سیاسی عدم برداشت اور سوشل میڈیا کا کردار


دور جدید میں ایجادات اور آئیڈیاز کی بدولت انسان دن بدن ترقی کی منازل طے کرتا ہوا، اب بشری عروج کی بلندیوں کو چھونے لگا ہے۔ ایلن مسک کے مستقبل کے خواب اور پلان سن کر تو انسانیت انگشت بدنداں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جہاں سائنس تیزی سے اپنے عروج کی منازل طے کر رہی ہے اسی حساب سے ان ممالک کے افراد بھی ان سائنسی ایجادات کی ضرر رسانی کی بجائے ان سے استفادہ حاصل کر کے اپنی زندگی کو سہل بنا رہے ہیں لیکن سچ اور جھوٹ کو ماپنے کے لئے ان کا سب سے بڑا سہارا برقی اور سوشل میڈیا ہی ہے۔

وائے بد قسمتی کہ وطن عزیز پاکستان کے باشندے اپنے نصب العین سے ہٹ کر، سوشل میڈیا کو ایک ایسی تفریح سمجھتے ہیں جہاں ان کے ہر دکھ اور غم کا علاج تو موجود ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہم حقائق سے دور ہو کر سوشل میڈیا کے جکڑ بند میں ایسے پھنس گئے ہیں کہ ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھنے کے ساتھ ساتھ ہر سفید جھوٹ کو سچ سمجھ کر نہ صرف اپنی زندگی کا حصہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم اس حد تک انتہا پسند ہو گئے ہیں کہ دوسروں کو بھی اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ ہر سفید جھوٹ کو من و عن تسلیم کریں۔ اگر کوئی صاحب الرائے ان کے بیان کردہ حقائق سے اختلاف رکھتا ہے تو ایسے سیاسی راسخ العقیدہ لوگ ڈنڈے یا گولی کی زبان میں بات کرتے ہوئے مرنے مارنے پر بھی تل جاتے ہیں۔

گزشتہ کئی دنوں سے ہمارے ملک میں بڑی سیاسی جماعتوں کے جذباتی کارکنان کے درمیان ہیش ٹیگ اور کمنٹس کا جو طوفان بدتمیزی برپا ہے، اس کو دیکھ کر نہ صرف دل دکھتا ہے بلکہ ہمارے معاشرے کے ذہنی بیمار اور غیر منطقی سوچ رکھنے والے تعلیم یافتہ افراد کے عدم برداشت کے روئیے دیکھ کر انسان پاگل ہو جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہبی، معاشرتی اور سیاسی عدم برداشت کا اصل ذمہ دار کون ہے اور ہمارے اس رویہ کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہیں۔

ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ راہ چلتے آپ ایک جائے حادثہ پر پہنچتے ہیں تو عوام کی اکثریت بلا سوچے سمجھے کسی نہ کسی کمزور کا ساتھ دیتی نظر آئے گی، چاہے قصور کمزور کا ہی ہو۔ مثال کے طور پر اگر کار سوار کی ٹکر کسی سائیکل سوار کے ساتھ ہو گئی ہو تو لا محالہ عوام کی اکثریت کار سوار کو ہی قصور وار ٹھہرائے گی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کو مار مار ادھ موا ہی کر دے۔ کسی ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ معاشرے میں عدم برداشت کے پیچھے دراصل بد امنی اور نا انصافی جیسے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔

جب بھی ایسے معاشرے کا کوئی فرد کسی قصوروار کو بھی روتے پیٹتے دیکھتا ہے تو حقائق پر نظر ڈالنے کی بجائے اس کا ساتھ دینے میں نہیں ہچکچاتا۔ ایسا ہی سابقہ ایک دو ماہ میں ہوا کہ میرے چند ہم عصر جو سابقہ حکومت کے دور میں مہنگائی، لا قانونیت کی وجہ سے عمران خان کو مطعون ٹھہراتے تھے انہوں نے اس کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا ہی اس کے حق میں نعرہ بازی کرنا شروع کر دیا اور زیرو ایک بار پھر اسی طرح ہیرو بن بیٹھا، جیسے نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد عوام نے نواز شریف کو کندھوں پر بٹھایا تھا۔

نیازی حکومت اپنے اقتدار کے سالوں میں جن چوروں کو پچاس روپے کے ضمانتی بانڈ پر باہر بھیج چکی تھی، ایک بار پھر اپنے لاؤ لشکر سمیت سوشل میڈیا پر موجود ہے اور نئی حکومت کو گرانے کے ساتھ ساتھ نئے انتخابات کروانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ جیسے ایک کمپیوٹر باٹ کی مدد سے ایک پوسٹ وائرل کی جاتی ہے تو ہماری قوم کے جذباتی افراد اپنی وال یا سٹیٹس پر اس کو اپ لوڈ کرنا فرض اولین سمجھتے ہیں اور اس عمل میں کسی بھی سیاسی جماعت کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ حالت یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی یوتھیا ہے تو کوئی پٹواری، کوئی جماعتی ہے اور کوئی جیالا، افسوس کا مقام یہ ہے کہ کوئی بھی پاکستانی نہیں ہے۔

ہمارے اکثر قارئین اس امر سے واقف نہیں ہوں گے کہ سوشل میڈیا پر ویڈیو، امیج یا کسی بھی قسم کی جو سٹیٹس اور خبریں وہ شیئر کر رہے ہیں، وہ اکثر ایسے فیک اکاؤنٹس کی طرف سے وائرل کی گئی ہوتی ہیں جنہیں کمپیوٹر کی زبان میں سوشل باٹس کہتے ہیں، یہ سوشل باٹس انتہائی قلیل وقت میں سیکڑوں، ہزاروں فیک اکاؤنٹس سے کسی بھی جھوٹی خبر کو پھیلا سکتے ہیں۔ 2018 ء میں امریکی یونیورسٹی ’میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘ (ایم آئی ٹی) کی میڈیا لیب میں اس حوالے سے ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صارفین کی اکثریت غلط خبروں کو بغیر تصدیق کے تیزی سے شیئر کرتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سچی خبر کے مقابلے میں غلط خبروں کو سوشل میڈیا پر خاصی شہرت ملتی ہے۔ اس کے علاوہ اعداد و شمار چیک کرنے والی چھ آزاد تنظیموں نے سوشل میڈیا کی ”نیوز اسٹوریز“ کا جائزہ لیا تو یہ بات سامنے آئی کہ سوشل میڈیا پر دہشت گردی، سیاحت، قدرتی آفات، سائنس اور کاروبار کی خبروں کے مقابلے میں سیاسی خبروں پر صارفین کا زیادہ ردعمل سامنے آتا ہے۔ مزید براں اس تحقیق کے نتائج کا اطلاق فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ سمیت دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی ہوتا ہے۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا ونگ بنائے ہوئے، ان سیاسی سوشل میڈیا فورسز کا بنیادی فرض ہی مخالفین کی کردار کشی ہے، یہ سوشل میڈیا کا گمراہ کن جھوٹ اور پروپیگنڈا ہی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف سیاستدانوں کی نجی زندگی پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں بلکہ ان کے ہر کردہ اور نا کردہ فعل کو سیاسی رنگ دے کر عوام میں مخالفین کی مقبولیت کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ہر معاشرے میں بسنے والے افراد الگ الگ نفسیاتی کرداروں کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں بسنے والے افراد کی اکثریت فطرتا انتہائی جذباتی ہے اور کسی بھی صورت حال میں اپنے اندر اٹھنے والے غصے کے جذبات کو قابو کرنا ہمارے لیے انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہے۔ اس لئے جیسے ہی ان کا سامنا ایسے افراد سے ہوتا ہے جو کسی مشکل صورتحال میں جذبات سے نہیں بلکہ صرف اور صرف دماغ سے کام لیتے ہیں تو منفی جذبات رکھنے والا شخص مثبت سوچ رکھنے والے انسان کے سامنے اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتا جسے ہم عدم برداشت کا نام دیتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کی چھوت کی یہ بیماری اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اس کی علامات ٹیلی ویژن اسکرین، حقیقی زندگی کے مناظر، اخبارات کے صفحات سے لے کر برقی صفحات تک جابجا غیر شائستہ اور اکھڑ انداز گفتگو کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ لائیو شوز میں اپنے اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے کارکنان گالی گلوچ اور مار پیٹ سے بھی باز نہیں آتے۔ اگر ہم اپنی ملکی سیاست کے گزشتہ دس سالوں پر نظر ڈالیں تو ہم پر منکشف ہو گا کہ جو سیاسی رہنما جتنا زیادہ اکھڑ مزاج، بد تمیز، بد تہذیب اور بے لگام ہے، وہی سیاسی شوز کا حصہ بننے کے ساتھ ساتھ آخر کار وزیر اطلاعات جیسے اہم عہدے پر برا جمان ہوتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست کو ایسے عناصر سے کیسے نمٹنا چاہیے تو بیسویں صدی کے مشہور فلسفی کارل پوپر کے مطابق عدم برداشت کے فلسفے کا مقابلہ عقلی دلیل سے ہی کیا جانا چاہیے اگر یہ ناکافی ہو تو اس کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے، یعنی اگر ریاستی عناصر قوم کی فلاح اور بہبود چاہتے ہیں تو ایسے عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹ سکتے ہیں۔ ایسا ہی آج کل محکمہ تعلیم کے ملازمان میں خلاف تادیبی کارروائیوں کی صورت میں دیکھنے میں آ رہا ہے کہ فیک سیاسی خبروں کو شیئر کرنے اور پھیلانے کی صورت میں اکثر ملازمین کو معطل کیا جا رہا ہے۔ ناچیز کے خیال میں اس طرح کی تادیبی کارروائیاں مستقبل کے لئے ایک اہم پیش رفت کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments