انتخابی اصلاحات بمقابلہ انتخابی شفافیت


عمومی طور پر سیاسی حلقوں یا سیاسی پنڈتوں کے بقول موجودہ سیاسی صورتحال اور اس میں جو بگاڑ ہے اس کا نتیجہ اس برس 2022 انتخابات کا سال ہو سکتا ہے۔ اس بات کے کئی اشارے نئی سیاسی حکومت نے بھی دیے ہیں جہاں مختلف وفاقی وزرا اور ان کی اتحادی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اسی برس عام انتخابات ناگزیر ہیں۔ پاکستان میں منصفانہ اور شفاف انتخابات جس پر سب سیاسی فریقین سمیت دیگر افراد یا گروہ کا متفق ہونا مشکل لگتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں جب بھی انتخابات ہوئے ان کی سیاسی حیثیت کافی حد تک متنازعہ رہی ہے۔

ایک وجہ تو یہاں عملی طور پر انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے کی کوئی اچھی روایت موجود نہیں ہے۔ جو جماعت انتخابات جیتی ہے اس کے بقول انتخابات شفاف جبکہ ہارنے والے اسے دھاندلی سے جوڑتے ہیں۔ یہ طرز عمل انتخابات کی سیاسی ساکھ اور شفافیت پر جہاں مختلف نوعیت کے سوالات کو عملی طور پر پیدا کرتا ہے وہیں سیاسی قیادتوں کے داخلی مسائل کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

انتخابات کے تناظر میں انتخابی اصلاحات ہمیشہ سے یہاں ایک سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ رہا ہے۔ کیونکہ جب بھی ملک میں انتخابات کا ماحول پیدا ہوتا ہے تو یہاں انتخابی اصلاحات کی نئی بحث شروع ہوجاتی ہے۔ انتخابی اصلاحات کے نام پر یہاں مختلف ادوار میں کئی انتخابی پالیسیاں یا قانون سازی کی گئی، مگر انتخابی شفافیت کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ ایک بار پھر نئے انتخابات کے تناظر میں انتخابی اصلاحات کی بات سیاسی سطح پر بڑی شدت سے کی جا رہی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں بننے والی نئی مخلوط حکومت کے بقول ان کا بھی ایک بڑا سیاسی ایجنڈا عام انتخابات سے قبل نئی انتخابی اصلاحات ہوں گی ۔ یہ جو سیاسی جماعتیں اس وقت اقتدار کی سیاست کا حصہ ہیں ان کا ہمیشہ سے یہ ہی موقف رہا ہے کہ 2018 کے انتخابات کی حیثیت ایک متنازعہ انتخاب کی تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب کیا سیاسی سطح پر موجود حکمران طبقہ ایسی کون سی عملی سیاسی اصلاحات کرسکے گا جس پر سب کا اتفاق ممکن ہو سکے گا؟

عمومی طور پر اس وقت انتخابی اصلاحات کے تناظر میں سب سے زیادہ گفتگو چار اہم نکات پر مبنی ہے۔ اول الیکشن کمیشن کی سیاسی، انتظامی و قانونی اور مالی خود مختاری، دوئم الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال، سوئم دیار غیر پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق، چہارم الیکشن کمیشن کی سطح پر صوبائی ارکان کی تقرری شامل ہے۔ تحریک انصاف کی توجہ کا بنیادی مرکز الیکٹرانک ووٹنگ اور دیار غیر پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے معاملہ پر سب سے زیادہ حساسیت رکھتی ہے۔

اسی تناظر میں ان دونوں اہم امور کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے ان کے حق میں عملاً پالیسی یا قانون سازی بھی کی۔ لیکن کل کی حزب اختلاف اور آج کی حکومت اس پر اپنے شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان ترامیم یا اصلاحات کی مدد سے سب سے زیادہ سیاسی فائدہ تحریک انصاف اور نقصان ان کے سیاسی مخالفین کو ہو گا۔ اس لیے نئی انتخابی اصلاحات یا ترامیم میں الیکٹرانک ووٹنگ اور دیار غیر پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حق کے معاملات پر مخالفانہ ترمیم سامنے آ سکتی ہے۔ اسی طرح نئے انتخابات کے حوالے سے نئی مردم شماری کی بات بھی کی جاتی ہے کہ یہ انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہی منعقد ہونے چاہیے بالخصوص سندھ سمیت دیگر چھوٹے صوبوں میں پرانی مردم شماری کے تحت انتخابات کی قبولیت پر اعتراضات موجود ہیں۔

بنیادی طور پر ہر حکومت انتخابی اصلاحات کو اپنے حق میں ایک بڑے ”سیاسی ہتھیار“ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ہر حکومت ایسی کوشش کرتی ہے کہ انتخابی اصلاحات کے نام پر ایسی ترامیم کا سہارا لیا جائے جو ان کے ذاتی سیاسی مفادات کو زیادہ فائدہ دے سکے۔ ماضی میں ہم نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے دو بڑی پیش رفت دیکھی تھیں۔ اول 2014 میں تحریک انصاف کی جانب سے انتخابی دھاندلیوں پر ہونے والا دھرنا اور اس کے نتیجے میں 35 رکنی پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات تشکیل دی گئی تھی۔

اس کمیٹی کی متفقہ طور پر سفارشات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ دوئم 2013 میں ہونے والے انتخابات اور دھاندلی کے الزامات کے نتیجے میں پہلی بار ”جوڈیشل کمیشن کی تشکیل“ ممکن ہو سکی تھی۔ اس کمیشن کا مقصد انتخابی دھاندلی کے الزامات کو جانچنا تھا۔ اس کمیشن نے اپنی حتمی فیصلہ میں انتخابی دھاندلی کی بجائے عملی طور پر انتخابی بے ضابطگیوں پر 42 نکات پر مبنی سفارشات دی تھیں اور الیکشن کمیشن کو پابند کیا تھا کہ وہ ان سفارشات کی مدد سے انتخابی نظام کی شفافیت کو یقینی بنائیں، مگر ایسا کچھ ہمیں 2018 کے انتخابات میں حکومتی یا الیکشن کمیشن کی سطح پر اس پر عملدرآمد کا نظام دیکھنے کو نہیں مل سکا اور سیاسی فریقین 2018 کے انتخابات کو بھی ایک متنازعہ حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔

ہمارا بنیادی مسئلہ جہاں مربوط اور ٹھوس انتخابی اصلاحات ہیں وہیں ہمارا داخلی سیاسی نظام ہے جو پالیسیوں اور قانون سازی کے باوجود کئی طرح کے سیاسی تضادات کا شکار ہے۔ کیونکہ ہمارا مجموعی سیاسی طرز عمل سیاسی قیادت سے لے کر سیاسی جماعتوں اور سیاسی کارکنوں تک ہم کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ایک طرف سیاسی مسائل ہوتے ہیں تو دوسری طرف انتظامی مسائل، الیکشن کمیشن سے جڑے مسائل یہاں تک کہ اسٹیبلیشمنٹ کی مداخلتوں کے معاملات بھی سرفہرست ہیں۔

سوال یہ ہی ہے کہ اگر واقعی ہم نے شفاف انتخابی اصلاحات یا شفاف انتخابات چاہتے ہیں تو پھر حقیقی معنوں میں ”بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا“ ۔ کیونکہ شفاف انتخابات یا اصلاحات یا پالیسی سمیت قانون سازی کی باتیں کرنا آسان جبکہ اس کو یقینی بنانا اور عملدرآمد کے نظام کی شفافیت کو قائم کرنا زیادہ مشکل لگتا ہے۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی بھی سیاسی جماعتوں کو اپنی حمایت میں الیکشن کمیشن کا طرز عمل نظر آتا ہے تو یہ جماعتیں ان کی حمایت میں اور اگر ان کا رویہ ان جماعتوں پر منفی ہوتا ہے تو یہ ان کی مخالفت میں کھڑی ہوجاتی ہیں۔

حالیہ سیاسی بحران کے حل میں حزب اختلاف یا تحریک انصاف فوری انتخابات کی حامی ہے اور اس پر وہ ایک بڑا سیاسی دھرنا بھی اسلام آباد دینے کا فیصلہ کرچکی ہے، حتمی تاریخ کا انتظار ہے۔ عمران خان کے بقول ان کا دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ملک میں نئے عام انتخابات کا اعلان نہیں ہوجاتا۔ جب کے اس کے برعکس الیکشن کمیشن کا یہ عندیہ بھی سامنے آیا ہے کہ اگر عام انتخابات کے تناظر میں نئی مردم شماری کی جاتی ہے تو اگلے عام انتخابات مئی 2023 سے پہلے ممکن نہیں ہوں گے ۔

اس سے قبل الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں پیشی پر واضح طور پر عدالت کو پیغام دیا تھا کہ جلد سے جلد نئے عام انتخابات کا انعقاد اکتوبر تک ہی ممکن ہوسکتے ہیں۔ لیکن اب نئی مردم شماری، حلقہ بندیوں سمیت ضروری قانونی و آئینی تقاضوں کی تکمیل کے لیے ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ ان کے بقول ساتویں مردم شماری یکم اگست 2022 سے شروع کی جائے گی اور اس کے نتائج الیکشن کمیشن کو دے دیے جائیں گے۔ یکم جنوری 2023 سے نئی حلقہ بندیاں کرنا ہوں گی جو کم از کم 4 ماہ میں مکمل ہوں گی۔

جب کے سیاسی محاذ پر حزب اختلاف تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ ان کی حیثیت متنازع ہو گئی ہے اور وہ استعفی دے کر گھر جائیں۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ تحریک انصاف چیف الیکشن کمشنر کے خلاف عدالت بھی جانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ 27 اپریل کو ملک بھر میں تحریک انصاف نے جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کی مستعفی ہونے پر ملک گیر مظاہرے بھی کیے ہیں۔

حکومت اور ان کے اتحادیوں کی یقینی طور پر کوشش ہوگی کہ وہ ملک میں فوری الیکشن کی بجائے یہ ہی حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف بھی عوامی مدد سے ایک بار پھر ایسا سیاسی ماحول کو پیدا کرنا چاہتی ہے کہ فوری انتخابات ہی مسئلہ یا بحران کا حل بن سکے۔ دوسری جانب پارٹی فنڈنگ مقدمہ، منحرف ارکان کی رکنیت کے خاتمہ پر بھی تحریک انصاف الیکشن کمیشن سے نالاں نظر آتی ہے۔

ایک طرف انتخابی اصلاحات، نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں پر بات کی جا رہی ہے تو دوسری طرف فوری انتخابات کے لیے عمران خان کی سیاسی تحریک بھی سیاسی میدان میں موجود ہے۔ ایک طرف تحریک انصاف کا سیاسی دباؤ حکومت پر ہو گا تو دوسری طرف وہ الیکشن کمیشن پر بھی دباؤ ڈال کر ان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کرے گا۔ اس لیے ایک طرف فوری انتخابات دوسری طرف حکومت اپنی مدت ختم کر کے انتخابات کو یقینی بنانا چاہتی ہے اور تیسری طرف الیکشن کمیشن کی نئے انتخابات کے لیے اپنی تیاریوں کے درمیان ایک بڑی سرد جنگ دیکھنے کو مل رہی ہے جو کسی بھی صورت میں ملکی مفاد میں نہیں ہو گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments