سیاسی کارکن


سیاست کو خدمت کا نام دیا جاتا ہے۔ اور یقیناً یہ خدمت ہی ہوگی۔ ورنہ کسی ایک شخص کے پیچھے ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں لوگ کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ نعرہ بازی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ خود کی جان نچھاور کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ سیاست ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ اور اس کی اپنی روایات ہوتی ہیں۔ سیاست کسی ڈسپلن میں رہتے ہوئے، عوامی فلاح کے لئے منظم جدوجہد کا نام ہے۔ جس میں ایک ضابطہ اخلاق متعین ہوتا ہے۔ جس کا ماننا ہر سیاسی کارکن اور ممبر کا فرض ہوتا ہے۔

سیاسی کارکن کی تعریف کی جائے تو ایسا شخص جو کسی سیاسی جماعت کا ممبر ہو، اس کے مینی فیسٹو کو پڑھ کے، جان کے شامل ہوا ہو۔ جس کی تربیت باقاعدہ سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے ہو چکی ہو۔ سیاسی تاریخ سے متعارف ہو۔ سیاسی جماعت کے نظریہ کو باقاعدہ عقل و شعور سے پرکھنے وا لا ہو۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی بات کی جائے، تو اس وقت ایک سو چھیالیس سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ جن میں پندرہ کے قریب بڑی اور نامور سیاسی جماعتیں پائی جاتی ہیں۔ لیکن ان تمام سیاسی جماعتوں کی سیاسی تاریخ کو پرکھا جائے تو کسی ایک سیاسی جماعت نے کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں دیا۔ جس کے تحت ان کے ماننے والے سیاسی کارکن کی سیاسی تربیت کی گئی ہو۔ ان سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگ جماعت کے جیالے ہو سکتے ہیں۔ شیر جوان ہو سکتے ہیں، جنونی ہو سکتے ہیں، یا پھر کوئی بھی ایسا جوانمرد نام دیا جاسکتا ہے۔ جس سے طاقت کی عکاسی ہوتی ہو۔ مگر کسی جماعت نے اپنے کارکنوں کو سیاسی کارکن بنانے کی طرف توجہ نہیں دی۔ کوئی ایسا منظم لائحہ عمل ترتیب نہیں دیا گیا۔ جس کے تحت اپنے جیالوں، شیروں اور جنونیوں کو سیاسی تاریخ سمجھائی جا سکے، سیاسی سمجھ بوجھ دی جا سکے، سیاست، سماج اور معیشت کی رشتہ داری کو دکھلایا جا سکے۔ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اپنے کارکنوں کو نعروں، ہلڑ بازی اور ڈیروں کی رونق کا حصہ بنا کر ہی رکھا گیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے، ایسا مثبت کام سیاسی جماعتوں نے کیوں نہیں کیا؟

اس لئے کہ سیاسی تربیت کا صاف مطلب سیاسی شعور بنتا ہے۔ سیاسی شعور نہ صرف انسانی آنکھ میں روشنی لاتا ہے، بلکہ سیاست، معیشت اور سماج کو پرکھنے کا موقع بھی دیتا ہے۔ سیاسی تاریخ پڑھانے اور سیاسی شعور دینے سے سیاسی جماعت پہ کھل کے سوالات اٹھیں گے۔ جمہوری روایات کو اپنانے کی چہ میگوئیاں ہوں گی۔ جماعت کے اندر شفاف الیکشن کی باتیں ہوں گی۔ سیاسی جماعت کو تنقیدی سوالوں کا جواب دینا پڑے گا۔ جس سے چبھن ہوتی ہے۔ ان سیاسی جماعتوں میں شامل الیکٹیبلز جو کسی بھی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ ان کی جیت یقینی ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا اثر و رسوخ ووٹرز اور اپنے حلقہ پہ بہت ہوتا ہے۔ وہ بھی سیاسی تربیت کے خلاف ہی رہیں گے۔ ان کو بھی بس نعرے لگانے والے اور ان کے ڈیروں کو رونق بخشنے والے چہرے اور سر ہی چاہیے ہوتے ہیں۔

سیاسی کارکن کی تربیت نہ ہو نے کا نقصان؟

اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے، کہ حقیقی سیاسی لیڈرشپ کا فقدان رہتا ہے۔ جماعت سے وابستہ لوگ سیاسی جماعت نہیں بلکہ کسی شخصیت اور خواب کے پیچھے گھومتے بند دماغ ہوتے ہیں۔ جو اس محبت اور عشق میں اپنی آنکھیں اور کان بند رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگ سیاسی تاریخ کو بھی کسی کھاتے میں نہیں رکھتے ہیں۔ مختصر یادداشت کے مالک اور عقیدت کے مارے ہر ہوائی قلعہ کی تعمیر میں بطور مزدور مفت میں کام کرتے رہتے ہیں۔ پھر ہجوم در ہجوم در ہجوم رہنا پسند کرتے ہیں۔ جس کا اندازہ آج کل کی سیاسی جماعتوں میں پائے جانے والے ایسے کارکنوں کے گروہ سے لگایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).