محمد اکرم ڈوگر : شخصیت ایسی کہ ڈھونڈے نہ ملے!


معصومیت ایسی :
کراچی یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے پہلے دن کی پہلی کلاس۔ موضوع ایڈورٹائزنگ۔

ابھی تو، نوواردوں کا آپس میں تعارف کا مرحلہ بھی مکمل نہیں ہوا اور بیچ میں یہ کلاس کہاں سے آ گئی، مگر سب، خوش دلی یا بے دلی کے بغیر، اجنبی ماحول کا سامنا کرنے، کلاس روم میں سما گئے ہیں۔ ایک خوبصورت خاتون ٹیچر اپنے ابتدائی لیکچر کے لئے تیار نظر آتی ہیں۔ نئے چہرے ان کے لئے بھی شاید فوری دلچسپی کا باعث نہ ہوں مگر انھوں نے اپنے لکچر کا آغاز کر دیا ہے۔ نیا ماحول، ہر کسی کو نامانوس دکھائی دے رہا ہے اس لئے بہ ظاہر لیکچر پر کوئی بھی اپنی پوری توجہ مبذول کرنے سے قاصر نظر آتا ہے سوائے ایک شخصیت کے جو پورے انہماک سے ٹیچر کی گفتگو پر متوجہ ہے۔

ایسے جیسے کوئی کام کی بات، کسی عدم توجہی کی نذر نہ ہو جائے۔ لیجیے لیکچر تمام ہوا اور متوجہ طالب علم نے بلا توقف سوال کے لئے ہاتھ بھی بلند کر دیا۔ ٹیچر مطمئن ہیں کہ لیکچر، دلچسپی سے نہ صرف سنا گیا بلکہ اس سے تجسس میں بھی اضافہ ہوا۔ انھوں نے بہت اعتماد اور خوشی سے آنے والے سوال کا انتظار کیا۔ معصومیت سے لبریز سوال، یقیناً ان کی توقع کے برخلاف ہو گا، ”کیا آپ انکل عرفی کی بینا ہیں“ ؟ ٹیچر، اب توجہ اور انہماک کی وجوہات اچھی طرح جان چکی تھیں سو مسکراہٹ ہی اس مشاہدے کا صحیح جواب تھا۔

پہلی کلاس کے پہلے سوال نے سب پر یہ واضح کر دیا تھا کہ اکرم ڈوگر سے نہ کبھی کوئی معصومیت اور سادگی کو جدا کرسکے گا اور نہ اکرم ڈوگر نے زندگی بھر سوال اٹھانے اور ان کے جواب ڈھونڈنے سے باز آنا ہے کہ اسے کسی حجاب اور ہچکچاہٹ کے، حقیقت کو پرکھنے اور اصلیت کو جاننے کا غیر معمولی جنون ہے۔

سنجیدگی ایسی :

جب طالب علم خود کو سلیبس اور کلاس روم کا قیدی بنا لیتے ہیں اور اسی دائرے کو، حصول علم سمجھنے کے مغالطے کا شکار ہو جاتے ہیں، اکرم ڈوگر نے مکمل شعور کے ساتھ ذہنی آزادی اور فکری اڑان کا راستہ اختیار کیا۔ دانش اور دانشوروں کا کچھ یوں تعاقب کیا، کہ کہیں یہ موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے سو جب جہاں ممکن ہو، سیراب ہو لیا جائے۔ جتنی شدت سے کتاب سے محبت کی، اتنے ہی لگاؤ کے ساتھ کتاب کی سطح سے بلند ہو جانے والی انسان دوست شخصیات سے راہ و رسم میں دلچسپی لی۔

جب دوسرے ساتھی، کلاسوں کے ختم ہونے کو اس دن کا اختتام سمجھ لیتے تھے، وہ اس کے لئے ایسی شخصیات کی محفل میں بیٹھ کر، مزید جاننے، کچھ نیا کھوجنے اور نئے سوالات اٹھانے کے عمل کا آغاز ہوتا تھا۔ اس جستجو کو بڑھاوا، ہوسٹل میں قیام کے سبب، میسر اضافی وقت سے بھی خوب ملا جس سے شاید دوسرے ہوسٹل فیلوز اس طور مستفید نہ ہو سکیں ہوں۔

تخلیقی وابستگی ایسی :

جہاں کسی شخصیت کے حوالے سے متاثر کن بات علم میں آئی، اس سے ملنے کی تڑپ ایسے جاگی کہ جب تک اس تک رسائی نہ ہوئی، بے چینی ختم نہ ہوئی۔ گویا اتفاقاً ملنا بھی کیا ملنا، جذبہ تو تب ہے کہ اسے ڈھونڈ نکالا جائے۔ اشتہاری دنیا کے گرو جاوید جبار کی بنائی پاکستان کی پہلی انگریزی فلم کا چرچا ہو یا متوازی سینما کے مشتاق گزدر کی عام ڈگر سے ہٹ کر بنائی گئیں تخلیقات ہوں، جب ہدف طے کر لیا تو اس تک پہنچنا اور اس کے بارے میں جاننا اور جانتے رہنا بھی لازم ہے۔ تلاش کا یہ سچا روپ، عمومی طور پر کامیابی اور تکمیل سے ہی دوچار ہوا۔ اسی راستے سے اسلم اظہر، حسن جعفر زیدی، احمد سلیم، آغا ناصر اور نہ جانے، کتنے اور ( دانشوروں اور علمی شخصیات ) تک ملنے کی سبیل نکالی۔

صاف دلی ایسی :

سچ اور صرف سچ بولنے کا، خود سے کیا عہد اس بے باکی سے نبھایا کہ ریاکاری، مکاری اور عیاری کو حسرت ہی رہی کہ یہ شخص کبھی ان کی طرف بھی متوجہ ہو۔

حالات اور واقعات کو عقلی سطح پر جانچنے کے بعد ، جو رائے وضع کی اور جسے منطقی جانا، اس کا بلا جھجک اظہار کیا خواہ مقابل یا کوئی بہت ہی قریبی ہی اس کی زد میں آتا ہو۔

ایک موقع پر لاہور کی ایک مارکیٹ میں گھومتے ہوئے، اپنے شہر کے دیرینہ جان پہچان والے وفاقی وزیر نے اکرم ڈوگر کو دیکھ کر سرکاری گاڑی روک لی۔ اس سے قبل، کب کبھی ایسا موقع ضائع کیا تھا، جو، اب کرتے، سو گاڑی میں بیٹھتے ہی گلہ کر ڈالا کہ ساری زندگی آپ کی پارٹی کی حمایت کی مگر نوکری کے لئے مخالفوں نے رابطہ کیا۔ وزیر صاحب نے روایتی حیلے بہانوں سے کام لے کر جان چھڑانی چاہی۔ یہ کہاں ان ڈھکوسلوں سے بہلنے والے۔ نہایت صاف گوئی سے یہ اعلان کر ڈالا کہ اس بار انشا اللہ وقت سے پہلے الیکشن ہو گا اور آپ اس بار کامیاب نہیں ہوں گے۔ یہ کہہ کر، ان کا رد عمل دیکھے بغیر، گاڑی سے اتر کر اپنی راہ لی۔

کہی گئی بات کی تاثیر کہیے کہ آنے والے دنوں میں، ہو بہو ایسا ہی ہوا۔
دانائی / اور دلیل ایسی :

جس سے ملاقات کی، زیر بحث موضوعات اور صورت حال کا اس قدر دیانت داری سے احاطہ کیا کہ شریک گفتگو، شعوری یا لاشعوری طور ہر تا دیر اس کے اثرات سے نہ نکل پاتا۔ لہجے کی سادگی میں دلیل کی آمیزش اس بات کا اظہار ہوتی کہ دی جانے والی رائے یا نقطہ نظر سو فیصد بے لاگ ہے۔ ہم خیال ہو کہ مختلف الخیال، یہ تسلیم کیے بغیر نہ رہتا کہ بات دل کو لگتی ہے اور کیوں نہ لگے کہ کتاب سے اور کتابوں کے مطالعے سے ہمیشہ ایسے ربط رکھا جیسے کتاب نہیں آکسیجن ہو۔ اچھی ( اور اپنی پسند کی ) کی کتاب کی تلاش اور تڑپ، زمانہ طالب عملی سے لے کر زندگی بھر، کبھی ختم نہ ہو پائی۔ جہاں کسی ایسی کتاب تک رسائی ہوئی جس نے دل اور ذہن کو تسخیر کیا، وہیں ساری دنیا میں اس کی منادی کرا ڈالی کہ کہیں کوئی اس نعمت کی لذت سے محروم نہ رہ جائے۔

جرات مندی ایسی :

جو بات کہنے کی ٹھان لی، پھر اس سے کوئی روک نہ سکا۔ اس دھن میں، موقع محل بھی آڑے نہ سکا اور نہ تکلفات کی کوئی دیوار حائل ہو سکی۔ جو بات، دوسرے ہچکچاہٹ، تذبذب یا کسی مصلحت میں کہہ نہ پاتے، اکرم ڈوگر نے، بہ بانگ دہل، کسی لگی لپٹی کے بغیر، وہ بات اپنے سادہ لہجے اور سچے جذبے کے ساتھ پیش کرنے میں ذرا دیر نہ لگائی۔ اس میں، ہر نوعیت کی خاص و عام محفلیں، سیاسی، ادبی، علمی، بلا استثنی شامل ہیں۔ ایک نہایت اعلی سطحی میٹنگ میں دل کا غبار نہایت بے بالی کے ساتھ، کچھ یوں نکالا ”یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب ملک کسی خاص صورت حال سے دوچار ہو، تو فٹ پاتھ پر چلتے، ایک عام فہم آدمی کو اس کا حل سجھائی دے رہا ہوتا ہے مگر، اس بڑی کرسی میں کیا جادو ہے کہ وہ حل، اس کرسی پہ بیٹھے شخص کے ذہن میں نہیں آتا۔“

دوستی ایسی :

خود کو منظر سے چھپا کر، دوست کو نمایاں کرنے اور نمایاں دکھانے کے لیے ہر لمحہ آمادہ رکھا۔ دوست کے دوست سے بھی دوستی اور پھر اس سے آگے اس دوست کے دوست سے بھی یاری۔ یہ وہ سلسلہ تھا جو، شہر در شہر، نہیں معلوم کہاں ختم ہوتا تھا، ہوتا بھی تھا کہ نہیں! ہر دوست کے اندر، اپنے خواب سجانے کی تڑپ اور ویسا، نہ ہوتا دیکھ کر جیسا، اپنے دل میں بسا رکھا ہے، دوستوں سے کھلے دل اور پوری دیانت داری کے ساتھ جی بھر کے خفگی ( اور روٹھنے کے بھی پورے امکانات ) ۔ زندگی میں غالباً کوئی منصوبہ بندی ایسی نہ کی، جس کا کوئی نہ کوئی سرا، دوستوں سے نہ ملتا ہو۔

( مرحوم محمد اکرم ڈوگر، 3 مئی 2020، اپنے آبائی شہر فیصل آباد میں حرکت قلب بند ہونے سے، اس دار فانی سے کوچ کر گئے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments