خوں آشام


آج پھر رجو کی کمبختی آئی تھی۔ شاید کوئی برتن اس سے ٹوٹ گیا تھا تبھی اس کی بھابھی اسے صلواتیں سنا رہی تھی۔ میں چینی کے پیالے میں گدلی سی رنگت والی چائے میں گول پاپے ڈبو ڈبو کر کھاتا رہا۔ میرے لیے یہ آئے دن کے معمول کی بات تھی۔ سامنے کمرے کے دروازے سے جھلنگا سی چارپائی پر اماں سوتی نظر آ رہی تھی۔ ہر تھوڑی دیر بعد اس کا داہنا ہاتھ کالے سفید مٹیالے بالوں میں جاتا، رینگتا پھر وہ چٹکی میں دبا کر کچھ نکالتی اور زمین پر چھوڑ دیتی۔ میرے دل کو خیال کی ایک لہر نے چھوا ”کیا اب سوتے میں بھی“ ۔

یہ خیال نہیں ایک اذیت تھی جو میرے وجود میں بھر گئی تھی پیالے میں دو گھونٹ چائے بچی تھی باقی جائے تو پاپے پی گئے تھے۔ میں نے جلدی سے وہ دو گھونٹ اپنے اندر انڈیل لیے۔ کھرے میں نل کے نیچے چائے کے برتن دھو کر میں گھر سے باہر نکل آیا۔ ساتھ والے گھر کا آدھا دروازہ کھلا تھا۔ بڑی سی پرات میں رجو سموسوں کے لیے میدہ گوندھ رہی تھی۔ وہ روزانہ ڈھیروں سموسے بناتی تھی جو اس کا بھائی لنڈے بازار میں بیچتا تھا۔ پانی اور میدہ یکجان کرتے اس کے پینتیس سالہ بدن میں مسلسل ایک حرکت سی تھی۔

نہ جانے اسے دیکھ کر آج میرے قدم کیوں رکے تھے۔ وہ سانولی رنگت اور معمولی نین نقش والی لڑکی تھی۔ ”لڑکی“ ۔ ہاں اسے لڑکی ہی کہیں گے کیونکہ عورت تو شادی شدہ کو کہتے ہیں۔ عمر تو میری بھی پینتیس برس ہی تھی پر مجھے کوئی لڑکا نہیں کہتا تھا۔ حالانکہ نہ تو میں شادی شدہ تھا اور نہ ہی بغیر شادی شدہ۔ میری نگاہوں کا ارتکاز پا کر رجو کا ہلکورے لیتا بدن ساکت ہو گیا۔ اس نے حیرت بھری نظروں سے مجھے دیکھا میں آگے بڑھ گیا۔ عمر پندرہ ہو یا پینتیس عورت کی نظر بجلی کی طرح دل پر لپکتی، جھپکتی، جلاتی اور تڑپاتی ہے۔ لیکن میں اس کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔

پکھی واسیوں کے جھونپڑوں کے سامنے ان کے آدھ ننگے بچے کینچے کھیل رہے تھے۔ آخر انسان بچہ ہی کیوں نہیں رہتا۔ ان بچوں کا بے فکرا پن دیکھ کر یہ احساس روز میرے دل میں جاگتا تھا۔ مائی سکینہ کے گھر سے دال سیو کا تھال اور چھابڑی لے کر میں گورنمنٹ سکول کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ کاندھے پر پڑے بڑے سے رومال سے میں تھال پر بیٹھنے والی مکھیاں اڑاتا جاتا تھا۔ نا جانے کیوں آج مجھے اپنا جسم اور روح دولخت ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ اکثر عورتوں کے ہلکورے لیتے بدن دیکھ کر مجھ پر یہ کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ میرے چند سنگی ساتھی مجھ سے کہتے تھے ”بھورے تو شادی کر لے“ ۔ مگر اماں کہتی تھی ”ناں، شادی نا کریو، ورنہ میری جوئیں تیری بیوی کو کھا جائیں گی“ ۔ اس بات پر میری روح تڑپ جاتی تھی پر شاید وہ ٹھیک کہتی تھی۔

***********

تیسری دنیا میں بسنے والے پچھتر فیصد غریب غربت سے جنگ لڑتے لڑتے ہی مر جاتے ہیں۔ اسی غربت میں وہ خوش ہونے کے چند پہلو بھی ڈھونڈ لیتے ہیں جیسے مہینوں میں کوئی اچھی چیز کھا لی، سال میں ایک آدھ نیا جوڑا بنا لیا، شادی بیاہ اور بچوں کا پیدا ہونا بھی ان کی خوشی ہوتا ہے۔ میں نے بھی ایسی ہی غربت میں آنکھ کھولی تھی۔ بہت بچپن میں ہی ابا ایک حادثے کی نذر ہو گئے اماں ایک سیدھی سادی عورت تھی۔ دنیا کی چالاکیوں نے بہت جلد اس کا ذہنی توازن متاثر کر دیا لیکن ایک بگڑے ہوئے دماغ والے انسان کو سنبھالنے والے بھی کب متوازن ہوتے ہیں۔

باوجود خواہش کے میں شادی نہیں کر سکا۔ شروع شروع میں اماں کو سنبھالنا اتنا مشکل نہیں تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ دشوار ہوتا گیا وہ محلے والوں سے الجھ پڑتی تھی۔ کبھی بلا وجہ ہی گلی سے گزرتے بچوں کی پٹائی کر دیتی۔ دن کا کھایا رات کو بھول جاتی۔ اکثر قبرستان میں جا بیٹھتی تھی لیکن جب سے اس کے سر میں جوئیں پڑیں اس نے گھر کا کونا سنبھال لیا تھا۔ ہفتہ ہفتہ بھر نہاتی نہیں تھی صحن اور کمرے کے بیچ چکر لگانا شروع کرتی تو پھر گھنٹوں گھنٹوں سر کھجاتے ہوئے چکر پر چکر لگاتی رہتی۔ موٹے موٹے کالے جوئیں نکالتی اور زمین پر مارتی رہتی۔

میں نے بڑی کوشش کی کہ اس کا سر صاف کردوں پر نجانے کیا بات تھی کہ جتنے جوئیں میں اس کے سر سے نکالتا اگلے دن پھر سر میں جوں کا ڈھیر موجود ہوتا۔

لوگ کہتے تھے کہ اسے گنجا کردو۔ لیکن میری کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ میں اس کے سر پر استرا چلا پاتا۔ ایسے میں کون عورت میرے ساتھ بندھنا پسند کرتی۔ کچھ یہ احساس بھی دل میں گھر کر گیا تھا کہ سوائے تکلیف اور محرومی کے اور کیا دے سکوں گا دو وقت کی روٹی اور تن ڈھانپنے والے ایک جوڑے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے اس لیے گورنمنٹ سکول کے سامنے کچھ دیر کو چھٹی کے وقت دال سیو کا تھال سنبھال لیتا تھا لیکن اس قلیل آمدنی میں کسی کے ارمان نہیں پالے جا سکتے تھے۔

جوان، کنواری، شادی شدہ اور کبھی کبھار تو ادھیڑ عمر عورتوں کو دیکھ کر بھی دل میں ہوک اٹھتی تھی پر جب اماں کو دیکھتا تو وہ ہوک آہ میں بدل جاتی۔ کتنی کتنی دیر میں اماں کو تکتا رہتا اور وہ میرے سامنے سر سے جوئیں نکال نکال کر زمین پر ڈھیر لگائے جاتی تھی۔ موٹی موٹی جوئیں زمین پر چیونٹیوں کی طرح رینگتی رہتی تھیں۔

پہلے پہل اماں سختی سے بات مان لیتی تھی لیکن گزرتے وقت نے اسے ضدی اور چڑچڑا بنا دیا تھا۔ میری درخواست پر اکثر محلے کی عورتیں اسے نہلانے آجاتی تھیں مگر وہ سب سے لڑنے لگتی شاید اسے پانی سے خوف آنے لگا تھا۔ کئی بار سوچا میں خود ہی اماں کو نہلا دیتا ہوں۔ مسجد کے امام صاحب نے ایک روز بتایا تھا کہ حضرت اویس قرنی بھی اپنی بینائی سے محروم ماں کو خود ہی نہلاتے تھے لیکن میں یہ کبھی نہ کر سکا۔ اب تو اس نے مجھ سے بات بھی کرنی چھوڑ دی تھی شاید جوئیں اسے مجھ سے زیادہ اپنی لگتی تھیں وہ انہیں میں مگن رہتی تھی۔ سکول سے واپسی پر میں کھانا لے آتا تھا رات میں بھی وہی بچا ہوا گرم کر کے اماں کو کھلا دیتا پھر چھت پر بنے چھوٹے سے سٹور نما کمرے میں نیواڑی پلنگ پر لیٹ کر گھنٹوں کسی عورت کے تصور کو دل سے لگائے رکھتا۔

*********

زندگی شاید انہی خیالوں میں بیت جاتی پر ایک رات بوسیدہ دروازے پر ہونے والی دستک نے میری زندگی بدل دی۔ گہری اندھیری رات میں جب میں نے دروازہ کھولا تو سامنے رجو کھڑی تھی۔ اس کی روئی روئی آنکھیں اور تمتماتا چہرہ بتا رہا تھا کہ آج پھر اس کی بھابھی اس سے لڑی تھی۔ نا جانے کس مٹی سے بنی تھی اس کی بھابھی سارا کام رجو سے کرواتی اور خود ہر سال بچے پر بچہ پیدا کیے چلی جا رہی تھی۔ میرے خیال میں غریب کو غریب تر بنانے میں ایسی عورتوں کا بڑا ہاتھ تھا۔

خیر اس وقت تو میں رجو کو دروازے پر کھڑا دیکھ کر حیران ہوا تھا میری حیرت کو خاطر میں نا لاتے ہوئے وہ مجھے ایک طرف سرکا کر اندر آ گئی۔ میں اس صورتحال کے لیے تیار نہ تھا۔ اس کا بھائی میرا پڑوسی تھا آج تک اس سے میری توتو میں میں نہیں ہوئی تھی مگر اس وقت وہ اپنی بہن کو میرے گھر دیکھ لیتا تو قیامت برپا کر سکتا تھا۔

” رجو، تو۔ تو اس وقت یہاں کیوں آئی ہے“ ۔
وہ بھی گھبرائی ہوئی تھی۔ کچھ دیر اپنی انگلیاں مروڑتی رہی پھر بڑی لجاجت سے بولی۔

” میری کچھ مدد کرے گا بھورے۔ میں بڑی پریشان ہوں۔ تو تو جانتا ہے بھابھی نے جینا حرام کر رکھا ہے طعنے، کوسنے اور جوتیاں کھا کھا کر میری بس ہو گئی ہے اب اور ذلت نہیں سہی جاتی۔ مجھے اپنے گھر میں پناہ دے دے“ ۔

میرا اوپر کا سانس اوپر نیچے کا نیچے ہی رہ گیا۔
” یہ تو کیا کہہ رہی ہے۔ میں تجھے یہاں کیسے پناہ دے سکتا ہوں تیرا بھائی جان سے مار دے گا مجھے“ ۔
خوف سے میری گھگھی بندھی ہوئی تھی۔ وہ کچھ دیر چپ رہی پھر ذرا سنبھل کر بولی۔

” تو۔ تو نکاح کر لے مجھ سے۔ میں تیرا گھر سنبھال لوں گی۔ تجھے روز سموسے بنا کر دوں گی۔ اماں کو سنبھال لوں گی۔ اس کے سر سے سارے جوئیں نکال دوں گی“ ۔

وہ مجھے حیرت کے سمندر میں غوطہ زن چھوڑ کر اس بات پر سوچنے کا کہہ کر چلی گئی۔ مجھے عورت کی ضرورت تھی اور عورت خود چل کر میرے پاس آ گئی تھی۔ لیکن جس بات نے مجھے فیصلہ لینے پر مجبور کیا وہ اس کا اماں کو سنبھال لینے کا وعدہ تھا اس کی جوئیں نکال کر سر صاف کر دینے کا وعدہ تھا۔ میں یہ سوچ کر خوش ہوتا رہا کہ کوئی اماں کو سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔ اگلے ہی دن میں نے محلے کی دو چار سمجھدار عورتوں کو رجو کے بھائی کے پاس بھیج دیا۔ اس کی بھابی سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو ہاتھ سے نا جانے دیتی کبھی بھی لیکن شاید اس کے بھائی کے دل میں خدا نے نیکی ڈال دی تھی۔

دو دن بعد ہی سر پر لال دوپٹہ ڈالے رجو دیوار کے اس پار سے اس پار آ گئی۔ اس رات میں نے خیالی اور حقیقی عورت کے فرق کو جانا۔ پینتیس سالہ معمولی نین نقش والی عورت کو پاکر میں دنیا کا سب سے خوش نصیب شخص بن گیا تھا۔ اگلے دن رجو نے بھی اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ جالے صاف کیے، پھٹے پرانے بستر جھاڑے، ٹوٹا پھوٹا فرش بھی دھو ڈالا۔ گھر دلہن کی طرح لگنے لگا پھر اس نے پانی گرم کیا اور ماں کو کھینچتی ہوئی غسل خانے میں لے گئی۔

اماں اسے مارتی رہی نوچتی کھسوٹتی رہی پر رجو سخت محنت کی عادی ہو گئی تھی۔ کسی نا کسی طرح اماں کو قابو کر کے نہلا ہی دیا اور اماں کے چیخ چیخ کر رونے کی پرواہ نہ کی۔ سالوں کا میل اماں کے بدن سے اتر گیا مگر چکڑے ہوئے لیکھوں کی ریت سے بھرے بال صاف نہ ہو سکے ایسا لگتا تھا جیسے میل کے ساتھ ساتھ اماں کی ضد بھی اتر گئی ہے اس نے ہاتھ پیر چھوڑ دیے تھے پھر بھی میں نے رجو کے کہنے پر اماں کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیے اور اس نے اماں کے سر پر استرا چلا دیا۔

ہزاروں جوں سے بھرے بالوں کو اماں حسرت سے دیکھتی رہی اور بنا آواز سسکتی رہی۔ بنا بالوں والی اماں کو دیکھ کر میرا کلیجہ منہ کو آنے لگا پر مجھے یقین تھا کہ اب اماں کی زندگی میں سکون اجائے گا۔ گھنٹہ دو گھنٹہ رو دھو کر اماں چپ ہو گئی۔ میں خوش تھا جب اماں رات کو سکون سے سو گئی لیکن دکھ سے میرا دل پھٹنے لگا جب اماں دن چڑھے بھی سکون سے سوتی رہی بلکہ وہ تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سکون کی نیند سو گئی تھی۔ گزرے کل میں اماں کی جوئیں قبرستان میں دبا آیا تھا اور آج اماں کو بھی ان کے پاس ہی دبا آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments