اپنے ہی ملک میں زباں نابلد


شاید آٹھ برس پہلے ماسکو کے ایک پاکستانی ریستوران میں پاکستان کی کوئی قومی تقریب تھی جس میں ہندی رقص کرنے والی روسی لڑکیوں کا ایک طائفہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی خاطر بلایا گیا تھا۔ ان رقاص لڑکیوں کے ساتھ ایک طرار نوجوان خاصا شیرو شکر تھا جس کا نام بعد میں راشد معلوم ہوا تھا اور یہ کہ وہ طب کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔

جب میں 2019 میں روس سے آ کر اپنی آپ بیتی کے پہلے حصے ”پریشاں سا پریشاں“ کو کتاب کی شکل میں دیکھنے کے شوق میں، اس کتاب کے طابع زاہد کاظمی کے ہاں ہری پور میں مقیم ہوا تھا ویسے ہی جیسے اس کے دوسرے حصے ”مثل برگ آوارہ“ کی اشاعت کی آس میں گزشتہ نصف ماہ سے راولپنڈی میں اپنے مہمان نواز قدیمی دوست لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ فرقان شیخ کے سر پہ سوار ہوں کیونکہ طابع زاہد کاظمی اپنے دیگر معاملات میں مصروف، اسلام آباد میں ہیں، تو تب مجھے راشد امین نام کے اس نوجوان نے فیس بک پہ مدعو کیا تھا کہ دریا کے اس پار صوابی ہے، جہاں سے آگے بونیر ہے، آپ وہاں تشریف لائیں اور مجھے خدمت کا موقع دیں۔

بات آئی گئی ہو گئی، میں نے دور افتادہ سفر کا کشٹ کیوں اٹھانا تھا البتہ راشد امین سے سوشل میڈیا کے توسط سے تعلق استوار ہوتا چلا گیا۔ تب اسے پی ایم ڈی سی میں بطور فارن گریجویٹ کے رجسٹریشن درکار تھی مگر وہ امتحان میں پاس ہوتے ہوتے رہ گیا، یوں میرا اسے دیا رابطہ اس کے کام نہ آ سکا تھا۔

پھر معلوم ہوا کہ وہ فارن میڈیکل گریجویٹس کو ان کا حق دلانے میں سرگرم ہو گیا ہے اور یہ بھی کہ وہ عمران خان اور پی ٹی آئی سے بے حد متاثر بلکہ ان کے ساتھ سرگرم ہے لیکن وہ پی ٹی آئی سے وابستہ نوجوانوں کی عام روش سے ہٹ کر اختلاف سننے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے اور تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا موقف شد و مد سے سامنے رکھنے کی صلاحیت کا بھی حامل ہے۔

تحریک عدم اعتماد کے اس سارے قضیہ کے بعد برطرف ہو کر عمران خان نے جو پہلا جلسہ پشاور میں کیا راشد امین اس میں شرکت کے لیے آیا ہوا تھا۔ اس نے ایک بار پھر مجھے اپنے ہاں چلنے کی دعوت دی اور میں مان گیا۔

جلسہ کے دو تین روز بعد وہ راولپنڈی پہنچا، اگلے روز ٹکٹ وغیرہ کا بندوبست کر کے مجھے بلایا۔ کرنل فرقان مجھے منڈی موڑ کے پرہجوم اڈے پہ چھوڑ آئے جہاں راشد نے مجھے موصول کیا اور ہم دونوں ہائی ایس ویگن میں ڈرائیور کی عقبی نشست پر بیٹھ گئے جہاں پاؤں اوپر رکھنے کی گنجائش تھی۔

میلے پہ جانے کا شوق میلے سے لوٹنے کی کٹھنائی پہ فائق ہوتا ہے۔ عمران خان اور مستقبل سے متعلق بات چیت کرنے میں وقفے ڈال کر راشد گائیڈ کا کردار بھی نبھاتا رہا۔ چڑھائیاں چڑھتے ہوئے اس نے بتایا کہ انگریز یہاں سے آگے نہیں جا سکا تھا اور اس نے ہمارے علاقے کے جنگجووں کی مزاحمت کے آگے ہار مان لی تھی۔

میں بولا، انگریز بھی دیوانے تھے انہیں ان دور افتادہ پہاڑوں میں آنے کی کیا پڑی تھی۔ راشد کا خیال تھا، کہ دشمن پر بھاری پڑنے کی خاطر ان ادوار میں بلندیوں پہ قبضہ کرنا ضروری ہوا کرتا تھا۔ انگریز کا دشمن کون تھا؟ غالباً سلطنت روسیا جو نہ کبھی اس جانب آنی تھی اور نہ ہی آئی۔

خیر اس دوران ہم سواڑی بازار پہنچ گئے تھے۔ یہ نام راشد نے بتایا تھا اگرچہ دکانوں کے بورڈوں پر سواڑی ہی لکھا تھا۔ ہمیں وہاں سے آگے جانا تھا۔ میں نے پوچھا کہ بونیر کب آئے گا، تو راشد نے بتایا کہ اس نام کا کوئی شہر نہیں ہے۔ بونیر ضلع کا نام ہے اور یہ کہ سواڑی جو تجارتی مرکز ہے، جہاں وسیع و عریض بونیر یونیورسٹی، اسی طرح کا وسیع و عریض لڑکوں کا ڈگری کالج جو پاکستان میں شامل ہونے سے پہلے والی سوات نے تعمیر کرایا تھا کیونکہ تب بونیر اور شانگلہ نام کے علاقے ریاست سوات کا ہی حصہ تھے، کسی انتظامی حیثیت کا حامل نہیں ہے بس شہر ہے۔ ضلعی صدر مقام کچھ اگے ڈگر نام کا شہر ہے جس کی تین تحصیلیں ہیں، گاگرا، مندنڑ اور گدیزی۔ یہ تو ایسے ہی تھا جیسے نیویارک سٹیٹ کا انتظامی مرکز نیویارک سٹی کی بجائے خاصا ہٹ کر ایک چھوٹا شہر البنی ہے۔

سواڑی بازار میں راشد کا دوست اسحاق اپنی کار میں ہمیں لینے کے لیے پہنچا ہوا تھا۔ آرام دہ ایرکنڈیشنڈ کار میں ہم زیر تعمیر گرد آلود سڑک پر چلتے ہوئے، سڑک کے ایک جانب بنی خوبصورت مسجد کے سامنے رکے۔ چونکہ راستے میں میں نے پوچھا تھا کہ کوئی چشمہ بھی ہے راستے میں تو راشد مجھے چشمہ دکھانے مسجد کے نچلے حصہ میں لے گیا۔ چشمہ تو دکھائی نہیں دیا، سیمنٹ کی نالیاں بنی ہوئی تھیں جن میں صاف پانی بہہ رہا تھا۔ اور اس میں ہاتھ ڈال کے لوگ وضو کر رہے تھے۔

میں مسجد کی عمارت کے نچلے حصے کی نالیاں دیکھنے اگے بڑھا تو دیوار کے نزدیک آخری نالی میں اتر کے ایک آدمی ازار بند کھول نالی میں بیٹھ گیا۔ میں نے راشد سے کہا دیکھو وہ کیا کر رہا ہے۔ کہنے لگا ہاتھ منہ دھو رہا ہو گا۔ ارے بھائی ہاتھ منہ دھونے کو نالی میں اترنے کی کیا ضرورت تھی وہ دراصل استنجا کر رہا ہے یعنی تم اسی پانی سے وضو کرو گے۔ راشد نے تیقن سے کہا، ”نہیں سر نہیں وہ پانی کسی اور طرف جاتا ہے۔ ارے بھائی باہر کی نالیوں میں بھی لوگ وضو کرتے ہوئے کلی کا پانی نالی سے باہر نہیں بلکہ نالی کے اندر ڈال رہے ہیں۔ یہ کہہ کے میں زینہ چڑھ کے مسجد میں گیا۔ شکر ہے میرا پہلے سے وضو تھا چنانچہ میں نے ظہر کے دو فرض قصر پڑھ لیے۔ اسحاق اور راشد بھی نماز پڑھ کے نکلے اور ہم روانہ ہوئے۔ راشد نے بتایا کہ اسحاق اے این پی سے ہے اور زرگر ہے۔ کیا، روا داری تھی اے این پی اور پی ٹی آئی کے دو فعال کارکن آپس میں گہرے دوست۔

راشد نے بتایا کہ اس نے استنجا کرنے والے شخص کو سرزنش کی تھی اور اس مذموم عمل کو امام کے علم میں بھی لا کے نکلا ہے۔

سڑک بہتر ہو گئی تھی۔ ہم ایک قصبہ پہنچ گئے تھے مگر ہمیں کوئی دو کلو میٹر دور گاؤں پیر بابا بٹئی پہنچنا تھا جو پہنچ گئے۔ اسحاق تو یہ کہہ کے کہ رات کی نماز کے بعد آؤں گا، چلا گیا۔ ہم سے وہاں کھڑے لوگ ہاتھ ملانے لگے۔ ایک عجیب سی بساند آ رہی تھی۔ ہم تنگ گلی میں مڑے۔ بدرو میں پانی بہہ رہا تھا مگر بساند وہاں سے نہیں اٹھ رہی تھی۔

راشد نے ایک سیڑھیوں کی جانب اشارہ کیا۔ بہت سیدھی اور تنگ قدمچوں والا زینہ تھا۔ مجھ جیسے پیر مرد کے لیے دشوار مگر ایک جانب چڑھتے ہوئے پکڑنے کو ڈنڈا لگا ہوا تھا۔ اوپر پہنچے تو بڑا سا چپس والا صحن۔ زینے کے ایک جانب ہاتھ منہ دھونے کو واش بیسن تھا اور ساتھ ہی ایک در جو لا محالہ غسل خانہ تھا۔

ساتھ ایک برآمدہ جس میں کم عرض اور چھدرے بان والی دو چارپائیاں تھیں جن پہ دیوار کے ساتھ تکیے لگے ہوئے تھے جن میں سے پھول کاڑھے سفید غلاف والا تکیہ بظاہر میلا تھا اور ایک جگہ سے میل نمایاں تھی۔ البتہ گاؤ تکیوں پر میل خورے غلاف تھے۔

برآمدے کے ایک طرف کے کمرے کا دروازہ کھولا تو اندر حبس تھا۔ راشد نے وہاں ہم دونوں کے بیک پیک رکھے اور کھڑکی اور دروازہ کھول دیے۔

میں اسی میلے سفید تکیے کے ساتھ کمر ٹکا کے پاؤں لٹکا کے ڈھیلا ہو گیا اور راشد نے غسل خانے میں جانے کو در کھولا تو سامنے ٹونٹی تلے ایک درمیانی میلی سی سفید بالٹی دکھائی دی۔ میرا دل دھک سے بیٹھا مگر میں نے خود کو حوصلہ دیا کہ بھائی گاؤں ہے۔

راشد نے نکل کر کہا کہ سر فریش ہو لیں۔ غسل خانے میں گیا تو وہ اوپر کے زینے تلے بنا تنگ سا غسل خانہ تھا جس کے کھلے حصے کے جانب ہلکے نیلے رنگ کا دیسی کموڈ تھا۔ ایک طرف کی دیوار پر نصب کھونٹی سے استعمال شدہ کپڑے لٹکے ہوئے تھے، دوسری جانب کی دیوار میں اوپر ایک چھوٹی سی جالی دار کھڑکی تھی جو بیت الخلا کی بو سے پوری طرح نہیں نمٹ پا رہی تھی۔ چند مکھیاں تھیں بلکہ وہ تو دروازے کے باہر بھی تھیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments