نئے خواب، نیا نصاب: نئی نسل کے مسائل پر مکالمہ ضروری ہے


ہم ایک ایسے زنداں معاشرے کے باسی ہیں جہاں پر حقائق کو پرکھنے کے دو پیمانے ہیں، گناہ اور ثواب۔ یعنی ہم زندگی سے جڑی ہوئی حقیقتوں کو ایک مخصوص پیرائے میں قید کر کے دیکھتے ہیں اور انہی مخصوص پیمانوں کی روشنی میں نتائج اخذ کر کے پوری زندگی پر اپلائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسانی زندگی کا اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ اسے فقط دو رخی بنا کر محدود کر دیا جائے اور انہی دو زاویوں کے گرد خیالی دنیا کے ایسے شاندار روایتی محل کھڑے کر دیے جائیں کہ کل کائنات اسی محدود دائرے میں دکھنے لگے۔

ہمارے سماج میں تنگ نظری کا یہ بندوبست باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں نہ جانے کب سے ہو رہا ہے اور اسی تنگ نظری کی عکاسی ہمارے تعلیمی ادارے سکول، کالج اور یونیورسٹی میں دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے پی ایچ ڈی اور ایم فل اپنا مضمون جس پر انہیں گرفت ہوتی ہے، اس کے متعلق ڈائریکٹ گفتگو کا آغاز کرنے کی بجائے مذہبی تعلیمات و تصورات کا سہارا لے کر اپنی گفتگو کا آغاز کرتے نظر آئیں گے۔ بنیادی وجہ محدود نظری کا وہ بندوبست ہے جس کا آغاز روایتی ادارے جس میں والدین بھی شامل ہیں بچپن سے شروع کر دیتے ہیں۔

ڈائس کے پیچھے کھڑے لیکچرر اور منبر پر بیٹھے مولوی کے درمیان کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ جس طرح منبر پر براجمان مولوی سامعین کو سوال کرنے کی اجازت نہیں دیتا بالکل اسی طرح ڈائس کے پیچھے کھڑا پروفیسر بھی قطعی طور پر اپنے طلبا کو سوال کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر غلطی سے کسی طالب علم نے کوئی ٹیڑھا سا سوال پوچھنے کی جسارت کر لی تو اس کی اسائنمنٹ اور جی پی کے ساتھ جو حشر ہو گا وہ تمام طلبہ کے لیے ایک مثال بن جائے گا۔

بھلا ایسے گھٹن زدہ ماحول میں کون جرات کرے گا مولوی کے آگے سوال کرنے کی؟ کیونکہ اسے پتا ہے کہ اسے دائرہ ایمان سے خارج کر کے ایک ایسا ٹیگ عطا کر دیا جائے گا کہ ہر کوئی اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے گا۔ دوسری طرف ایک ایسا طالب علم جو دماغ کی بتی جلانے کے لئے غلطی سے برٹرینڈ رسل یا ڈاکٹر خالد سہیل کو پڑھنے کے بعد ڈائس پیچھے کھڑے پروفیسر سے غیر روایتی سوال پوچھنے کی جسارت کرے گا تو جو کچھ اس کے تعلیمی کریئر کے ساتھ بے ادبی و گستاخی کے نام پر کھلواڑ ہو گا وہی بہتر جانتا ہے۔

ایسے گھٹن زدہ ماحول میں ہم جیسے لوگوں کے لیے انٹرنیٹ کسی بہت بڑی نعمت سے کم نہیں ہے۔ غالباً 2017 میں میں نے صرف پڑھنے کی حد تک ہم سب ویب سائٹ کو جوائن کیا تھا کیونکہ اس سائٹ پر اکثر لکھنے والے میرے خیالات کی ترجمانی کرتے تھے، کم و بیش اسی دوران میں نے ڈاکٹر خالد سہیل کا ایک مضمون پڑھا جس میں انہوں نے سچ کے تین زاوئیے بیان کیے تھے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ سچ تین طرح کے ہوتے ہیں مذہبی سچ، روحانی سچ اور سائنسی سچ۔

یہ مضمون پڑھنے کے بعد ہم سب ویب سائٹ پر جتنے بھی ان کے مضامین تھے وہ میں نے دنوں میں پڑھ ڈالے اور ہر شائع ہونے والا ان کا مضمون سب سے پہلے پڑھ کر اپنے کمنٹس لکھنے کی کوشش کرتا۔ خالد سہیل کو ڈھونڈنے کی تمنا ہوئی تو ان کی ویب سائٹ پر پہنچ گیا جہاں پر دو باتوں نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔ ”ان جانچی زندگی جینے کے قابل نہیں ہوتی۔ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان، اتنی ہی حقیقتیں ہیں جتنی دیکھنے والی آنکھیں اس دنیا میں موجود ہیں“ ۔

یہ پڑھنے کے بعد ڈاکٹر خالد سے ملنے کی خواہش مچلنے لگی کیونکہ زندگی میں پہلی بار ایسا لگا تھا کہ اس دنیا میں کوئی ایسا ہے جو اپنا سا ہے۔ مزید قریب جانے میں ڈاکٹر بلند اقبال کا ایک مشہور ٹی وی پروگرام ”پاسورڈ“ نے بہت زیادہ مدد کی کیونکہ پاسورڈ کے اکثر پروگرامز میں انتہائی حساس اور بولڈ ٹاپک پر گفتگو کرنے کے لیے ڈاکٹر بلند اقبال ڈاکٹر خالد سہیل کو مدعو کیا کرتے تھے۔ ان علمی پروگرامز کے ذریعے سے مجھے ڈاکٹر خالد سہیل کے خیالات و افکار میں جھانکنے کا موقع ملا اور پھر یہ تجسس مجھے کینیڈا ون ٹی وی پر ”ان سرچ آف وزڈم“ تک لے گیا، جہاں یہ دونوں طبیب دوست ڈارک ایج، قرون وسطی اور ماڈرن ایج کے انسانی ذہنی ارتقا کو انتہائی خوبصورتی سے پیش کرتے نظر آئے۔

اس کے بعد غالباً فروری 2018 میں ڈاکٹر خالد سہیل لاہور تشریف لائے اور ان سے بالمشافہ ملاقات کا شرف ان کی پیاری بہن عنبرین کوثر کے گھر پر حاصل ہوا۔ عنبرین نے جس محبت و خلوص کے ساتھ ہماری مہمان نوازی فرمائی اس کے لئے شکریہ کا لفظ ان کے خلوص کے آگے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، ویسے بھی سراپا محبت لوگ ایسے تکلفات سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ پیاری عنبرین کوثر کا گھر میری ادبی جنم گاہ ثابت ہوا۔ ڈاکٹر خالد سہیل سے سیر حاصل گفتگو کے بعد انہوں نے مجھے لکھنے کا مشورہ دیا اور مائنڈ گیم کا ماہرانہ استعمال کرتے ہوئے انہوں نے مجھے کہا کہ آپ واقعی اچھے لکھاری ثابت ہوں گے۔

بس پھر کیا تھا آج 27 اپریل 2022 تک ”ہم سب“ پر میرے غالباً 206 بلاگ شائع ہوچکے ہیں۔ اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف، گزشتہ دنوں مجھے ڈاکٹر خالد سہیل اور مقدس مجید کی مشترکہ کتاب نئے خواب، نیا نصاب موصول ہوئی جسے پڑھنے کے بعد میرے من میں جو سب سے پہلی خواہش پیدا ہوئی کہ اس کتاب کو ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ بطور ٹیچر اور زندگی کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہونے کی حیثیت سے اور اپنے ملک کے تعلیمی کلچر سے آگاہ ہونے کے بعد بطور ٹیچر تقریباً سترہ سال پڑھانے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہمارا نصاب تعلیم کچرے کا ایک ڈھیر ہے۔

جس میں مکالمہ نام کی بالکل بھی کوئی گنجائش نہیں ہے، بس ماننا، ماننا اور ماننا ہے اور اسی نصابی کلچر کی پیروی کرتے کرتے طلبہ پی ایچ ڈی کر جاتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ یہ ڈگری والے زندگی کی حقیقتوں اور انسانی جسم سے جڑے ہوئے مسائل سے بالکل بے خبر اور لاتعلق ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ڈاکٹرز، پروفیسرز، انجینئرز اور مختلف طبقہ ہائے فکر کی علمی ایلیٹ ہمارے نوجوانوں کے جنسی مسائل کا حل جلد شادی اور مختلف تسبیحات میں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔

اس کتاب میں ڈاکٹر خالد سہیل اور مقدس مجید کے درمیان جو مکالمہ ہوا ہے اس میں نوجوانوں کی زندگی کے وہ تمام پہلوؤں آ جاتے ہیں جنہیں بے شرمی کا ٹیگ لگا کر انڈر کارپٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ہم آج ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جو ہر لحاظ سے بیمار ہو چکا ہے اور مریض دن بدن بڑھتے چلے جا رہے ہیں مگر ہمارا برائے نام پڑھا لکھا طبقہ ان مسائل پر کھل کر مکالمہ کرنے کی بجائے پاکیزگی کا چولا پہنے رکھنے پر مجبور کیے رکھتا ہے۔

یہ کتاب ایسے نوجوانوں کے لیے ایک علمی پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے جو اپنی زندگی کی ذہنی گتھیوں کو سلجھا کر ایک پیور انسان بننا چاہتے ہیں۔ پیور انسان سے مراد اپنی ذات کے حقیقی سچ کے ساتھ جینے کی جستجو کرنا تاکہ منافقت کے سارے خول اتریں اور حقیقی شخصیت سامنے آ سکے۔ مقدس مجید نے اسی لیے اپنی کتاب کا آغاز اسی نقطے سے کیا ہے ”کیا آپ سوال پوچھنا بھول گئے ہیں“ سوال تو وہی پوچھے گا جو جواب سے مطمئن نہیں ہو گا اسی بنیاد پر یہ کتاب ان غیر مطمئن طالب علموں کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہوگی جو کریدنا چاہتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں سے بھرپور زندگی کو محض تقلید کے گڑھے میں دفن نہیں کرنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل دماغ کے ڈاکٹر ہیں اور دماغی راگوں کے سروں کو چھیڑنا بڑے اچھے سے جانتے ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے مقدس مجید کو اپنی ذات کی غار حرا میں دھکیل کر وہ سب کچھ کہنے پر مجبور کیا ہے جو ہم جیسے معاشروں میں ابھی تک ممکن نہیں ہو پایا، اور مقدس مجید نے بھی منصور کے انا الحق کی طرح تمام معاشرتی منافقتوں کا نقاب الٹنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس کے لیے وہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔ میں یہاں ان کے کچھ جملوں کا حوالہ دینا چاہوں گا جس سے آپ کو ان کی ذہنی حدت و پختگی کا اندازہ ہو گا۔

”ایسے سماج میں لڑکیوں کا خوابوں سے تعلق دکھائی نہیں دیتا وہ کٹھ پتلیاں ہوتی ہیں جنہیں قسمت بنانا سکھایا ہی نہیں جاتا بلکہ ان کو نصیب کے آسرے پر رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ترقی پسند عورتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ایسی روایتی عورتیں ہیں جو پدرسری نظام کے قلعے کی دیواروں پر روایات کی بندوقیں لئے محافظ بن کر بیٹھی ہیں۔ شادی اصل بڑوں کی ہوتی ہے آپس میں۔ اکثر نوجوان خواتین کی ٹریننگ ہی اس طرح سے کی گئی ہوتی ہے کہ وہ اس قابل ہو جائیں کہ رشتے کی مارکیٹ میں ان کی بولی اونچی لگ سکے۔

عورت ایک چیز کے طور پر دیکھی جاتی ہے اور مرد خریدار کے طور پر۔ ہمارے ہاں فرمانبرداری کو ایک بڑا مقام حاصل ہے، ماں باپ کو یہاں سپر نیچرل کرداروں کے طور پر دیکھا جاتا ہے ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور باپ جنت کا دروازہ ہے۔ ہمارے ہاں جتنا زیادہ دلہن شادی سے پہلے انجان ہو اسے اتنی بڑی خوبی سمجھا جاتا ہے۔ مشرق میں شادی بچوں کے لئے کی جاتی ہے اس کا جوڑے کی محبت اور ساتھ میں خواب پورے کرنے سے میلوں تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

عورت مرد کی لائف پارٹنر نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کی ملکیت ہوتی ہے۔ یہاں مولوی جب مرد کے لیے جنت کا نقشہ کھینچتے ہیں تو جانے کدھر سے کدھر پہنچ جاتے ہیں اچھے بھلے معروف علما حوروں کی داستانیں ٹھرکی لہجہ بناتے ہوئے مسجد میں منبر پر بیٹھ کر سناتے ہیں۔ عورت ایک مٹی کی مورتی ہے ایک جسم اور بس ”۔ اب غور کیجئے

یہ وہ تیز دھار قسم کے جملے ہیں جو اپنے اندر بہت زیادہ معاشرتی تلخی سمیٹے ہوئے ہیں جنہیں مقدس مجید نے بغیر کسی لگی لپٹی اور رکھ رکھاؤ کے ایز اٹ از پیش کر دیا ہے تاکہ ان معاشرتی گونگوں اور بہروں کو زبان ملے جو تعلیم یافتہ اور باشعور ہونے کے باوجود دبکے ہوئے ہیں اور معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ جہاں تک ڈاکٹر خالد سہیل نے مکالمے کی صورت میں انتہائی عرق ریزی سے مغربی اور مشرقی معاشروں کے درمیان تضادات کو کھولا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

خاص طور پر لفظوں کی مسیحائی کا جو ملکہ انہیں حاصل ہے کم از کم میں نے اپنے ہوش و حواس میں اس پائے کا کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔ ان کی زندگی کے جہاں اور دوسرے ان گنت کارنامے ہیں وہیں ان کی زندگی کے کریڈٹ میں ان کا گرین زون فلسفہ ہے جس کی تین سطحیں ہیں۔ گرین زون، یلو زون اور ریڈ زون، جو ان تین مراحل کی نفسیات کو سمجھنے کے بعد اپنی زندگی کو مینیج کرنے کی کوشش کرے گا وہ کافی حد تک خود کو ایک بہتر انسان بنا سکتا ہے۔

اپنے ڈائیلاگ میں ڈاکٹر سہیل نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مشرقی والدین کا تعلق ساری زندگی اپنے بچوں کے ساتھ بچوں جیسا ہی رہتا ہے ان کا تعلق اپنے بچوں کے ساتھ ایک فرد یا اڈلٹ ٹو اڈلٹ بنیادوں پر قائم ہی نہیں ہو پاتا۔ ڈاکٹر صاحب کی نظر میں معاشرے میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں روایتی اکثریت کے لوگ جو روایت کی شاہراہ پر اور تخلیقی اقلیت کے لوگ جو اپنے من کی پگڈنڈی پر چلتے ہیں۔ مغرب میں شادی کے تصور کے متعلق بتاتے ہیں کہ وہاں یہ تصور عام ہے کہ انسان محبت اور شادی خوشی کے لئے کرتا ہے اذیت کے لیے نہیں۔

اور اگر شادی سے محبت اور خوشی غائب ہو جائے تو یہاں میاں بیوی عزت و احترام سے ایک دوسرے کو الوداع کہتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد کا خیال ہے کہ شادی کرنا، بچے پیدا کرنا اور ان کی صحیح تربیت کرنا اتنے اہم کام ہیں کہ ہمیں ان کے لیے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خاص کورسز اور سیمینارز کا اہتمام و انتظام کرنا چاہیے، دنیا میں ہر کام کی ٹریننگ ہوتی ہے اس ٹریننگ کے بغیر نہ آپ ٹیچر سکتے ہیں نہ ڈاکٹر اور نہ وکیل، لیکن والدین بننا ایک ایسا کام ہے جو بغیر ٹریننگ اور تربیت کے کیا جاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم ایک ایسے گھٹن زدہ سماج کا حصہ ہیں جہاں جنس، شادی اور سیکس جیسے معاملات پر اوپن ڈسکشن کی بجائے ممنوع موضوع قرار دے کر دی ورلڈ آف فینٹسی تخلیق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا نتیجہ جب نوجوانوں کی شادی کی تاریخ فکس ہوتی ہے تو وہ پورنو گرافک ویب سائٹ پر اوٹ پٹانگ سرچ کر کے عورت کے جسم کو فتح کرنے کے سہانے سپنے سجا کر کمرہ عروسی میں داخل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس قسم کے موضوعات کو انسان کی زندگی کا ایک بہت اہم حصہ ہونے کی حیثیت سے موضوع بحث بنایا ہے۔ آخر میں میں اس کتاب کے دونوں مصنفین ڈاکٹر خالد سہیل، مقدس مجید کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ یہ کتاب ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کی رہنمائی میں ایک اہم کردار ادا کرے گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments