رشی کپور اور عرفان خان


عرفان، رشی سے پندرہ سال چھوٹے تھے اور جب رشی پچاس سے زیادہ فلموں میں کام کرچکے تھے اس وقت 1980 کے عشرے کے وسط میں عرفان ابھی بھارت کے نیشنل اسکول آف ڈراما میں طلب علم تھے۔ شاید یہ فلموں کی کثیر تعداد ہی تھی جس نے رشی کو بڑے شاہ کار تخلیق کرنے نہ دیا۔

ٹی وی کا ڈراما ”شری کانت“ عرفان کے لیے پہلا بڑا کردار لایا۔ اگر آپ بنگالی ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں اور ”دیو داس“ کے مصنف شرت چندر چیٹر جی کا ایک اور شاہ کار دیکھنا چاہتے ہیں تو شری کانت انٹرنیٹ پر دست یاب ہے اسے ضرور دیکھیں۔

اداکاری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عرفان کو میرا نائر کی فلم ”سلام بمبئی“ میں کردار ملا مگر اس سے میرا نائر زیادہ متاثر نہ ہوئیں اور ان کے کردار کا دورانیہ فلم میں کم کر دیا بل کہ تقریباً نہ ہونے کے برابر گھٹا دیا۔ پھر عرفان ٹی وی ڈراموں میں آتے رہے۔ مثلاً انہوں نے اردو کے معروف شاعر مخدوم محی الدین کا کردار ادا کیا جسے ٹی وی کے لیے علی سردار جعفری نے لکھا تھا۔ دراصل جعفری 1990 کے عشرے کے اوائل میں اردو کے معروف شعراء پر دور درشن کے لیے کئی ڈرامے لکھے تھے۔ مگر یہ سیریل کوئی خاص متاثر کن نہیں تھی اور خراب پروڈکشن تھی۔

پھر کوئی دس سال تک عرفان ٹی وی پر ہی اٹکے رہے اور فلم میں کوئی قابل قدر کردار حاصل نہ کرسکے۔ بھارتی ہدایت کاروں نے انہیں اس وقت سنجیدگی سے لیا جب لندن میں رہنے والے ایک ہدایت کار آصف کپاڈیا نے عرفان کو اپنی فلم

” THE WARRIOR“

یعنی جنگ جو میں کام دیا۔ اس فلم کو بہترین فلم کا بافٹا ایوارڈ ملا اور عرفان بھی بڑے اداکاروں میں شمار ہونے لگے۔

ان کی اگلی بڑی فلم ”حاصل“ تھی جو 2003 میں پردے پر آئی۔ یہ فلم طلبا سیاست کے بارے میں ایک اوسط درجے کی فلم تھی مگر اس میں عرفان نے زبردست کردار نگاری کی جس پر انہیں پہلا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ اب وہ اپنی جگہ بنا رہے تھے۔

پھر میرا نائر نے ان کے ساتھ کی جانے والی نا انصافی کی تلافی اس طرح کی کہ انہیں اپنی فلم ”نیم سیک“
( THE NAME SAKE )
میں مرکزی کردار دیا

یہ فلم جھمپا لاہری کے ناول پر مبنی تھی اور اسے کئی بین الاقوامی ایوارڈ ملے۔ اس میں ساتھی اداکارہ تبو نے بھی اچھی اداکاری کی۔

2007 میں عرفان کی اگلی دو فلمیں آئیں جو ”لائف ان میٹرو“ اور ”اے مائٹی ہارٹ“ تھیں۔ دونوں فلمیں کئی مرتبہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ خاص طور پر لائف ان میٹرو بڑی شاندار فلم ہے۔ مائٹی ہارٹ میں عرفان نے انجلینا جولی کے مقابل اچھا کام کیا۔ 2008 میں ہدایت کار ڈینی بوائل کی فلم ”سلم ڈاگ ملینیر“ آئی جسے آسکر ایوارڈ بھی ملے۔ یہ فلم وکاس سوروپ کے ناول پر مبنی ہے اور اسی نے عرفان کو بین الاقوامی مقبولیت عطا کی۔

پھر 2009 میں فلم ”بلو“ آئی جو ہلکی پھلکی کامیڈی ہے اور جس میں عرفان نے بلو نامی نائی کا کردار ادا کیا جو شاہ رخ خان کا دوست ہونے کا دعوے دار ہے۔

اس فلم کو ایک بار دیکھا جاسکتا ہے۔

پھر 2012 میں عرفان نے دو اچھے کردار ادا کیے ایک ”پان سنگھ طومار“ اور دوسرے آسکر ایوارڈ یافتہ ”لائف آف پائی“ میں۔

پان سنگھ طومار بلا شبہ ایک شاہ کار فلم ہے جسے کئی بار دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسے کھلاڑی کی سحر داستان ہے جس نے اپنے ملک بھارت کے لیے کئی بین الاقوامی تمغے جیتے مگر جسے بعد میں خود اپنے ملک میں تذلیل و توہین کا سامنا کرنا پڑا۔ جب وہ اپنے گاؤں واپس جاتا ہے تو ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی زمین پر رشتے دار قبضہ کرلیتے ہیں اور پولیس بدعنوانی کے باعث سے کچھ نہیں کرتی۔ اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور وہ جو چند سال پہلے ملک کا ایک بڑا کھلاڑی تھا اچانک خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ جب اس کی ماں قتل کردی جاتی ہے تو وہ بھاگ کر ڈاکو بن جاتا ہے۔ پھر یہ بدنام زمانہ ڈاکو بن کر اپنا بدلہ لیتا ہے۔ اس فلم میں شان دار اداکاری پر عرفان کو دوسرا فلم فیئر ایوارڈ ملتا ہے۔

2013 میں فلم ”لنچ بکس“ 2014 میں فلم ”حیدر“ 2015 میں ”پیکو“ اور 2017 میں فلم ہندی میڈیم ”نے خوب جھنڈے گاڑے۔ لنچ بکس بڑی متاثر کن فلم ہے جسے کئی ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈ ملے۔ حیدر کشمیر کے بارے میں ہے اور اس کی جدوجہد آزادی کو اچھی طرح پیش کیا گیا ہے۔

فلم پیکو ایک ایسے بزرگ آدمی کے بارے میں ہے جو اپنی بیٹی کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے حالانکہ جو اس کا بہت خیال رکھتی ہے۔ اس فلم میں عرفان نے امیتابھ جیسے منجھے ہوئے اداکار کے سامنے بھرپور کردار نبھایا ہے۔ فلم ہندی میڈیم نچلے، درمیانہ طبقے کے بارے میں ہے جو بالائی طبقے میں شامل ہونا چاہتا ہے مگر انگریزی سے نابلد ہے۔

اس فلم میں ہماری اپنی پاکستانی اداکارہ صبا قمر نے بھی یادگار اداکاری کی ہے۔ عرفان کی اہلیہ کے کردار میں وہ اپنے شوہر کو مسلسل تنگ کرتی ہے کہ وہ اپنے طور طریقے امیروں والے اپنائے۔ ہندی میڈیم کچھ زیادہ طویل ہے اور آخری آدھے گھنٹے میں تو بہت بور کر دیتی ہے مگر عرفان اور صبا کی اچھی اداکاری اس میں جان ڈالے رکھتی ہیں۔ اس فلم کو ایک بار دیکھا جاسکتا ہے۔

عرفان کی آخری فلم انگریزی میڈیم تھی جب وہ سرطان جیسے موذی مرض کا شکار ہوئے۔ پھر صرف ترپن سال کی عمر میں عرفان اس دنیا سے گزر گئے۔ ان کا آخری پڑھنے والا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

” میں ایک مختلف کھیل میں تھا۔ میں ایک تیز رفتار ریل گاڑی میں سفر کر رہا تھا۔ خواب دیکھتا اور منصوبے بناتا تھا۔ میرے ارمان تھے خواہشات جن میں پورا ڈوبا ہوا تھا۔ اور پھر اچانک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ لگایا میں نے مڑ کر دیکھا تو ٹکٹ دیکھنے والا تھا جو بولا“ آپ کی منزل آنے والی ہے۔ جلد اتر جائیے گا ”اب میں پریشان ہوں اور کچھ نہیں سمجھتا۔ پھر کہتا ہوں“ نہیں نہیں ابھی میری منزل تو نہیں آئی ”لیکن پھر پتا چلتا ہے میری منزل آ چکی ہے۔ کچھ لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔“

اس اچانک انکشاف سے مجھے معلوم ہوا کہ آپ سمندر میں ایک ڈاٹ کی طرح بہہ رہے ہیں جس کی موجیں غیر متوقع طور پر حرکت کرتی ہیں جنہیں آپ قابو کرنے کی بے پناہ کوشش کرتے ہیں۔

”مگر اس گڑبڑ میں آپ خوف زدہ بھی ہیں اور صدمے سے دوچار بھی۔ پھر آپ گھبرا جاتے ہیں۔ ہسپتال کے چکر لگاتے ہوئے اپنے بیٹے سے کہتے ہیں بل کہ بڑبڑاتے ہیں خود سے واحد توقع یہ کرتا ہوں کہ اس بحران اس حالت میں نہ کروں۔ میں اپنے پیر ڈھونڈتا ہوں۔ خوف اور گھبراہٹ مجھ پر طاری نہیں ہونی چاہیے جس سے میری حالت قابل رحم ہو جائے۔ اے کاش ایسا نہ ہو“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments