رشی کپور اور عرفان خان


بھارتی فلمی صنعت میں کام شروع کرنے سے پہلے رشی اور عرفان کے خاندانی پس منظر بالکل مختلف تھے۔ رشی کو فن کی دنیا میں اپنے باپ دادا سے ایک بڑی طویل اور قابل قدر وراثت ملی تھی۔ یہ خاندان رشی کے فلمی دنیا میں آنے سے پہلے ہی کم از کم پچاس سال بھارتی سنیما پر راج کرچکا تھا۔

بیسویں صدی کے آغاز سے ہی رشی کپور کے دادا پرتھوی راج تھیٹر اور خاموش فلموں کے بڑے اداکار بن چکے تھے۔

اس کے مقابلے میں عرفان خان بالکل نووارد تھے جن کے فلمی دنیا میں کوئی خاندانی تعلقات نہیں تھے۔ عرفان خان کے پاس اداکاری کی صرف ایک سند تھی اور ایک شدید جذبہ تھا جو نہیں اداکار بننے پر مائل کر رہا تھا۔ عرفان خان کو فلمی دنیا میں اپنا راستہ خود بنانا تھا اور اس کے لیے ان کے پاس صلاحیت بھی تھی اور مستقل مزاجی بھی۔

عرفان خان کو اپنے پہلے بڑے کردار میں نمودار ہونے سے قبل کوئی پندرہ سال بڑی محنت کرنی پڑی پھر اگلے پندرہ سال ان کی کردار نگاری ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پہچانی گئی اور اسے پذیرائی ملی۔

یہ عرفان خان کی اعلی معیاری کارکردگی ہی تھی جس سے وہ ایک بڑے فلمی ستارے کی بجائے ایک با صلاحیت اداکار کے طور پر جانے گئے۔

رشی کپور شروع ہی دن سے ایک فلمی ستارے کے طور پر ابھرے، اداکاری ان کے خون میں شامل تھی اور اپنے بزرگوں کی رہ نمائی میں وہ ایک بنی بنائی سڑک پر دوڑتے چلے گئے۔ شروع سے ہی فلمی اخبارات و رسائل رشی کے مددگار تھے اور انہیں کپور خاندان کا اگلا ستارہ قرار دے رہے تھے۔ ایک ایسا ستارہ جو پچھلے ستاروں کو ماند کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ ان کے والد راج کپور نہ صرف رشی کی پہلی فلم کے ہدایت کار و فلم ساز تھے بل کہ انہیں پہلا مرکزی کردار دینے والے بھی تھے۔ راج کپور نے ہی 1973 میں رشی کی پہلی فلم بوبی کے لیے میڈیا میں زبردست مہم چلائی۔ صرف 21 سال کی عمر میں رشی دلوں پر راج کرنے والے فلمی ستارے بن رہے تھے۔

خاص طور پر جوان ناظرین اور فلم کے شیدائی جلد ہی رشی کپور کے دیوانے ہو گئے۔ اس وقت عرفان صرف چھ سال کے تھے۔

بوبی ایک سیدھی سادھی محبت کی کہانی ہے جس نے کھڑکی توڑ کمائی کی۔ ایسا کیسے ممکن ہوا یہ سمجھنے کے لیے ہمیں راج کپور کی پچھلی ناکام فلم میرا نام جوکر پر بات کرنی ہوگی جو 1970 میں پردے پر آئی۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جس میں کہانی کار خواجہ احمد عباس اور فلم ساز راج کپور کی تمام تخلیقی صلاحیتیں بروئے کار لائی گئیں مگر عوام نے ”میرا نام جوکر“ کو مسترد کر دیا۔ وہ اس فلم کی عظمت کو سمجھ ہی نہیں پائے اور نہ اس میں موجود پیغام کی پذیرائی کرسکے۔

خواجہ احمد عباس ایک پرانے قلم کار تھے جن کی ترقی پسندی بلاشبہ مہان تھی جب کہ راج کپور اپنی زندگی کی بہترین فلم خواجہ احمد عباس کی کہانی پر بنانا چاہتے تھے۔ دونوں اپنے ناظرین کو تفریح اور تعلیم دینا چاہتے تھے مگر اس کوشش میں ناکام رہے خاص طور پر شروع کے برسوں میں ایسا لگا۔ بعد میں میرا نام جوکر کو سراہا گیا۔

اس طرح خود سماج اپنے تخلیقی لوگوں کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو تجارتی پیمانے پر بیچنے کے لیے مجبور ہوجائیں ”میرا نام جوکر“ کو بنانے میں چھ سال لگے تھے اور اس میں بھارتی فلمی صنعت کے بڑے نام شامل تھے اور اس پر بڑی رقوم خرچ کی گئی تھیں۔ اس کی ناکامی کے بعد خواجہ احمد عباس اور راج کپور ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھے اور ایک کم خرچ فلم بنا ڈالی جو روایتی گھسے پٹے جذباتی میلو ڈرامہ پر مبنی تھی جسے امیر غریب کی محبت کا پرانا خیال لیا گیا اور فلم جھٹ پٹ بنائی گئی۔

اس فلم نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے اور 1970 کے عشرے کی کامیاب ترین فلموں میں شمار کی گئی جس کا ریکارڈ 1975 میں ”شعلے“ فلم نے توڑا۔ اس میں سولہ سال کی کومل اداکارہ ڈمپل کپاڈیا تھیں اور گول مٹول سے رشی کپور جنہوں نے فلم ”بوبی“ کے ذریعے راج کپور کے پچھلے سارے نقصان پورے کر دیے۔

1970 کے عشرے میں کراچی میں رہتے ہوئے راقم الحروف اسکول کا طالب علم تھا اور آتے جاتے بسوں اور ہوٹلوں میں بوبی کے گانے سنتا تھا۔ جھوٹ بولے کوا کاٹے، ہم تم ایک کمرے میں بند ہوں، میں شاعر تو نہیں اور مجھے کچھ کہنا ہے جیسے گانے آنند بخشی نے لکھے تھے اور موسیقی لکشمی کانت پیارے لال کی تھی۔ یہ نغمے نوجوان کو ایک سحر میں مبتلا کر دیتے تھے۔ ہمارے گھر پہلا ٹیپ ریکارڈر 1976 میں آیا اور ہم آڈیو کیسٹوں پر یہ گانے سننے لگے۔

اس فلم کے لیے راج کپور نے نیتو سنگھ پر ڈمپل کو ترجیح دی تھی۔ نیتو سنگھ اس وقت صرف پندرہ سال کی تھیں اور بعد میں رشی کپور کی اہلیہ بنیں۔ اس کے بعد ڈمپل نے حیرت انگیز طور پر اس دور کے سب سے بڑے سپر اسٹار راجیش کھنہ سے شادی کرلی جو ڈمپل سے عمر میں دگنا بڑے تھے۔ شادی کے بعد ڈمپل نے اپنا ممکنہ طور پر شاندار فلمی مستقبل اگلے پندرہ سال کے لیے قربان کر دیا اور پھر طلاق کے بعد دوبارہ فلموں میں کام شروع کیا مگر ان کی نوجوانی کا دور گزر چکا تھا۔

فلم بوبی میں رشی کپور اور ڈمپل کپاڈیا کو بہترین اداکاری کے فلم فیئر ایوارڈ ملے مگر بعد میں رشی کپور نے اعتراف کیا کہ اس ایوارڈ کے لیے کچھ رشوت بھی ادا کی گئی تھی۔ یاد رہے ان کے مقابلے میں زنجیر فلم میں امیتابھ بھی ایوارڈ کے امیدوار تھے۔

اس کے بعد رشی کپور نے چند کام یاب فلموں میں کام کیا اور پھر 1976 میں رنجیتا کور کے ساتھ ان کی ایک اور بہت کام یاب فلم لیلیٰ مجنوں آئی۔ اس فلم کی کامیابی کا سہرا رشی کپور کے ساتھ ایک نئے جگمگاتے چہرے رنجیتا کور کو بھی جاتا تھا۔ اس فلم لیلیٰ مجنوں کے بہترین ڈائیلاگ ابرار علوی نے لکھے تھے جو اس سے قبل 1957 میں گرو دت کے لیے ”پیاسا“ جیسی شاہ کار فلم لکھ چکے تھے اور 1962 میں ایک اور شاہ کار فلم ”صاحب بی بی اور غلام“ کے ڈائیلاگ لکھے اور ہدایت کاری کی۔ گو کہ اس کے فلم ساز گرو دت تھے اور ہدایت کاری میں بھی ان کا بڑا حصہ تھا۔

” صاحب بی بی اور غلام“ میں گرو دت اور مینا کماری کو بہترین اداکاری کے فلم فیئر ایوارڈ ملے تھے جب کہ ابرار علوی کو بہترین ہدایت کاری پر یہ ایوارڈ دیا گیا تھا۔

فلم لیلی مجنوں نے بالآخر رشی کپور کو ایک بہترین اداکار کے طور پر منوا ہی لیا اور ان کی شہرت بھارت سے نکل کر بیرون ملک تک پہنچ گئی۔ خاص طور پر سوویت یونین میں ان کی فلمیں خاص مقبول ہوئیں اور وسطی ایشیا کے علاقوں میں تو بہت زیادہ شہرت ملی۔

یاد رہے کہ وسطی ایشیا میں نظامی گنجوی کی مثنوی ”لیلیٰ مجنوں“ کلاسیکی ادب کا حصہ ہے کیوں کہ نظامی گنجوی شہر ”گنجہ“ کے رہنے والے تھے جو اس وقت آذر بائی جان میں واقع ہے۔ نظامی گنجوی بارہویں صدی عیسوی سے ان علاقوں میں گھر گھر پڑھے جاتے ہیں۔ اس لیے رشی کپور کی فلم لیلیٰ مجنوں بہت کامیاب رہی۔

اس کے بعد رشی کپور کے حصے میں کئی فلاپ فلمیں آئیں پھر یہ صورت حال 1977 میں تبدیل ہوئی جب فلم ”امر اکبر انتھونی“ اور ”کبھی کبھی“ میں انہوں نے اہم کردار ادا کیے گو کہ ان فلموں میں امیتابھ بچن، ششی کپور، ونود کھنہ کے ساتھ رشی کپور زیادہ کھل کر اداکاری نہ کرسکے پھر بھی یہ فلمیں خاص کام یاب رہیں۔ پھر فلاپ فلمیں شروع ہو گئیں جس کا سلسلہ 1979 کی کام یاب فلم ”سنگم“ سے ٹوٹا جس کا گانا ”ڈفلی والے ڈفلی بجا“ گلیوں گونجتا رہا۔

1980 میں فلم ”قرض“ نے ایک بار پھر رشی کپور کو فن کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور پھر امیتابھ بچن اور شتروگھن سینا کے ساتھ فلم ”نصیب“ خاص کام یاب رہی۔

1980 کے عشرے میں رشی کپور کوئی درجن بھر فلموں میں نظر آئے اور کروڑوں شائقین کو محظوظ کیا لیکن اس دوران میں ان کی صرف دو فلمیں غیر معمولی کہی جا سکتی ہیں 1982 میں ”پریم روگ“ جس میں وہ پدمنی کولہا پوری اور شمی کپور کے ساتھ نمودار ہوئے اور 1988 کی فلم ”ایک چادر میلی سی“ جس میں ہیما مالنی اور پونم ڈھلوں بھی تھیں۔ دونوں فلموں میں اہم سماجی مسائل اور ممنوعہ موضوعات پر بات کی گئی تھی۔

ایک چادر میلی سی، راجندر سنگھ بیدی کے اسی نام کے ناول پر مبنی تھی۔ فلم کی کہانی دیہی پنجاب کے سکھ خاندان کے گرد گھومتی ہے جس میں رشی کپور نے ایک چھوٹے بھائی کا کردار بخوبی ادا کیا ہے جو اپنے بڑے بھائی کے قتل کے بعد زبردستی اپنی بھابھی سے بیاہ دیا جاتا ہے۔ اس فلم میں تجارتی سے زیادہ فنی صلاحیتوں کا استعمال کیا گیا اور فلم کو خاص پذیرائی ملی۔

1990 کے عشرے میں رشی کپور کی فلموں فہرست بڑھتی گئی لیکن صرف ایک فلم ایسی ہے جسے یاد رکھا جاسکتا ہے 1993 میں بننے والی فلم ”دامنی“ لیکن اس فلم میں بھی اداکارہ میناکشی چھائی ہوئی ہے پھر بھی رشی کپور نے اچھی اداکاری کی ہے۔

اس کے بعد آخری پچیس سال میں رشی کپور کی فلمیں کامیڈی پر زیادہ مبنی تھیں جنھوں نے ناظرین کو خوب ہنسایا لیکن غالباً کسی بھی فلم کو عظیم یا شان دار قرار نہیں دیا جاسکتا جس میں رشی کپور نے ناقابل فراموش اداکاری کی ہو۔ پھر بھی رشی کپور 2020 میں اپنی موت تک خاصے خوش باش رہے۔

اس وقت ان کی عمر صرف 67 سال تھی۔

آخری برسوں میں ٹویٹر پر بھی خاصے مصروف رہے اور پاک بھارت امن اور اچھے تعلقات کے لیے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ پشاور میں اپنے آبائی مکانات اور علاقے دیکھنے آئیں۔

وہ ہر قسم کے نسلی اور لسانی تعصب سے آزاد تھے اور تمام مذاہب کا احترام کرتے تھے۔ وہ بڑے شوق سے اپنے مسلمان خاندانی دوستوں کا ذکر کرتے تھے جن میں خواجہ احمد عباس اور یوسف خان ( دلیپ کمار ) کی راج کپور سے دوستی کا خاص ذکر ہوتا تھا۔ اگر آپ مجھ سے رشی کپور کی بہترین فلموں کا پوچھیں تو میں کہوں گا آپ ”دامنی“ ، ”ایک چادر میلی سی“ اور ”پریم روگ“ ضرور دیکھیے۔

شاید رشی کپور اپنی فلموں کا زیادہ سمجھداری سے انتخاب کرتے تو بہت اچھی فلمیں دے سکتے تھے۔

لیکن ان کے دور میں امیتابھ بچن اور ششی کپور جی جیسے اداکار چھائے ہوئے تھے اس لیے رشی کپور کام یاب تو ہوئے مگر بلندیوں کو نہ چھو سکے اور اپنے خاندان کے بڑوں کے سائے میں ہی چلتے رہے۔

اب یہاں یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ میں اچھی اور بری فلم میں تمیز کیسے کرتا ہوں تو میری تعریف یہ ہے کہ اگر کوئی فلم آپ کو مشغول رکھے اور آپ دلچسپی کھوئے بغیر پوری فلم دیکھ لیں تو وہ اچھی فلم ہوتی ہے جس کے بعد آپ کو افسوس نہ ہو کہ آپ نے وقت ضائع کیا ہے اگر آپ اس فلم کو دوبارہ دیکھنا چاہیں تو وہ بہت اچھی فلم ہوگی اور اگر کسی فلم کو بار بار دیکھنا چاہیں تو وہ بہترین فلموں میں شمار کی جا سکتی ہے۔

یہی طریقہ میں تمام فنی شعبوں پر لاگو کرتا ہوں اگر کوئی ناول یا افسانہ ایک بار دل چسپی سے پورا پڑھ جائیں اور افسوس نہ ہو تو وہ اچھا ناول یا افسانہ ہو گا اگر آپ اسے دوبارہ پڑھنا چاہیں تو بہت اچھا اور بار بار پڑھنا چاہیں تو بہترین یا شان دار اور شاہ کار۔

لیکن بات اتنی سادہ بھی نہیں ایک اچھا فن پارہ مقامی طور پر جانا جاتا ہے ایک بہت اچھے فن پارے کو پورے خطے یا کئی ممالک میں پذیرائی ملتی ہے جب کہ ایک شان دار یا شاہ کار فن پارہ حدود سے آزاد ہوتا ہے اور آفاقی طور پر سراہا جاتا ہے۔ پھر وقت کا سفر بھی آ جاتا ہے کیوں کہ ایک شاہ کار فن پارہ وقت کی قید سے بھی نکل جاتا ہے اور نسلوں اور صدیوں تک باقی رہتا ہے۔ جسے وہ نقاد بھی سراہتے ہیں جنہوں نے کئی صدیوں کے تخلیق کردہ فن پارے دیکھے ہوں۔

اگر ہم یہ فارمولا رشی کپور اور عرفان خان پر لاگو کرتے ہیں تو معلوم ہو گا کہ رشی کپور پچاس سے زیادہ سال کام کرنے کے باوجود اور 150 کردار ادا کر کے بھی صرف درجن بھر اچھی فلمیں دے سکے جو ان کے بل پر کھڑی ہوں اور چند ہی شاہ کار دے سکے۔ جنہیں بار بار دیکھا جاسکتا ہے۔

رشی کپور کے مقابلے میں عرفان خان نے کہیں بہتر پیمانے کے کردار تخلیق کیے اور وہ بھی نسبتاً کم عرصے میں۔ عرفان کو اپنا راستہ خود اپنے خون پسینے سے نکالنا پڑا کیوں کہ ان کا خاندانی پس منظر خاصا مختلف تھا اور نہ ہی ان کے پاس رشی کپور جیسے وسائل تھے۔ انہیں اپنا بڑا کردار حاصل کرنے سے قبل کم از کم پندرہ سال کی محنت شاقہ سے گزرنا پڑا۔ پھر انہوں نے خود کو ایک بڑا متاثر کن اداکار ثابت کر دیا۔

ان کے شاہ کار کردار طول و عرض میں مقبول ہوئے اور نقادوں کی توجہ حاصل کی۔ ان کی کئی فلمیں آپ بار بار دیکھ سکتے ہیں۔ اگر رشی کپور بڑے فلمی ستارے تھے تو عرفان ایک مہان کلا کار۔ گو کہ ان کی فلمیں تجارتی بنیادوں پر اتنی کام یاب نہیں ہوئیں جتنی رشی کپور کی۔ لیکن فن کی دنیا میں ایسا ہوتا ہی ہے۔ عرفان کے کھاتے میں کوئی ”بوبی“ یا ”لیلیٰ مجنوں“ جیسی فلم نہیں آئی کیوں کہ ان کی کردار نگاری خاصی مختلف تھی اور فن کے دیگر پیمانوں پر پورا اترتی تھی جو زیادہ تر تجارتی نہیں تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments