دعا زہرا کیس: گتھیاں الجھتی جا رہی ہیں


دعا زہرا اور ظہیر کا آن لائن گیم سے تعلق بنا جو آگے چل کر محبت میں تبدیل ہوا اور پھر دعا اپنا گھر چھوڑ کر لاہور پہنچ گئی جہاں اس نے ظہیر سے اپنی مرضی سے نکاح کرلیا۔
مصنف: سدرہ ڈار

کراچی — کراچی کے علاقے گولڈن ٹاؤن کی رہائشی دعا زہرا کی گمشدگی اور پھر ان کے منظرِ عام پر آنے کے بعد بہت سے ایسے سوالات نے جنم لیا ہے جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔دعا زہرا اور ظہیر کا آن لائن گیم سے تعلق بنا جو آگے چل کر محبت میں تبدیل ہوا اور پھر دعا اپنا گھر چھوڑ کر لاہور پہنچ گئی جہاں اس نے ظہیر سے اپنی مرضی سے نکاح کرلیا اوردعویٰ کیا کہ وہ بالغ ہے اور اس پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔

یہ سننے میں ایک رومانوی فلم کی کہانی ضرور لگ رہی ہوگی لیکن یہ کیس جتنا سادہ نظر آرہا ہے اتنا ہے نہیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ لڑکی کے منظرِ عام پر آجانے کے بعد اب اس کیس کا ڈراپ سین ہوگیا۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو کہانی اب شروع ہوئی ہے کیوں کہ اس واقعے نے بہت سے ایسے سوالات کو جنم دیا ہے جس سے گتھیاں الجھتی جارہی ہیں۔

وائس آف امریکہ نے دعا زہرا اور اس سے ملتے جلتے نمرہ کاظمی کے کیس کو نہ صرف رپورٹ کیا بلکہ یہ جاننے کی کوشش بھی کی کہ معاشرے میں اس طرح کے بڑھتے واقعات کے اسباب کیا ہیں؟ قانون، تعلیم، میڈیا کے شعبےسے تعلق رکھنے والے افراد اس کیس کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں؟

کیا دعا کی واپسی کا اب کوئی امکان نہیں؟

دعا نے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے ظہیر سے شادی کی اور وہ اسی کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں ۔ لاہور کی سیشن کورٹ نے بھی دعا زہرا کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اسے تنگ نہ کیا جائے۔

دعا زہرا کے والد سید مہدی کاظمی بتاتے ہیں کراچی پولیس ٹیم دعا کو لانے کے لیے لاہور گئی تھی جس پر انہیں امید تھی کہ دعاواپس اپنے گھر آ جائے گی لیکن اس کے بیان کی وجہ سےاس کی واپسی ممکن نہیں ہوسکی۔

دعا کے والد اب قانون کا سہارا لیتے ہوئے لاہور کی سیشن کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔سید مہدی کاظمی کا یہ بھی کہنا تھا کہ دعا 18 برس کی نہیں ہے تو ان کے کیس میں اب بھی دم ہے۔

اس معاملے پر سندھ کی وزیر برائے بہبود و خواتین شہلا رضا کہتی ہیں انہوں نے دعا زہرا کے کیس کے لیےان کی قانونی ٹیم ہر پہلو سے کیس کا جائزہ لے رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شہلا رضا کا کہنا تھا “لاہور کی عدالت اور جج کو تھوڑا سمجھنا چاہیے تھا کہ ان کے سامنے جو لڑکی کھڑی ہے اس کی عمر کیا ہے۔ ہم اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے کیوں کہ لڑکی کم عمر ہے۔”

شہلا رضا کے مطابق اب تک دعا زہرا کی گمشدگی کا مقدمہ درج تھا لیکن اب چوں کہ نکاح نامہ اور لڑکی کا عدالت میں بیان سامنے آگیا ہے تو ہم نے دعا کے اہل خانہ کو کہا ہے کہ وہ ایک نئی ایف آئی آر درج کرائیں جس میں یہ بتایا جائے کہ لڑکی کو ورغلا کر گھر سے نکالا گیا ہے۔

انہوں نے فیڈرل شریعت کورٹ کے 2021 کے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 18 برس سے کم عمر میں شادی نہیں ہوسکتی۔ ان کے بقول یہ شادی خلافِ شریعت ہے۔

کم عمری کی شادی پر پاکستان کا قانون کیا کہتا ہے؟

سپریم کورٹ کے وکیل شعیب اشرف کے مطابق پاکستان میں صرف سندھ ہی ایک ایسا صوبہ ہے جہاں کم عمری کی شادی کے خلاف قانون موجود ہے جس کی رو سے اٹھارہ برس سے کم عمر لڑکا یا لڑکی کی شادی ممکن نہیں۔ اگر اس قانون کے خلاف جا کر شادی کرائی جائے تو اس میں فریقین (والدین، رشتے دار، گواہان، نکاح خواں) کو تین سال کی سز ا ہوسکتی ہے۔ تاہم بلوچستان اور پنجاب میں شادی کی عمر کی حد 16 برس ہے۔

لاہور کی عدالت کے فیصلے پر شعیب اشرف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بعض ججز فقہ کو قانون سے بالاسمجھتے ہیں اور پھر اپنے ایمان کی رو سے فیصلے دیتے ہیں جب کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ نکاح خواں بھی شادی کے لیے بلوغت کو اہم سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نکاح ہو گیا ہے اور لڑکی بلوغت کے اعتبار سے بالغ ہے۔

شعیب اشرف کے مطابق دعا زہرا کے کیس میں اگر لڑکی چودہ سال کی ثابت ہوجاتی ہے تو یہ شادی تو پنجاب میں بھی جائز نہیں ہو گی جہاں عمر کی حد 16 برس مقرر ہے۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر لاہور کے سیشن کورٹ کا فیصلہ چیلنج کر دیا جائے اور لڑکی بعد میں یہ بیان دے کہ اس نے یہ اقدام کسی دباؤ میں آکر لیا ہے جس میں اس کی مرضی شامل نہیں تو پھر تنسیخِ نکاح کے لیے لڑکی کو مقدمہ دائر کرنا پڑے گا۔

ماہرِ قانون ایڈووکیٹ ضیا اعوان کے مطابق ان کا خیال ہے کہ جو مذہبی حلقے بلوغت کو بنیاد بنا کر اس کا حوالہ دیتے ہیں وہ قوانین سے متصادم ہے۔

ان کے بقول، “ہم بلوغت کو بچے کی جسمانی تبدیلی مانتے ہیں یہ اس کی ذہنی بلوغت نہیں ہے، اس لیے شادی کی اٹھارہ برس حد رکھی گئی ہے۔ دعا زہرا کیس میں بھی کافی ایسے پہلو نکلتے ہیں کہ یہ شادی غیر قانونی ہے۔”

ضیا اعوان کے مطابق چوں کہ نکاح پنجاب میں ہوا ہے تو وہاں کے چائلڈ میرج قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے کہ لڑکی اور لڑکے کی عمر کا تعین اور ثبوت کے بغیر نکاح کیسےپڑھایا گیا؟لیکن یہاں ایک اوراہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ہر بچے کا بے فارم نہیں اور وہ نادرا میں رجسٹرڈ نہیں جب کہ نکاح خواں بھی کسی قانون کو ماننے کو تیار نہیں ہیں اور نکاح پڑھا دیتے ہیں۔

دوسری جانب جینڈر اسٹڈیز کی ماہر سیدہ نایاب بخاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان بچوں کی عمریں انتہائی کم ہیں اور ان کے پاس تو شاید اتنے پیسے بھی نہ ہوں کہ یہ ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرسکیں اور شادی کے سارے انتظامات کرتے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہاں یہ بھی سوال ہے کہ لڑکے کا خاندان کہاں ہے؟ کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ جب لڑکی ان کے گھر پہنچ گئی تھی تو وہ خاموشی سے دعا کے والدین سے رابطہ کرتے اور کہتے کہ ان بچوں سے نادانی ہوگئی ہے آپ بچی کو لے جائیں۔

‘خبر دیتے وقت بہت غیر ذمے داری کا ثبوت دیا گیا’

دعا زہرا کا کیس چوں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے منظرِ عام پر آیا تھا تو تمام چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں مصروف نظر آئے۔ پل پل کی رپورٹنگ، بریکنگ نیوزکے ساتھ سوشل میڈیا پر خبریں، تصاویر گردش کرنے لگیں۔ یہاں تک کہ کچھ یو ٹیوب چینلز نے تو کلک بیٹس کے لیے ایسی ایسی سطریں بھی لگائیں کہ ان کی ویڈیو بس دیکھی جاسکے۔

ان سب میں جب دعا کا مبینہ نکاح نامہ سامنے آیا تو وہ تمام لوگ جو اس کی گمشدگی کے لیے مہم چلا رہے تھے انہیں یہ تاثر ملا کہ ان کی کوششیں رائیگاں گئیں۔ دعا نے اپنی مرضی کرتے ہوئے والدین کا نہیں سوچا اور پھر ایسا بھی دیکھنے اور پڑھنے کو ملا جس سے یہ محسوس ہوا کہ تمام تر قصور لڑکی کا ہے۔

صحافی ندا فاطمہ سمیر کے مطابق اگر آپ میڈیا کو دیکھیں تو اس پر بچوں کے لیے کوئی مواد نظرنہیں آتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے پروگرامز بنائے جائیں جو بچوں کے مسائل اور ان کے مزاج سے مطابقت رکھتے ہوں اور اس کی ٹارگٹ آڈئینس والدین ہوں، ہمیں ٹیکنالوجی کو الزام نہیں دینا چاہیے کیوں کہ اس کے بغیر گزارا نہیں۔

ایک اور صحافی زہرا صلاح الدین کا کہنا ہے کہ میڈیا پر چلنے والی یہ بریکنگ کہ ‘لڑکی نے اپنی مر ضی سے شادی کرلی’، اس خبر کو دیتے وقت بہت غیر ذمے داری کا ثبوت دیا گیا ہے کیوں کہ لڑکی کے خاندان کی جانب سے دستاویزات ثابت کر رہی ہیں کہ وہ بچی کم عمر ہے۔

ان کے مطابق ایسی خبریں نشر ہونے سے دیکھنے والوں کا ذہن بدل گیا ہے اور لوگ اب اس لڑکی کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسی رپورٹنگ کرنے سے گریز کرنا چاہیے تھا بلکہ پیمرا کو اس پر ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔

دعا زہرا کیس میں میڈیا کے کردار پر صحافی جلیلہ حیدر کہتی ہیں سب سے پہلےمعاشرے سے اس سوچ کو ختم ہونا چاہیے کہ پسند کی شادی کرنا بری بات ہے۔ دوسری یہ سوچ ختم ہونی چاہیے کہ اگر کوئی کم سن لڑکی یا لڑکا گھر سے بھاگ جائیں تو ان کا کردار داغ دار ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا میں بچی کو اس طرح پیش کیا جارہا ہے کہ جیسے وہ ایک بری لڑکی ہے۔ جس طرح بریکنگ کر کے اس کی ایک ایک خبر کو پیش کیا گیا، اس لڑکی کی زندگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کیوں کہ یہ بچی باشعور نہیں اور ابھی بہت سے محرکات کا سامنے آنا باقی ہے۔

کیا سوشل میڈیا نوجوانوں کے ذہن متاثر کر رہا ہے؟

دعا کے والد نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ان کی بیٹی آن لائن گیمز کھیلا کرتی تھی اور اس کی گیم آئی ڈی سے ظہیر کی چیٹ بر آمد ہوئی ہے۔

دعا کے والد کے مطابق وہ ظہیر احمد نامی لڑکے کو جانتے تک نہیں تھے اور جب وہ میڈیا پر آیا تو ہی انہوں نے اسے دیکھا۔ انہیں یہ نام تب معلوم ہوا جب قانون ناٖفذ کرنے والے اداروں کی مدد سے گیم (کلیش آف کلینز) کی ہسٹری سرچ کی گئی تو اس لڑکے کی آئی ڈی نکلی۔

ان کے بقول “مجھے تو یہ پتا بھی نہیں تھا کہ اس گیم میں میسیجنگ سروس بھی ہے، مجھے ایجنسی نے بتایا کہ اس میں تو کالنگ کی بھی سہولیات موجود ہیں۔”

اس معاملے پر صحافی فیصل عزیز کہتے ہیں والدین کو بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہیے کہ وہ کیا ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں اور کیا دیکھ رہے ہیں جب کہ صحافی عظمیٰ الکریم کہتی ہیں آج کا بچہ ایک الگ سوچ رکھتا ہے ہمیں اس نسل کے ذہن اور سوچ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم ان بچوں کو نہیں سمجھ پارہے تو بچوں سے کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمیں سمجھ سکتے ہیں۔

ان کے بقول یہ کہنا بہت آسان ہے کہ ہمارے بچے ہمارے دوست ہیں وہ ہم سے تمام باتیں کر سکتے ہیں، حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ ضروری ہے کہ بچے جو کر رہے ہیں آپ کو ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے ان کے جیسا ہی بننا پڑے گا، آپ جتنی تنقید کرلیں لیکن اس سوشل میڈیا کے بغیر آج کے بچے کی زندگی ممکن ہی نہیں ۔

کم عمر بچوں کے ایسے فیصلوں کا مستقبل

پشاور یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ کانفلکٹ اسٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد چترالی کہتے ہیں اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ زہرا اور ظہیر دونوں 18 برس کے ہیں اور اپنی شادی کا فیصلہ کرنے کے حق دار تھے۔ اگر مستقبل میں ان کے درمیان کوئی چپقلش ہوتی ہے تو کیا ریاست میں ‘ایڈلٹ فرنچائز’ کا مغربی تصور ہے؟ یا اس طرح کا کوئی نظام موجود ہے جہاں بچہ یا بچی کی ناراضگی کے بعد خاندان کے بعد ان کا کوئی اور ٹھکانہ ہو؟ یہاں پر خاندانوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کی یہ ذمے داری ہونی چاہیے کہ نکاح نامے میں شناختی کارڈ کے اندراج کو لازمی قرار دے تاکہ کوئی نکاح خواں شناختی کارڈ کے بغیر نکاح نہ پڑھائے۔

ڈاکٹر جمیل احمد چترالی نے کہا کہ یہ واقعہ سوشل میڈیا کے زیرِ اثر ہوا ہے اور یہاں دونوں بچوں کے والدین کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ غلطی ہوئی ہے۔ ان مثالوں سے ریاست کو سیکھنا پڑے گا کہ ایسے واقعات پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کی جائے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments