بھوپال جہاں پختون خواتین ایک عرصہ تک حکمران رہیں


1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔
ہم صبح کے وقت بھوپال پہنچے۔

میں نے بھوپال سے متعلق مختلف معلومات حاصل کیں، تو پتہ چلا کہ اس شہر میں 26 فیصد کے قریب مسلمان رہتے ہیں۔ شہر کی آبادی تقریباً ًپندرہ لاکھ ہے اور یہ ہندوستان کا سولہواں بڑا شہر ہے۔ اس طرح اس شہر میں چار لاکھ سے زائد مسلمان رہتے ہیں۔ اس شہر کی جھیلوں، باغات اور جنگلات کی وجہ سے اسے ہندوستان کے سب سے زیادہ گرین سٹی ہونے کا خطاب دیا گیا ہے۔ ہم نے محسوس کیا کہ ہم جس طرف بھی دیکھتے تھے ہمیں سبزہ ہی سبزہ نظر آتا وہ بہت ہی خوبصورت منظر تھا۔ بھوپال پہنچنے سے پہلے مجھے یہ اشتیاق تھا کہ میں ایسے علاقے دیکھوں جنھیں چلانے والی بیگمات اپنی طرز حکمرانی کی وجہ سے بہت مشہور ہوئیں۔

تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ریاست بھوپال کی کچھ خاص تاریخی حیثیت نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گیارہویں صدی میں اس علاقے پر بھوجا نام کا ایک ہندو راجا حکومت کرتا تھا۔ اس وقت یہاں پر ایک گاؤں تھا۔ جسے بھوج پال کہا جاتا تھا۔ بعد ازاں اس کا نام بھوپال پڑ گیا۔ پختونوں کے کسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے دوست محمود خان اورنگزیب کی فوج میں ایک کمانڈر تھے۔ ان کے ساتھ اور بھی بہت سارے پختون فوجی تھے۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد جب مغلوں کا کنٹرول کمزور ہو گیا تو مقامی طور پر بہت سے لوگوں نے خود ساختہ آزادی کا اعلان کر دیا۔ دور دراز کے علاقے اس میں خاص طور پر پیش پیش تھے۔

اسی طرز پر چلتے ہوئے دوست محمد خان نے اپنا ایک بڑا گروہ بنا لیا۔ انھوں نے مقامی لوگوں کو اپنی فوجی خدمات پیش کرنا شروع کر دیں۔ مقامی راجہ مہاراجہ انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے جس کے بدلے وہ ان کی ضروریات پوری کرتے تھے۔ اس طرح وہ کافی عرصے تک اس علاقے میں آتے جاتے رہے۔ ایک چھوٹی ریاست کی رانی نے اپنی ریاست کی حفاظت کے لیے دوست محمد خان سے ایک معاہدہ کیا۔ معاہدے کے مطابق رانی رقم کی ادائیگی نہ کر سکی۔ جس پر دوست محمد خان نے اس کی ریاست پر اپنا قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد دوست محمد خان نے علاقے پر علاقے فتح کرنا شروع کر دیے۔ آخر کار وہ اپنی ایک ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس طرح اس نے 1707 ء میں ریاست بھوپال کی بنیاد رکھی۔

اس علاقے میں ہندو اکثریت میں تھے جبکہ حکمران مسلمان تھے۔ میں نے ایک بات نوٹ کی کہ جن ریاستوں کے حکمران مسلمان تھے وہ اپنے آپ کو نواب، نظام، یا والی کہلواتے تھے، جیسے نظام حیدر آباد، نواب آف بہاولپور وغیرہ لیکن جن ریاستوں کے حکمران ہندو تھے وہ اپنے آپ کو راجہ یا مہاراجہ کہلوانا پسند کرتے تھے۔ بھوپال کے حکمرانوں نے بھی خود کے لیے نواب کا لقب پسند کیا۔ دیگر ریاستوں کی طرح بھوپال کا بھی انگریزوں کے ساتھ الحاق ہو گیا۔ اس طرح یہ ریاست ان 565 ریاستوں کا حصہ بن گئی جن کے انگریزوں کے ساتھ معاہدے تھے۔ اس ریاست سے متعلق ایک ایسی بات جس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی وہ نواب خاندان کی بیگمات کی سو سال سے زیادہ حکمرانی ہے۔

کسی وجہ سے خاندان کا کوئی مرد حکمران بننے کے قابل نہیں تھا۔ تو 1819 ء میں ایک بیگم کو حکمران بنایا گیا۔ پھر اس کے بعد بیگمات نے کسی مرد کو حکمران نہیں بننے دیا۔ 1819 ء سے لے کر 1926 ء تک یکے بعد دیگرے چار بیگمات نے اس ریاست پر حکمرانی کی۔ یاد رہے حیدرآباد کے بعد یہ مسلمانوں کی دوسری بڑی ریاست تھی۔ پھر ایک بیگم کو ترس آ گیا یا وہ کسی دوسری بیگم کو اپنے بعد حکمران دیکھنا نہیں چاہتی تھیں لہذا اس نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے کو حکمران بنا دیا۔ اس سو سالہ حکمرانی میں ان بیگمات نے بھوپال کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس دور میں اس شہر میں ایک تاج محل پیلس بھی بنایا گیا۔

جیسا کہ میں نے پچھلے صفحات میں ذکر کیا کہ تقسیم ہند کے وقت ہر ریاست کو کسی کے ساتھ ملنے یا آزاد رہنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ ریاست بھوپال کے مسلمان حکمران حمیداللہ خان نے بھارت سے ملنے کی بجائے آزاد رہنے کو ترجیح دی۔ اس فیصلے کے خلاف ہندوؤں نے بہت بڑی تحریک چلائی۔ تقریباً ڈیڑھ سال تک نواب صاحب نے اس کی مزاحمت کی۔ آخر کار اپریل 1949 ء کو ریاست ختم کر دی گئی اور اسے بھارت کا حصہ بنا دیا گیا۔

بیگمات کی حکمرانی کی وجہ سے مجھے اس علاقے کو دیکھنے کا شوق تھا جو آج پورا ہو گیا۔

بدقسمتی سے 1984 ء میں اس شہر کے ایک کیمیکل کارخانے میں دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس سے بھی کہیں زیادہ لوگ متاثر ہوئے۔ اب تک اس کے اثرات محسوس کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی اندوہناک حادثہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments