ایک بہت پرانی مگر نئی کہانی


بچپن میں دادا رحیمہ اور پھر والدہ سے ایک کہانی بار بار سنی تھی۔ روہتک کے کسی گاؤں کا ایک بھولا بھالا نوجوان (اپنی کے لیے لاڈلا نام دے دیتے ہیں) شادی کے کچھ عرصے بعد بیوی کو اپنے سسرال چھوڑنے ایک کرائے کی بیل گاڑی میں کچھ میل دور واقع ایک گاؤں گیا۔

سسرال والوں نے لاڈلے داماد کی خوب خاطر تواضع کی۔ داماد جی اپنے سسرالیوں کی طرف سے کھلائے پکوانوں میں سے ایک کچھ زیادہ ہی مزے کا لگا۔ لاڈلے نے نام پوچھا تو اسے بتایا گیا کہ اسے کھاچڑی (کھچڑی) کہتے ہیں۔ گھر جاکر فرمائش کرو گے تو کوئی نہ کوئی پکانا جانتا ہو گا، تمہاری فرمائش پوری کردے گا۔ داماد جی نے پیسے کی بچت کی خاطر پیدل واپسی کا قصد کیا مگر رخصت ہوتے ہوئے ایک بار پھر اس پکوان کا نام پوچھا اور اسے پکا یاد کرنے کے لیے دہراتا گھر کی طرف چل دیا۔

میل بھر آگے لاڈلا ایک کھیت کے پاس سے گزرا جہاں فصل تیار تھی اور کسان اسے پرندوں سے بچانے کے کڑی رکھوالی کر رہے تھے۔ ادھر لاڈلا اپنی دھن میں ”کھاچڑی، کھاچڑی، کھاچڑی“ کی مالا جپتے وہاں پہنچا تو اس کی زبان سے بار بار کھاچڑی کھاچڑی کی رٹ سن کر کھیت مالک نے اپنے مشٹنڈے بیٹوں کو کہا ”ہم چڑیاں اڑا اڑا کر تھک گئے ہیں اور یہ بدمعاش چڑیوں کو ہماری فصل کھانے کی دعوت دے رہا ہے۔ ذرا اس کی عقل ٹھکانے لگاؤ۔“

کسان کے بیٹوں نے لاڈلے کی خوب خبر لی۔ جب وہ تھک گئے تو لاڈلے نے روتے ہوئے اپنا قصور پوچھا۔ اسے بتایا گیا کہ اس نے کیا حماقت کی۔ لاڈلے نے سہمے لہجے میں پوچھا کہ تو پھر کیا کہوں؟ کسان نے کہا، یوں کہہ ’اڑ چڑی، اڑ چڑی‘ ۔ لاڈلا وہاں سے چل پڑا اور وہ یہی گردان کرتا جا رہا تھا کہ راستے میں جنگل میں چڑی ماروں کے پاس سے گزر ہوا جنہوں نے پرندے پکڑنے کے لیے جال لگا رکھے تھے۔ انہوں نے لاڈلے کا رٹا سنا تو آپس میں بولے ”ایک پہلے ہی چڑیاں جال میں پھنس رہی ہیں، یہ باقیوں کو بھی بھگا رہا ہے۔“

انہوں نے بھی لاڈلے کی دھنائی کی اور اسے ”آتے جاؤ، پھنستے جاؤ“ کا سبق پڑھا کر آگے روانہ کر دیا۔ لاڈلے کی قسمت عروج پر تھی۔ لہذا اس کا گزر لوٹ کا مال دبانے میں مصروف ڈاکوؤں کی ایک ٹولی کے پاس سے ہوا۔ انہوں نے بھی لاڈلے کی جم کر پٹائی کی کہ تم ہمیں آتے جاؤ، پھنستے جاؤ کی بددعا دے رہے ہو۔ پٹنے کے بعد لاڈلے نے روتے ہوئے پوچھا کہ پھر کیا کہوں۔ انہوں نے کہا ”یہ کہو، لاتے جاؤ، دباتے جاؤ“ ۔

لاڈلا یہ الفاظ دہراتا چل پڑا۔ قسمت بدستور اس پر مہربان تھی چناں چہ اس کا گزر قبرستان کی طرف جاتے ایک جنازے کے پاس سے ہوا۔ میت کے لواحقین نے ”لاتے جاؤ، دباتے جاؤ“ کا نعرہ سنا تو وہ لاڈلے پر ٹوٹ پڑے۔ بالآخر لاڈلا اپنے گھر پہنچا تو گھر والے پریشان ہو گئے۔ مگر کوشش کے باوجود لاڈلے کو پہلی پٹائی کی وجہ یاد نہیں آئی۔ آخر اس کی ماں نے بددعا دی ”بیڑا غرق ہو ظالموں کا، مار مار کے میرے لاڈلے کی کھاچڑی بنا دی۔“

یہ سنتے ہی لاڈلا بستر سے اچھل پڑا ”ہاں، ہاں۔ کھاچڑی، کھاچڑی بناؤ ماں، میں کھاچڑی کھاؤں گا۔“
(یہ کرپٹ نواز شریف کی سازش ہے۔ نہیں چھوڑوں گا۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments