پستیوں کا سفر


جو لوگ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حاضری کا شرف حاصل کر چکے ہیں وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہاں انسان اپنی ہستی بھی بھول جاتا ہے۔

ہم لوگ پچھلے تقریباً 17 سال سے یہاں مقیم ہیں مگر ہمیں حرمین شریفین میں حاضری کے دوران آج تک اپنے بیگ سے فون نکال کر کیمرہ استعمال کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی بلکہ یہ کیفیت تو گھر سے نکلتے وقت ہی آپ کے دل پہ طاری ہو جاتی ہے کہ آپ کس مقدس سفر پر روانہ ہو رہے ہیں، کس مقام کی جانب بڑھ رہے ہیں، احرام باندھتے ہی ’لبیک اللھم لبیک‘ کا ورد آپ کے احساسات کو بدل ڈالتا ہے۔ ہم نے ہمیشہ سوشل میڈیا پر مقامات مقدسہ کی جو تصاویر لگائیں وہ بھی انٹرنیٹ سے لیں۔

جو کچھ کل سے مسجد نبوی کے واقعہ پر ہم لوگ پڑھ اور سن رہے ہیں، اس پر سب مسلمانوں کی طرح ہم بھی بہت دکھی اور شرمندہ ہیں اور یہی کہوں گی کہ اللہ کریم ہمارے حال پہ رحم فرمائے کہ ہم نے خود کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

سیاست ہو، تجارت ہو یا پھر زندگی کا کوئی بھی معاملہ جب آپ حد سے باہر نکل جاتے ہیں اور ہر ضابطہ توڑ دینے پر تل جاتے ہیں تو ذلت اور رسوائی ہی آپ کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

جو قوم معیشت میں کمزور، تعلیم میں دنیا سے پیچھے اور سیاست میں ناپختہ ہو اس کو اخلاقی پستی کی انتہاؤں کی جانب گامزن کر دیا جائے تو اس کا انجام بعید از قیاس تو نہیں۔

میں اس واقعے کو اسلامی حوالے سے پرکھنا نہیں چاہتی کیونکہ میں خود کو ہرگز اس قابل نہیں سمجھتی اور میرا خیال ہے کہ ہر مسلمان حرمت رسول ﷺ کی بنیادی تعلیمات ”لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام“ سے واقف ہے۔

ہاں میں اس قبیح فعل کے معاشرتی اور سیاسی اثرات پر بات کرنا ضروری سمجھتی ہوں کیونکہ اس بدقسمت قوم کے ساتھ وقتاً فوقتاً مختلف کارڈ کھیلے گئے اور یہ بنا سوچے سمجھے ہر سیاسی دور میں مہرہ بنتی چلی گئی۔

آئیے مذہبی فرائض کی مل جل کر ادائیگی کرتے مملکت خدا داد پاکستان کے دو موجودہ سیاسی حلیفوں کی سیاسی کتاب کے ابتدائی اوراق کو پڑھتے ہیں جہاں یہ دونوں اقتدار کی مسند کے لئے دست و گریباں تھے اور ایک دوسرے کے پیٹ کو پھاڑ کر ریاست کا مال نکال کر عوام کے قدموں میں ڈال دینے کے سیاسی دعوؤں سے سادہ عوام کا پیٹ بھرتے تھے۔ باری باری حکومت میں آنے اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول اور سیاسی کمزوریوں کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ سے منہ کی کھا کر اپنے نامکمل پارلیمانی ادوار کے ساتھ یہ دونوں پارٹیاں جب میثاق جمہوریت جیسے سنگ میل تک پہنچی ہی تھیں کہ ایک فریق سے سیاست تو کیا زندگی ہی چھین لی گئی اور یہ اسی خاندان کا چشم و چراغ تھیں جنہوں نے اپنے والد صاحب کو اس کھیل کی نذر ہوتے دیکھا تھا۔

ان کا صاحبزادہ جب اپنی ماں کی یاد میں آنکھیں پونچھتا قومی اسمبلی میں کھڑا ہوا تو اس کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ وقت کی آواز بن گئے اور ذوالفقار علی بھٹو ایک بار پھر بلاول زرداری بھٹو کی شکل میں وزیر خارجہ بن کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاسی افق پر نمودار ہو گئے۔ بلاول بھٹو اس کابینہ کا حصہ بنے ہیں جس کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے بھائی ہیں یعنی وہ نواز شریف جو مسلم لیگ نون کے حقیقی صدر اور تین بار اس ملک کے وزیراعظم بنے اور جنہوں نے ہمارے حساس ادارے کے افسروں کا نام لے کر سیاسی مداخلت کا ذکر کیا مگر اس پر نہ تو کوئی تفتیش کی گئی اور نہ ہی تصدیق و تردید کرنا ضروری سمجھا گیا۔

چیزوں کو بے لگام چھوڑ دینے کا یہ سلسلہ قوموں کے لئے زہر قاتل ہوا کرتا ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ جو کچھ ہم آج بھگت رہے ہیں یہ اس سلسلے کی ہی کڑی ہے اور ہمیں بطور قوم اس کھیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر کل کے سیاسی حریف مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی آج کے سیاسی حلیف بن سکتے ہیں تو کل کو تحریک انصاف بھی ان کے ساتھ شیر و شکر ہو جائے گی مگر وہ جنریشن جس کو سیاسی اکھاڑے میں اخلاقی تباہی کے دہانے پہ کھڑا کر کے لاوارث چھوڑ دیا گیا ان کا کیا بنے گا جو کہ اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی داؤ پر لگانے پہ تلی ہے۔

میں اپنے تھینک ٹینکس کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتی ہوں کہ جناب والا آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اور یہ اپنے ساتھ بے شمار چیلنجز کے ساتھ ساتھ جو مثبت چیز ہمارے لئے لایا ہے وہ حقائق تک رسائی ہے۔ اب تھوڑی سے تگ و دو کے بعد ہم کسی بھی معاملے کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس وقت ہمارے دانشوروں کا کردار بڑا اہم ہے اور ان کو اس قوم کو شخصیت پرستی اور سیاسی سراب سے نکالنے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔

کسی معاشرے کے لئے اس سے بڑی تباہی کیا ہوگی کہ اس کو ایسے خواب دکھائیں جائیں جن کا دور دور تک حقیقت سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ جب سے پاکستان بنا ہے ہم نے بطور قوم سیاسی سفر بہت سست روی سے کیا ہے اور اب عوام اس کی وجہ سے بھی کسی حد تک آگاہ ہو چکے ہیں۔ اس سفر میں جو مثبت پیش رفت میثاق جمہوریت کی شکل میں آئی اس کو نقصان پہنچانے کے لئے ایک سیاسی بساط بچھائی گئی جس نے سراب کو خواب بنا کر پیش کیا اور عوام کی اجتماعی سوچ کو یرغمال بنا کر ”چور چور، کرپشن کرپشن“ کے نعروں اور محض الزام تراشیوں سے سیاست دانوں کو مجموعی طور پر بدنام و رسوا کر کے ملک کے آئین، جمہوری عمل اور ملکی سالمیت کے ساتھ کھلواڑ کیا جس کا ادراک بے حد ضروری ہے ورنہ یہ بد اعتمادی اور سیاسی پستی آنے والے الیکشن میں غریب اور بے کس قوم کا خون مانگے گی۔

جو اس سیاسی سراب کے بظاہر سپورٹر ہیں انہوں نے اس ملک کے معاشرتی ڈھانچے کو بدنما اور ہر ادارے کو بے اعتبار کر دیا ہے۔ اصل میں یہ سپورٹ تو ان کی معاشرتی محرومیوں کی عکاس ہے جس کی آڑ میں وہ اپنا غصہ اس طاقت پر نکالتے ہیں جس کو وہ اختیارات کا اصل مرکز سمجھتے ہیں مگر یہ سب کرتے ہوئے مزید بگاڑ پیدا کرتے چلے جاتے ہیں کہ صحیح سمت کا تعین کرنے والا فی الوقت کوئی نہیں لہذا اسے بہتری کی جانب لانے میں کتنا وقت درکار ہے، کوئی نہیں جانتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments