پیپلز پارٹی کے بارے میں چند میڈیائی مغالطوں کی تصحیح


میں نے اور میری جنریشن نے دیکھا تو نہیں لیکن پڑھا اور سنا ضرور کہ بھٹو صاحب کے خلاف پی این اے کی تحریک میں نظام مصطفی کا نعرہ لگاتے نو جماعتی اتحاد نے بھٹو صاحب کو ملک اور اسلام دونوں کے لیے خطرہ قرار دیا۔ ہم نے پڑھا اور مان لیا۔ پھر مارشل لا لگتا ہے اور بھٹو صاحب کو ایک متنازع عدالتی فیصلے کے نتیجے میں منظر سے ہٹا دیا جاتا ہے۔

پھر میں نے اور میری جنریشن نے خود دیکھا تو نہیں لیکن پڑھا اور سنا ضرور کہ بینظیر آ گئیں۔ بھٹو کی بیٹی آئی تو اسے بھی اس کے والد کی طرح غیر ملکی ایجنٹ، سکیورٹی رسک اور غدار کہا جانے لگا۔ ہاں اب ایک تبدیلی یہ بھی کر لی گئی تھی کہ اب اس الزام کی شدت میں اضافہ کرنے کے لیے وہی لوگ جو اس سے پہلے بھٹو کو ملک اور اسلام کے لیے خطرہ قرار دیتے تھے اب انھوں نے ہی کہنا اور کہلوانا شروع کر دیا کہ بھٹو تو عظیم رہنما تھا، پاکستان ہی نہیں مسلم امہ کا بھی لیڈر تھا لیکن لیکن لیکن لیکن یہ اس کی بیٹی غدار ہے، سکیورٹی رسک ہے اور غیر ملکی ایجنٹ ہے۔ یہ باتیں بھی میری جنریشن نے جب پڑھ اور سن لیں تو انہیں بھی سچ مان لیا اور ان پر بھی یقین کر لیا۔

اور پھر میں اور میری جنریشن جب کچھ بڑے ہوئے تو صرف پڑھنا اور سننا ہی نہیں بلکہ کچھ دیکھنا اور سمجھنا بھی شروع کر دیا اور بینظیر کے آخری دن تک یہی کہانی سنائی جا رہی تھی۔ اور پھر اسی دوران 27 دسمبر 2007 آ گیا اور بینظیر بھٹو کو بھی منظر سے ہٹا دیا گیا۔

اور اب اس سے آگے کی ساری باتیں سامنے کی ہیں اب بات پڑھنے اور سننے کی بجائے سامنے پیش آنے والے واقعات کو خود دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کی تھی۔ وہی لوگ جن کے میں نام تک گنوا سکتا ہوں جو یہ پروپیگینڈا کرتے تھے کہ بھٹو عظیم ہی نہیں عظیم ترین لیڈر تھا لیکن بینظیر غدار ہے، غیر ملکی ایجنٹ ہے، سکیورٹی رسک ہے اور عظیم بھٹو کی پارٹی کو تباہ کر رہی ہے وہی ہمیں بتانے اور سنانے لگے کہ صاحبو! بھٹو تو لافانی تھا ہی، مسلم امہ کا سرکردہ لیڈر تھا ہی، یہ جو بینظیر تھیں جو اب زندہ نہیں رہیں یہ بھی ایک انتہائی قابل خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم سیاسی رہنما بھی تھیں، بلکہ یہاں تک بتانے لگے کہ وہ تو بین الاقوامی سطح کی لیڈر اور اسٹیٹس وومن تھیں لیکن لیکن لیکن یہ زرداری اور بلاول غدار ہیں، کرپٹ ہیں اور انہوں نے بینظیر کی قابل رشک پارٹی تباہ کر دی ہے اور اس کے مخالفین سے اتحاد کر لیا ہے۔

لیکن اب چونکہ واقعات سامنے کے تھے اس لیے ان کے اس لیکن پر یقین کرنے کی بجائے ہم ٹھٹھکنے لگے۔ اب سمجھ میں آنے لگا کہہ بھٹو صاحب کی عظمت کی باتیں کرنے کی طرح مقصد اب بھی ان کا بینظیر بھٹو کی عظمت اور گلوری کو تسلیم کرنا نہیں بلکہ بلاول اور زرداری کو کم تر اور چھوٹا ثابت کرنا ہے۔ اب جو یہ باتیں سامنے نظر آنے لگیں تو اب ہم ان کی کون کون سی بات پر یقین کرتے، اور کیوں کیوں یقین کرتے جب ان کے تضادات ہم نے پڑھے اور سنے ہی نہیں بلکہ دیکھ بھی لیے ہیں۔ یہ کہانیاں میرے سے بعد والی جنریشن یا وہ جنریشن جس نے اپنی سیاسی آنکھ 2007 کے بعد کھولی وہ تو شاید سن اور پڑھ کے سچ مان لے میں اور میری جنریشن کیسے یقین کریں؟

آج کل اب پھر مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے سیاسی اتحاد کے حوالے سے یہی لوگ ہمیں اب نئی کہانیاں سنا رہے ہیں جیسے کہ یہ کوئی بہت ہی انہونی اور نئی بات ہو گئی ہے اور ہمیں بتاتے ہیں کہ محترمہ بینظیر اگر آج زندہ ہوتی تو ایسے نہ ہوتا۔ اب میں اس پر کیسے یقین کر لوں جبکہ مجھے تو بہت اچھی طرح یاد ہے اور کسی سے پوچھنے، سننے اور پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں جب میں خود اپنی آنکھوں سے محترمہ بینظیر بھٹو کو لندن میں میاں نواز شریف سے مل کر چارٹر آف ڈیموکریسی پر سائن کرتے دیکھتا ہوں جس کی رو سے دونوں رہنما 90 کی دہائی میں ہونے والی کھینچا تانی، ریشہ دوانی، کردار کشی اور اسلامی جمہوری اتحاد سمیت ماضی کی ساری باتوں کو پس پشت ڈال کے، ایک نیا آغاز کرتے ہیں اور اسے اپنی بہت بڑی سیاسی کامیابی قرار دیتے ہیں۔

جبکہ یہ ہمیں 2007 سے پھر پیچھے لے جانا چاہتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ بینظیر کی تو نازیبا تصویریں ہیلی کاپٹر سے پھینکی گئی تھی اور یہ کیا گیا تھا اور وہ کیا گیا تھا۔ اوہ بھائی بینظیر تو اپنی زندگی میں سیاسی لوگوں کو آپس میں لڑانے والے اس پروپیگنڈے کو رد کر کے ماضی کی ساری تلخیوں کو دفن کر کے چارٹر آف ڈیموکریسی سائن کے آگے بڑھ گئی تھیں اور آپ ہیں کہ پھر سے ہمیں اسی نوے کی دہائی میں لے جانا چاہتے ہیں کہ جہاں میاں نواز شریف صاحب اور محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی مخالفت شدید تھی اور ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا۔ اب آپ یہ پروپیگینڈا کر کے یہ کہانیاں سنا کے 2007 سے بعد میں سیاسی آنکھ کھولنے والوں کو تو یہ کہانیاں بیچ سکتے ہیں مجھے اور میری جنریشن کو نہیں۔

پھر یہ ہمیں ایک اور کہانی بتاتے ہیں کہ بلاول اور زرداری نے محترمہ بینظیر اور بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کو ختم کر دیا ہے۔ اور پیپلز پارٹی پر جو آج برا وقت ہے یہ پہلے کبھی نہیں آیا۔ میں جب یہ بات سنتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ یہ باتیں تو نئی نہیں ہیں یہ کہانی تو پہلے بھی سنائی جا چکی ہے جب ہمیں یہی بات یہ بینظیر صاحبہ کے بارے بھی تواتر سے سناتے آئے تھے کہ بینظیر بھٹو نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی عظیم پارٹی تباہ کر دی ہے بلکہ سرے سے ختم ہی کر دی ہے۔

یہ اب نہیں بتاتے کہ جب 1997 میں پیپلز پارٹی کو پورے پاکستان سے قومی اسمبلی کی صرف 18 نشستیں دی گئیں اور سندھ تک میں مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت بن گئی تو یہی پروپیگینڈا کیا گیا کہ دیکھیں جی بھٹو کی عظیم پارٹی کو بینظیر نے ہمیشہ کے لیے ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ لیکن یہ کبھی نہیں بتاتے کہ صرف پانچ سال بعد وہی 18 سیٹوں والی پیپلز پارٹی اسی بینظیر کے باوجود ملک سے باہر ہونے کے الیکشن 2002 میں قومی اسمبلی کی 79 سیٹیں جیت گئی۔ اور پھر پانچ سال بعد 2007 میں تو مرکز سمیت سندھ میں حکومت بھی اسی پیپلز پارٹی کی تھی۔

اب آج کل پھر سے وہی پروپیگینڈا دوبارہ اسی موسیقی اور ردھم کے ساتھ سنایا جا رہا ہے لیکن اب میں ایک اور تان کا اضافہ کر دیا گیا ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی وہ پیپلز پارٹی جسے بینظیر بھٹو نے ایک حقیقی وفاقی پارٹی بنا دیا تھا اسے بلاول اور زرداری نے ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ اس نئی تان کے اضافہ کرنے کا بھی مقصد بینظیر صاحبہ کو کریڈٹ دینا نہیں بلکہ بلاول اور زرداری کو مطعون کرنا ہے۔ یہ لوگ یہ کبھی بھی نہیں بتاتے کہ اس پارٹی نے اگر 1997 میں محض 18 سیٹیں لی تھیں اور ختم ہونے کی بجائے 2007 میں پھر سے ابھر کر وفاق اور سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی تو 2013 میں تو اس کی سیٹیں 18 نہیں بلکہ 42 تھیں اور 2018 میں یہ قومی اسمبلی کی سیٹیں بڑھ کر 56 ہو گئی تھیں۔

اور دونوں مرتبہ سندھ میں حکومت بھی یہی پیپلز پارٹی بنانے میں کامیاب رہی تو کیسے یہ پارٹی ختم ہو گئی ہے؟ آج یہی 56 سیٹوں والی پارٹی مرکز میں مخلوط حکومت کی دوسری بڑی پارٹنر بھی ہے اور سندھ میں اس کی پوزیشن اور بھی مستحکم ہے۔ تو یہ لوگ کیسے یہ گمراہ کن پروپیگینڈا کر لیتے ہیں کہ بلاول اور زرداری نے پارٹی ختم کر دی ہے۔ یہ لکھ کے رکھ لیجیے کہ کل کلاں کو پارٹی کی قیادت جب کسی اور کے ہاتھ میں ہو گی تو پھر یہ آصف زرداری کو بھی سیاست کے بادشاہ کا خطاب دے کر نئے پارٹی سربراہ کو پارٹی کے تباہ کرنے کا ذمہ قرار دینے کے پراپیگنڈے کے مشن پر کاربند ہوں گے۔

پرانی باتیں تو پرانی ہوئی کہ کچھ سنی سنائی تھیں اور کچھ پڑھ رکھی تھیں تو ہم نے مان لیں، اب ہمارے سامنے ہونے والے واقعات کے بارے میں تو ہمیں کہانیاں نہ سنائیں۔ پیپلز پارٹی ایک سیاسی پارٹی ہے، اور پیپلز پارٹی ہمارے سیاسی سسٹم میں ایک حقیقت ہے اس کر ہی لیجیے تسلیم اب۔ ہاں باقی تمام سیاسی پارٹیوں کی طرح اس کے مسائل بھی ہیں، گورننس کے حوالے سے بیشک کھل کے بات کیجئے، کارکردگی کے حوالے سے بیشک سوالات پوچھیے لیکن اب یہ بے تکی کہانیاں تو نہ سنائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments