جا سکتی ہے‘


کراچی سے مبینہ طور پر لاپتا ہونے والی دعا زہرا کو لاہور کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے پولیس کی جانب سے لڑکی کو دارالامان بھیجنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لڑکی جہاں جانا چاہے جاسکتی ہے۔

پولیس نے دعا زہرا اور ظہیر کو اوکاڑہ سے تلاش کیا اورمنگل کو لاہور کی مقامی عدالت میں پیش کیا جہاں دعا زہرا نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا جس کے بعد عدالت نے دعا کو جانے کی اجازت دے دی۔

گزشتہ روز دعا زہرا کا مبینہ نکاح نامہ سامنے آیا تھا جس کے بعد ان کے والدین کا کہنا تھا کہ انہیں بیٹی اپنے سامنے چاہیے۔

پولیس کے رات بھر کے چھاپوں اور تلاش کے بعد دعا زہرا اوکاڑہ سے سامنے آئیں۔ دعا زہرا، ظہیر احمد کے ہمراہ اس کے چچا کے گھر میں رہائش پذیر تھیں۔

میڈیا پر آنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک گھر میں پولیس موجود ہے جہاں ایک کمرے میں دعا ، ظہیر کے ساتھ داخل ہوتی ہے۔ جس کے بعد دعا اور ظہیر کو اوکاڑہ کے ڈویژنل پولیس افسر (ڈی پی او) کے آفس لایا گیا جہاں سے اس جوڑے کو لاہور منتقل کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہل کار، دعا سے ان کا پورا نام اور شہر کا نام پوچھتا ہے، جس پر وہ اپنے نام اور شہر کی تصدیق کرتی ہیں۔

دعا زہرا کی سوشل میڈیا پر دو ویڈیوز سامنے آئیں ہیں جن میں وہ ظہیر کے ہمراہ کار کی پچھلی نشست پر بیٹھی ہیں اور ویڈیو پیغام میں کہہ رہی ہیں کہ ان کے والدین کی جانب سے بتائی جانے والی عمر درست نہیں ہے، وہ بالغ ہیں۔

ویڈیو میں وہ مزید کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے ظہیر سے شادی کی ہے۔

دوسرے بیان میں وہ کہتی ہیں کہ ان کے گھر والے زبردستی ان کی شادی کسی اور سے کرانا چاہتے تھے اور ان پر تشدد کیا جاتا تھا۔ وہ اپنی مرضی سے اپنے گھر سے آئی ہیں۔ کسی نے اغوا نہیں کیا، نہ ہی وہ اپنے گھر سے کوئی قیمتی سامان لے کر آئی ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے ظہیر احمد سے شادی کی ہےاور ان پر کسی کی کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔

وہ اپیل کرتی ہیں کہ انہیں تنگ نہ کیا جائے، وہ اپنے گھر میں اپنے شوہر کے ہمراہ خوش ہیں۔

دعا کی عمر 14 برس ہے؛ والدین کا دعویٰ

ویڈیوز کے منظرِ عام پر آنے کے بعد اور دعا زہرا کی لاہور منتقلی کے دوران ان کے والد سید مہدی کاظمی نے اپنی اہلیہ صائمہ کاظمی کے ہمراہ پریس کانفرنس کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی سے یہ سب دباؤ ڈال کر کہلوایا گیا ہے۔

مہدی کاظمی نے پریس کانفرنس میں صحافیوں کو دعا زہرا کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ، پاسپورٹ اور اپنا میرج سرٹیفکیٹ دکھاتے ہوئے کہا کہ 27 اپریل کو ان کی بیٹی دعا زہرا 14 برس کی ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی شادی سات مئی 2005 کو ہوئی تو ان کی بیٹی کیسے 18 سال کی ہوسکتی ہے۔مہدی کاظمی نے الزام لگایا کہ ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا ہے۔

انہوں نے بے نظیر بھٹو کی صاحب زادی بختاور بھٹو زرداری کی سوشل میڈیا پوسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کم عمر بچی کو لے جانا اغوا ہے۔

مہدی کاظمی نے اپنی بیٹی کے اس بیان کو رد کیا کہ 18 اپریل کو ان کے والد اور زین العابدین نامی شخص گھر میں گھسے اور دھمکیاں دیں۔ ان کے بقول اگر انہیں گھر کا پتا ہوتا تو وہ پولیس کو اس گھر کا پتا دے دیتے۔ وہ جے ڈی سی کے سربراہ ظفر عباس کے پاس مدد کے لیے 19 اپریل کی صبح پہنچے۔ اگر وہ غلط ہوتے تو وہ میڈیا سے مدد کیوں مانگتے۔

’بیٹی کو زبردستی لے جایا گیا ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی کو زبردستی لے جایا گیا ہے اور اس سے اپنی مرضی کا بیان دلوایا جا رہا ہے۔

انہوں نے اپیل کی کہ دعا زہرا کو کراچی لایا جائے اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کیا جائے اور وہیں تفتیش کی جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ نہ تو ظہیر احمد کو جانتے ہیں اور نہ ہی ان کی اس سے کبھی ملاقات ہوئی ہے۔ اس لیے ظہیر احمد کے خلاف جو بھی کارروائی ہونی ہے وہ قانون کرے۔

انہوں نے وزیرِ اعلیٰ سندھ اور آئی جی سندھ سے اپیل کی کہ ان کی مہیا کردہ دستاویزات کے مطابق ان کی بیٹی کمسن ہے۔انہوں نے بیٹی کو واپس لانے اور تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا۔

’گھر چھوڑ کر جانے والی دونوں بچیاں تنہائی کا شکار تھیں‘

دعا زہرا کے معاملے پر آغا خان اسپتال کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر کاؤنسلنگ ڈاکٹر ہادیہ پاشا کے مطابق دورِ حاضر میں بچوں کو اب وہ تمام سہولیات اور ایکسپوژر حاصل ہے جو گزشتہ نسل کو میسر نہیں تھا۔ بلوغت کی عمر کو پہنچنے والے بچو ں کے اندر کوئی بھی رسک لینے کا حوصلہ اور ہمت ایک عام آدمی کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عمر میں بچے مستقبل میں پیش آنے والے نتائج کی پرواہ کیےبغیر فیصلہ کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر ہادیہ کے مطابق ٹین ایج میں، جس میں بچہ ذہنی طور پر پختہ نہیں ہوتا، ہارمونز تبدیل ہو رہے ہوتے ہیں، تو بچے زیادہ جذباتی ہوتے ہیں۔ بظاہر دعا زہرا اور نمرہ کاظمی کے کیس میں جو مماثلت دکھائی دے رہی ہے وہ یہ ہے کہ دونوں بچیاں تنہائی کا شکار تھیں۔ دعا زہرا بہت عرصے سے اسکول نہیں جا رہی تھیں اور گھر پر ہی تھیں جب کہ نمرہ کے والدین جب روزگار کے سبب گھر سے چلے جاتے تھے تو نمرہ اکیلی ہوتی تھیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسی صورت میں یہ بہت اہم ہے کہ ان بچیوں کی سرگرمیاں کیا تھی؟ کیوں کہ عموماََ اسی عمر کے بچے اپنے ہم عمر بچوں سے مل کر، بات کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں، لیکن جب صورتِ حال اس کے بر عکس ہو تو یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ ایسے بچوں کا خوشی حاصل کرنے کا ذریعہ کیا تھا۔ ان کے نزدیک خوشی کا پہلو کیا تھا اور کتنا تھا؟ جس کو پانے کے لیے وہ کون سے راستے اختیار کرتی تھیں۔

ایسے اقدام کے ذہن پر دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں

انہوں نے کہا کہ دعا اسکول نہیں جا رہی تھیں، اس عمر میں ان کا اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ ملنا جلنا، تعلق قائم کرنا اور ان کے ذریعے اپنی شخصیت کو جانچنا ایک فطری عمل ہوسکتا تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ تب ہی نتائج کی پرواہ کیے بغیر کم عمری میں ایک ایسا قدم اٹھایا گیا جس کا اثر بہت عرصے تک ان کے ذہن پر نقش رہ سکتا ہے۔

ہادیہ کے مطابق ایسے واقعات کے پیچھے اہم محرکات میں گھر اور خاندان کا ماحول اور والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ رویہ بھی ہے۔ صرف اچھا کھلانے پلانے یا ضروریات کو پورا کرنا کافی نہیں ہوتا۔ بچے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں، خواہشات، ضروریات کو سمجھنا اور ان پر بات کرنا بھی بہت اہم ہے۔

دعا زہرا کے معاملے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات میں جہاں گھرانوں اور والدین کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوتاہی برتنے کی بات سامنے آتی ہے، وہی یہ دیکھنا بھی ضرروی ہے کہ آج کے بچے کو میسر سہولیات، سوشل میڈیا اور مختلف ڈیوائسز بھی اسے وقت سے پہلے بہت کچھ بتا رہے ہیں۔ آج کمسن بچے وہ سب کچھ کر رہے ہیں جن کا تصور نوجوانی میں کیا جاتا تھا۔ یہی کچھ ان کیسز میں بھی سامنا آیا کہ الیکٹرانک ڈیوائسز کو استعمال کرتے ہوئے ایک تعلق بنایا گیا، اپنے طور پر دعا زہرا نے شاید یہ سوچا ہو کہ اب وہ نکل چکی ہیں، انہیں تلاش کرنا ممکن نہ ہوگا۔ وہ اپنی مرضی سے گمنامی کی زندگی گزارنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ جب کہ ان کی تلاش بھی اسی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر عمل میں آئی۔ دعا نے یقیناََ یہ نہیں سوچا ہو گا کہ وہ جو قدم اٹھا رہی ہیں اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں۔

بچوں کو ورغلانا زیادہ آسان ہے

دعا کے والدین کے مطابق ان کی بیٹی کو ورغلایا گیا ہے اور اسے دباؤ میں لا کر ایسا بیان دلوایا گیا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا کسی بھی کمسن بچے کو با آسانی بہکایا یا ورغلایا جاسکتا ہے؟ ہادیہ پاشا نے جواب دیا کہ ایسا بالکل ممکن ہے کیوں کہ یہ عمر ایسی ہوتی ہے جس میں کوئی بھی بچے کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہو سکتا ہے کہ وہی اس کا خیر خواہ ہے اور وہ اس کے لیے کتنا اہم ہے۔ ایسی صورت میں جب گھر کا ماحول ایسا ہو جہاں بچے کو یہ محسوس ہو کہ اسے نہیں سمجھا جا رہا یا اس کی خواہشات کو رد کیا جا رہا ہے، ہر کام سے روکا جا رہا ہے۔ وہاں کسی بھی اجنبی کی جانب سے ایسے بچوں کے ذہن کو متاثر کرنا آسان ہوتا ہے۔

ان کے مطابق وہ اسی کو اپنا خیر خواہ سمجھنے لگتے ہیں اور اس کی بات پر عمل کرنے پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔ اس لیے والدین کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ان کا تعلق اپنے بچوں کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے تا کہ انہیں یہ علم ہو سکے کہ ان کے بچے میں آنے والی تبدیلیاں کیا اشارہ دے رہی ہیں اور وہ اسے سمجھتے ہوئے کس طرح سے بچے سے ڈیل کرسکتے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments